انسان کی خود کو ناقابلِ تسخیربنانے اور موت سے محفوظ رکھنے کی خواہش بہت پُرانی ہے۔اس کے لیے کبھی اُس نے آبِ حیات تلاش کرنے اور بنانے کی کوشش کی تو کبھی خلا میں جاکر مختلف تجربات کیے،مگر تاحال وہ اس کوشش میں کام یاب نہیں ہوسکا ہے۔لیکن اُس کی کوشش ابھی بھی جاری ہے۔ان ہی کوششوں کے نتیجے میںگوگل کے ماہرین نے 2016 ء میں یہ دعوی کیا تھاکہ 2029 ءمیں انسان سپر ہیو من بن جائیں گے ۔
ان کا کہنا تھا کہ ٹیکنالوجی اگلے بارہ برسوںمیں انسانوں کو سُپرہیومن بنا دے گی جو زیادہ طاقت ور ، چست و چا لاک اور صحت مند ہوں گے ۔ 2029ءتک ہمار ے دماغ مشینوں کے ساتھ جُڑجائیں گے،جس کی وجہ سےہماری دماغی کارکردگی کئی گنا بڑھ جائے گی۔ماہرین کے مطابق ٹیکنالوجی پہلے ہی انسانوں پر کا فی حد تک اثر انداز ہو چکی ہے ،جس کی واضح مثال ہماری موبائل فون کی عِلّت ہے اور وہ وقت دور نہیں جب ہمارے دماغ اورجسم میں کمپیوٹرنصب ہوں گے جو ہمیں زیا د ہ اسمارٹ اور چالاک بنادیں گے۔
مذکورہ تحقیق میں شامل ایک ماہر ،کرزویل،جو گوگل لرننگ مشین پروجیکٹ پر کام کر رہے ہیں ، اب تک ان کی پیش گوئیاں 86 فی صدتک درست ثابت ہو چکی ہیں ۔ ان کے مطابق 2029 ءتک کمپیوٹر انسانوں کے بر ابر ذہین ہو جائیں گے اور انہیں انسانی دماغ میں فٹ کر نے سے موجودہ وقت کے انسان کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ اسمارٹ،مضبوط اورذہین افراد وجود میں آجائیں گے۔گوگل کےماہرین کے مطابق وہ اس ضمن میں پہلے ہی تجربات شروع کر چکے ہیں اور اُمید کرتے ہیں کہ 2029 ءتک وہ انسانوں کو سُپر ہیومن میں تبدیل کرنے کے قابل ہوجائیں گے۔ماہرین کے مطابق جس تیزی سے مصنوعی ذہانت (آرٹیفیشل انٹیلی جنس) کے شعبے میں ترقی ہو رہی ہے اسے دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ 20 برسوں میں انجیکشن کے ذریعے بہت چھوٹی مشینیں جسم کے ساتھ جوڑ کر انسانوں کو زبردست طاقت مہیا کی جائیں گی ،جس سے وہ سُپرہیومن بن جائیں گے۔مصنوعی ذہانت کی حامل یہ مشینیں جنہیں نینو مشینز کہا جاتا ہے، ایسے ہی جسم کے ساتھ جوڑی جائیں گی جیسے موجودہ دور میں جسم میں مختلف امپلانٹس کیےجاتے ہیں۔
اُس وقت انسان ہاتھ کے اشاروں سے مختلف آلات کو کنٹرول کر سکے گا۔بعض ماہرین نےسُپرہیومنز کے لیے ’’سائی بورگ ‘ ‘ کی اصطلاح استعمال کی ہے۔ آئی بی ایم کے ہرسلی ا نو و یشن سینٹر کے سینئر موجد، جان میک نمارا کے مطابق ٹیکنالوجی کی مدد سے ایسی انسانی نسل پیدا ہوگی جسے آدھا انسان اور آدھی مشین کہا جاسکتا ہے۔ دودہائیوں میں ہونےو الی ترقی انسان کو شعور اور آگہی کی بلندیوں پر لے جائے گی ۔ ان کے مطابق نینو مشینیں انسانی جسم کے ساتھ جوڑے جانےسے کئی طرح کے طبی فوائد بھی حاصل ہو سکیں گے ۔ مثلا،ً خلیوں،بافتوںاور ہڈیوں کوپہنچنے والے نقصانات کا اثر بہت کم یا ختم کیا جا سکے گا اور انہیں ایسا بنایا جا سکے گا کہ ان میں آئندہ کوئی خرابی پیدا نہ ہوسکے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ ہم اپنے ارد گرد موجودمختلف آلات اشاروں اور خیالات کی مدد سے کنٹر و ل کر سکیں گے۔ صرف یہ ہی نہیں بلکہ مشینوں کی جسم میں موجودگی انسانوں کو سوچنے، سمجھنے اور حسابات کرنے میں بھی زبردست مدد فراہم کرے گی۔
دوسری جانب کیلی فورنیا،امریکاسےیہ خبر آچکی ہے کہ یونیورسٹی آف سدرن کیلی فورنیا کے بایو میڈیکل انجینئرنے ایسی دماغی چپ تیارکرلی ہے جوانسان کے دماغ میں لگائی جاسکےگی، جس سے اس کی یادداشت میں زبردست اضافہ ہوجائےگا اور یوں وہ شخص سُپرہیومن بن جائےگا۔یہ چپ الیکٹریکل سگنل دےگی، جس سے انسان کی یادداشت برسوں تک برقرار رہےگی۔اطلاعات کے مطابق اس وقت فالج کے شکار مریضوں پر اس چپ کے تجربات کیے جارہے ہیں، لیکن مستقبل میں یہ چپ تجارتی طور پر دست یاب ہوگی اور کوئی بھی شخص اپنی یادداشت میں اضافے کے لیے اسے آسانی سے اپنے دماغ میں نصب کر ا سکے گا۔ گرچہ اس وقت یہ منصوبہ کسی سائنس فکشن فلم کی ما نند محسوس ہوتاہے، لیکن ماہرین کو اُمید ہے کہ جلد ہی ایسی چپ عام ہو جا ئےگی۔
اطلاعات کے مطابق اس چپ کو کام یابی کے ساتھ بندروں اور چوہوں کے دماغ میں نصب کرکے تجربات کیے جاچکے ہیں۔واضح رہے کہ میکینکل انجینئراس پر 20سال تک کام کرتے رہے تھے۔ اس چپ اور اس کے لیے بنائے گئےسافٹ ویئرسے ایسے افراد کو بہت فائدہ ہوگا جنہیں بھولنے کی عادت ہے۔یہ چپ تیار کرنے والے ماہرین کو اُمید ہے کہ اس سے الزائمر کے مریضوں کو بھی فائدہ ہوگا۔اس پروجیکٹ کو انہوں نے ’’ الیکٹرکس ‘‘ (ElectRx ) کا نام دیا ہے۔ اس میں جسم کے اندر ایسے چھوٹے آلات داخل کیے جائیں گے،جو برقی ا شا ر و ں کے ذریعے اعضاءکی کارکردگی پر نظر رکھیں گے اور کسی جسمانی نقصان کی صورت میں ان کی کارکردگی بڑھانے کا کام کریں گے۔اس پروجیکٹ کے لیے فنڈز ڈ یفنس ایڈوانسڈ ریسرچ پروجیکٹس ایجنسی (DARPA ) کی جانب سے فراہم کیے جارہے ہیں جو امریکی محکمۂ دفاع کا ذیلی ادارہ ہے اور عسکری ایجادات کا ذمے دار ہے۔اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ’’الیکٹرکس‘‘ کا ہد ف امریکی فوجیوں کو سُپرہیومن بناکر میدان جنگ میں اتارنا ہے، تاکہ جانی نقصان سے محفوظ رہتے ہوئے فتح حا صل کی جاسکے۔
اس پروجیکٹ کے تحت بنائے گئے امپلانٹ اتنے مختصر ہوں گے کہ انہیں سوئی کے ذریعے جسم میں داخل کیا جاسکے گا۔ جسم میں داخل ہونے کے بعد یہ ننھے آلات برقی اشاروںکے ذریعے اعضائے کی نگرانی کریں گے۔ اعضا کے زخمی یا متاثر ہونے کی صورت میں یہ آلات ان اعصاب کو متحرک کر دیںگے جو ان کے افعال کنٹرول کرتے ہیں اور وہ اس زخم کو مندمل کرنے کا کام شروع کردیں گے۔
ان ننھے آلات کی تیاری کا تصور ہمارے جسم کے نگرانی کے مخصوص نظام سے لیا گیا ہے جسے سائنس داں ’’ نیورو ماڈیولیشن‘‘ کہتے ہیں۔ اعصابی نظام میں نیورو ماڈیولیشن دراصل ا عضا کی حالت اور مختلف امراض لاحق ہونے کی صورت میں ان کا طرزعمل مانیٹر کرتا ہے، مگر انسان کے بیمار یا زخمی ہوجانے کی صورت میں یہ کم زور ہو جاتا ہے اور تیزی سے کام نہیں کرپاتا۔مجوزہ امپلانٹ اس قدرتی عمل کو مہمیز د ینے کا باعث بنے گا، جس کے نتیجے میں متأثرہ اعضا کے صحت مند ہونے کا عمل تیز ہوجائے گا۔ اس کام کے لیے گرچہ نیورو ماڈیولیشن ڈیوائسز موجود ہیں، مگر وہ اتنے بڑ ےہیں کہ انہیں انسانی جسم میں داخل نہیں کیا جاسکتا۔
یہ کوئی سازشی نظریہ نہیں بلکہ حقیقت ہے کہ کافی عرصے سے امریکا اور روس سُپرہیومن بنانے کی دوڑمیں مصر و ف ہیں، تاکہ انہیں فوج میں بھرتی کرکے اپنی افواج کو نا قابل تسخیر بنا سکیں۔ ان کا یہ خواب تو نہ جانے کب تعبیر ہوگا، لیکن امریکی سائنس دانوں نے فوجیوں کے جسم اور دماغ تیز ترین بنانے کے لیے ایک مشروب تیار کیاہے۔ایک رپورٹ کے مطابق اس مشر و ب کا نام’’کیٹو اِن اے بوٹل‘‘ہےجو آکسفورڈ یونیورسٹی کے سائنس دانوں نے ایک دہائی کی تحقیق کے بعد تیار کیا ہے اور سان فرانسسکو کی ایک کمپنی نے اس کی وسیع پیمانے پر تیاری شروع کر دی ہے۔
یہ مشروب خالص ’کیٹون ایسٹر‘ (Ketone Ester)سے تیار کیا گیا ہے جسے پینے سے انسانی جسم میں توانائی بھر جاتی ہے، اس کی چربی تیزی سے پگھلنے لگتی ہے اور اس کا دماغ بہت تیزی سےکام کرنے لگتا ہے۔ اس کی 28گرام خوراک میں 120کیلوریز ہوتی ہیں۔ لیکن اس میں چکنائی، پروٹین اور کاربوہائیڈریٹ نہیں ہوتے۔ماہرین کے مطابق جب ہم کاربوہائیڈریٹس کی حامل خوراک کم لینا شروع کرتے ہیں تو ہمارا جسم کیٹوسز (Ketosis)پر منتقل ہو جاتا ہے۔ اس عمل میں جسم میں جمع شدہ چربی ٹوٹ کر کیٹونز میں تبد یل ہوجاتی ہے جو ہمارے پٹھوں اور دماغ کو توانائی د یتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں آدمی کا وزن تیزی سے کم ہونے لگتا ہے۔ یہ مشروب بالکل اسی طرح سے کام کرتا ہے ،تاہم اس کے ساتھ کاربوہائیڈریٹس کی حامل خو را ک سے پرہیز کرنا لازمی نہیں ہے۔
آکسفورڈ یونیورسٹی کی سائیکالوجیکل بایوکیمسٹری کی پروفیسر کیرن کلارک کے مطابق پیزا اورر کاربوہائیڈریٹس کی حامل دیگر اشیائے خورونوش کے ساتھ اس مشروب کا استعمال انسانی جسم کی کارکردگی بڑھاتا اورچربی کم کرتا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ اس سے قبل ہمارے پاس کوئی ایسی شئے نہیں تھی جو یہ کام کر سکتی۔لیکن یہ نئے شئے تیار کرنے کے بعد ہمیں اُمید ہوگئی ہے کہ یہ انسانی جسم کی کار کردگی بہتر کرنے میں اہم کردار ادا کریں گا ۔