متّرجم: نائمہ راشد
صفحات: 283 ،قیمت: 995 روپے
ناشر:آکسفورڈ یونی ورسٹی پریس،کراچی۔
بلاشبہ پروین شاکر سے پہلے کسی اور شاعرہ نے نسوانی جذبات کو اس قدر نزاکت و لطافت سے بیان نہیں کیا۔انہوں نے تو الفاظ اور جذبات کو ایک انوکھے تعلق میں باندھ کر سادہ الفاظ میں انسانی انا، خواہش اور انکار کو بھی شعر کا روپ دےدیا۔پروین شاکرنے اُردو کی منفرد لب و لہجے کی شاعرہ ہونے کے باعث بہت ہی کم عرصے میں لازوال شہرت حاصل کی،جو ہر ایک کے حصّے میں نہیں آتی۔ اپنے پہلے مجموعے ’’خوشبو‘‘میں ایک نوجوان دوشیزہ کے شوخ و شنگ جذبات کا اس قدر عمدگی سے اظہارکیا کہ ہر لڑکی کو اپنے دِل کی آواز محسوس ہوئی۔
دیباچے میں بھی کیا خُوب تحریر کرتی ہیں کہ’’جب ہولے سے چلتی ہوئی ہوا نے پھول کو چوما، تو خوشبو پیدا ہوئی‘‘۔ تاہم،وقت کے ساتھ اُن کی شاعری کا اندازبدلتا چلا گیا۔ غور کیا جائے، تو اُن کے کلام میں جہاں ایک عورت کی زندگی کے مختلف مراحل دکھائی دیتے ہیں،وہیں روایات سے انکار اور بغاوت بھی صاف نظر آتی ہے۔زیرِتبصرہ کتاب میںان کے لازوال کلام کو نہایت عُمدگی سے ہلکے پھلکے انداز میں انگریزی ترجمے کے ساتھ شایع کیا گیا ہے۔ نوجوان نسل کے لیے یہ کتاب کسی تحفے سے کم نہیں۔کتاب کی طباعت معیاری ہے،تو سرورق بھی لاجواب ہے۔