سائنس داں خلا میں ہونے والی تبدیلیوں کو جاننے کے لیے چیزوں کا سراغ لگانے میں سر گرداں رہتے ہیں ۔حال ہی میں سائنس دانوں نے سپر میسو بلیک ہول کی وجہ سے پیدا ہونے والےایک بہت بڑے دھماکے کا سر اغ لگایا ہے ۔اسے ماہرین نے بگ بینگ کے بعد کا سب سے بڑا دھماکہ قرار دیا جارہا ہے ۔سائنس دانوں کے مطابق زمین سے 390 ملین نوری سال کے فاصلے پر کہکشائوں کے ایک جھرمٹ میں یہ بہت بڑ ادھماکا ریکارڈ کیا گیا ہے ،جس کا منبع ایک بلیک ہول تھا ۔یہ دھماکہ اتنا بڑا تھا کہ اس سے پیدا ہونے والے جھماکے میں 15 ملکی وے (کہکشائیں ) سما سکتی ہیں ۔واشنگٹن میں قائم ناول ریسرچ لیبارٹری سے وابستہ اور اس دھماکے سے متعلق تازہ سائنسی رپورٹ کی مرکزی مصنف سیمونا گیاکِنتُکی کے مطابق یہ دھماکا اتنا بڑا تھا کہ اس سے پیدا ہونے والے گرم گیس کے غبارے میں ہماری کہکشاں جیسی پندرہ کہکشائیں سما سکتی ہیں۔ اب تک ریکارڈ کیے جانے والے جھماکوں سے یہ پانچ گنا بڑا تھا۔
ماہرینِ فلکیات نے اس دھماکے کے مشاہدے کے لیے ناسا کی چندرا ایکس رے رصدگاہ کو استعمال کیاگیا، جب کہ اس کے لیے یورپی خلائی رصد گاہ اور متعدد دیگر زمینی دوربینوں کو بھی باہم استعمال کیا گیا۔ سائنس دانوں کا خیال ہے کہ یہ دھماکا ہزاروں کہکشاؤں کے جھرمٹ اوفیوکس کے مرکز میں ایک بے حد بڑے بلیک ہول کی وجہ سے پیدا ہوا۔ بلیک ہول صرف مادّے کو اپنے اندر ہی نہیں کھینچتے بلکہ جیٹس کی صورت میں مادّے اور توانائی کا اخراج بھی کرتے ہیں۔ ماہرین کاکہنا ہے کہ اس عظیم دھماکے کا پہلا اشارہ 2016ء میں ملا تھا۔ناسا کی رصدگاہ سے لی گئی تصاویر سے واضح ہے کہ افیوکس کہکشانی جھرمٹ میں غیرمعمولی جھکاؤ ہے ،تاہم توانائی کے اس حد تک کے اخراج کے اعداد و شمار کو دیکھتے ہوئے ابتدا میں سائنس دانوں نے اس خیال کو رد کر دیا تھا کہ یہ نجم فشانی (Steller erruption) ہو سکتی ہے۔ بعد میں دو دیگر خلائی رصد گاہوں اور آسٹریلیا اور بھارت میں موجود ریڈیو دوربینوں سے حاصل ہونے والے ڈیٹا سے اس بات کی تصدیق ہوئی کہ یہ بڑا سیاہ دھبا اور گیس کا جھکاؤ اصل میں بہت بڑے دھماکے کا عکاس تھا۔سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اب بلیک ہول ایک مرتبہ پھر خاموش ہو چکا ہے اور اب اس سے مزید جیٹ اسٹریمز باہر نہیں آ رہی ہیں۔