• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مسیح الاولیاء شیخ عیسیٰ جند اللہ سندھی برہانپوری کے آبا و اجداد کا وطن سندھ کا شہر پاٹ تھا۔ یہ قصبہ خود اُنہی کے بزرگوں نے آباد کیا تھا۔ اس خانوادے کے بزرگ نہ صرف اپنے وطن میں معزز و باوقارتھے بلکہ اس عہد کے متبحر عالم، محدث و مفسر ہونے کی وجہ سے خاصے مقبول تھے۔ ہمایوں کی لشکر کشی سے جب سندھ متاثر ہونے لگا تو شورش و بد امنی کے اندیشوں سے دل برداشتہ ہو کر آپ کے والد شیخ قاسم اور آپ کے چچا شیخ طاہر محدث مع متعلقین و دیگر اعزہ و اقربا950ء میں وطنِ مالوف پاٹ سے ہجرت کر کے پہلے احمد آباد (گجرات) اور پھر وہاں سے سلطنت برار کے دار السلطنت ایلچپور پہنچے۔ 

اکبر بادشاہ سمیت متعدد حکم راں ان کے معتقدین میں شامل تھے

شیخ طاہر محدث کے زہد و تقویٰ اور علم و فضل کا شہرہ سن کر تفال خان نے جو ان دنوں سلطنت برار کے نظم و نسق کا مالک تھا، بڑے اصرار و نیاز مندی سے شیخ طاہر محدث سے برار تشریف لانے کی استدعا کی۔ جب یہ خاندان اس کی التجا منظور کر کے ایلچپور پہنچا تو تفال خان نے ان کے شایانِ شان احترام و توقیر کا سلوک کیا۔ شیخ طاہر محدث کو وہاں کے دار العلوم کی ذمہ داریاں سونپ دی گئیں، نقد پیشکش کے علاوہ زرخیز اراضی کا ایک موضع بطور جاگیر نذر کیا۔ شیخ طاہر نےاراضی اور گھر کی دیکھ بھال اپنے چھوٹے بھائی شیخ قاسم کے سپرد کی اور خود درس و تدریس اور تصنیف و تالیف میں مصروف ہوگئے۔ ایلچپور میں ہی5ذو الحج 962ٌہجری بمطابق21ستمبر 1555ء کو مسیح الاولیاء شیخ عیسیٰ جند اللہ کی ولادت باسعادت ہوئی۔ اس روز آپ کے والد شیخ قاسم گھر پر موجود نہ تھے، آپ کے چچا شیخ طاہر محدث نے آپ کا نام عیسیٰ رکھا۔ ‘عیسیٰ’ شیخ قاسم محدث کے چچا کا نام تھا، جو بڑے عالم و فاضل تھے۔ شیخ عیسیٰ جنداللہ نے اپنا سلسلۂ نسب اپنی کتاب’’عین المعانی‘‘ میں اس طرح لکھا ہے،’’عیسیٰ بن قاسم بن رکن الدین بن معروف بن شہاب الدین ثانی سہروردی پاٹائی المعروف شہابی‘‘۔ یہی شیخ شہاب الدین ثانی سہروردی پاٹ اور برہان پورکے صدیقی خاندان کے جد امجد تھے۔

شیخ عیسیٰ نے نو سال کی عمر میں قرآن مجید حفظ کر لیا، پھر علوم متداولہ کی طرف متوجہ ہوئے۔ اپنے چچا شیخ طاہر محدث سے فقہ، حدیث، تجوید، تصوف اور دیگر علوم کی تعلیم حاصل کی۔ ابھی عنفوان شباب کا آغاز ہی تھا کہ والد کا سایہ سر اُٹھ گیا اور وہ ایلچپور ہی میں سپرد خاک ہوئے۔ اسی اثناء میں تفال خان کا انتقال ہو گیا اور سلطنت برار کا شیرازہ درہم برہم ہو گیا۔ شیخ عیسیٰ کے خاندان کی فیض رسانی کا شہرہ نزدیک اور دور دراز پھیلا ہوا تھا۔ والیٔ خاندیس اپنے دار الخلافہ برہان پور میں تشریف لانے کے لیے عرصے سے منتیں کر رہا تھا۔ سقوطِ سلطنت برار کے فوراً بعد شیخ طاہر محدث، مسیح الاولیاء اور دیگر سندھی اعزا کو لے کر برہان پورچلے آئے۔ والیٔ خاندیس عزت و احترام سے پیش آیا۔عظیم الشان محلات، نقد و جنس کی لائقہ پیشکش سے آپ کو ضروریات زندگی سے بے نیاز کر دیا۔

مسیح الاولیاء اور ان کے اعزا و رفقا کے علاوہ دیگر سندھی بزرگوار جو قرب و جوار میں منتشر تھے برہان پور میں آ کرآباد ہونے لگے اور آپ کی فروگاہ سے متصل وسیع اور گنجان محلہ سندھیوں سے آباد ہو گیا، جو ان کی وطنی نسبت سے سندھی پورہ کہلایا۔ شیخ طاہر محدث برہان پورمیں علومِ دینیہ کے درس پر مامور کر دئیے گئے۔ مسیح الاولیاء جو شیخ طاہر محدث کےمدرسے سے فارغ التحصیل ہو چکے تھے، برہان پور میں شیخ یوسف کے درس و تدریس میں شریک ہوئے اور جلد ہی یہاں کی تعلیم سے بھی فراغت حاصل کر لی۔ اس کے بعد آپ مزید حصولِ علم کے لیے آگرہ روانہ ہوئے۔ آگرہ میں آپ کی ملاقات قاضی جلال الدین ملتانی سے ہوئی جو اپنے وقت کے جلیل القدر عالم اور بزرگ تھے۔ ابھی آگرہ ہی میں مقیم تھے کہ چچا شیخ طاہر محدث کا خط ملا کہ ’’حکیم عثمان بوبکائی جو اپنے علم و فضل کی وجہ سے یگانہ روزگار ہیں، برہان پورر آئے ہوئے ہیں، یہاں آجاؤ۔ شاید ان کے درس میں تمہاری تسکین کا سامان ہو’’۔ خط ملتے ہی آپ برہان پورر واپس چلے آئے اور حکیم عثمان بوبکانی کے درس میںشرکت کرنے لگے،، لیکن معرفت و عرفان کے حصول کی ایک نئی لگن قلب میں پیدا ہو چکی تھی اور آپ مرشد طریقت کی تلاش میں تھے۔ اس مقصد کو پیش نظر رکھتے ہوئےآپ نے مرشد کی تلاش شروع کر دی۔

اتفاقاً ایک روز آپ چوک بازار میں ا یک دکان پر تشریف فرما تھے کہ ادھر سے شیخ محمد غوث گوالیاری کے خلیفہ اور شطاری سلسلہ کے مشہور صوفی بزرگ شیخ لشکر محمد عارف کا گزر ہوا۔ شیخ عیسٰی کو دکان پر بیٹھا دیکھ کر شیخ لشکر محمد عارف نے لوگوں سے دریافت کیا کہ یہ کون صاحب ہیں؟ لوگوں نے بتایا کہ آپ شیخ طاہر محدث کے بھتیجے ہیں اور ان کا نام شیخ عیسٰی ہے۔ شیخ لشکر محمد عارف نے شیخ عیسٰی سے مخاطب ہو کر فرمایا ’’میاں تم تو ہمارے ہو، ہمارے پاس کیوں نہیں آتے ‘‘۔ یہ فرما کرشیخ عارف وہاں سے روانہ ہو گئے۔ اس ارشاد کے چند دن بعد آپ شیخ لشکر محمد عارف کی خدمت میں پہنچے اور ایک ملاقات میں آپ نے محسوس کیا کہ جس رہبر طریقت کی آپ کو تلاش تھی وہ شیخ لشکر محمد عاف ہی ہیں۔ دو ایک ملاقاتوں کے بعد آپ شیخ لشکر محمد عارف کے دست مبارک پر بیعت ہوئے۔ شیخ لشکر محمد عارف سے خرقۂ خلافت حاصل کرنے کے بعد آپ ایک بار پھر برہان پور میں آکر رہنے لگے تو قرب و جوار اور دور دراز علاقوں سے ہزاروں کی تعداد میں لوگ آپ سے فیض یاب ہونے کے لیے جمع ہوتے گئے۔ آپ باطنی شغل اور تلقین کے ساتھ ساتھ علوم ظاہری کا بھی درس دیتے تھے۔ ظاہری و باطنی طلباء کا بڑا اجتماع آپ کے پاس رہتا تھا۔ شیخ عیسیٰ کو اُس دور کے لوگ مسیح الاولیاء، مسیح الزماں، مسیح القلوب اور حبیب اللہ جیسے القاب سے یاد کرتے تھے۔ محمد غوثی شطاری مانڈوی نے اپنی کتاب ‘گلزار ابرار’ میں آپ کو زیادہ تر مسیح الاولیاء کے لقب سے لکھا گیا ہے۔

شیخ محمد لشکر عارف کی وفات کے بعد اُن کے خلفاء اور مرید شیخ عیسیٰ مسیح الاولیاء کی خدمت میں آکر فیض حاصل کرتے تھے۔ مغل سپہ سالار عبد الرحیم خانخاناں بھی آپ کا خاص معتقد تھا۔ خانخاناں کو برہان پورکا علاقہ جب جاگیر میں عطا ہوا تو وہ زیادہ تر وقت شیخ عیسیٰ کی خدمت میں گزار کر فیض حاصل کرتا تھا۔ ایک دن کاذکر ہے کہ خانخاناں کے فرزند ایرج خاں کا جوانی میں انتقال ہو گیا۔ اس کا انتقال غالباً بکھر (سندھ) میں ہوا تھا۔ قاصد یہ خبر لے کر جب برہان پور پہنچا تو کسی کو ہمت نہیں ہوئی کہ یہ خبر خانخاناں کو پہنچا سکے۔ آخر شیخ عیسیٰ سے درخواست کی گئی کہ آپ یہ درد ناک خبر خانخاناں کو پہنچائیں۔ شیخ عیسیٰ جب اپنے حجرے سے نکل کر خانخاناں کے محل میں پہنچے تو وہ حیرت میں پڑ گئے، کیوں کہ شیخ عیسیٰ نہ کہیں آتے تھے نہ جاتے تھے۔ سوچنے لگا کہ اتنے بڑے مرتبہ والے بزرگ آج کس طرح میرے پاس چل کر آ گئے؟ ضرور کوئی خاص بات ہے۔ بعد ازاں شیخ عیسیٰ نے خانخاناںکو یہ اندوہ ناک خبر دی، تعزیت کی اور تسلی دی۔

شیخ عیسیٰ کے معتقدین میں شیخ ابو الخیر بن مبارک بھی شامل تھے، جو اکبر کے امراء ابو الفضل اور فیضی کے چھوٹے بھائی اور ایک بڑے صوفی بزرگ تھے۔ شیخ عیسیٰ سندھی کی بزرگی اور علم و فضل کی شہرت سن کر مغل شہنشاہ جلال الدین محمد اکبر کو بھی آپ کی زیارت کا شوق پیدا ہوا۔ اکبربادشاہ جب برہان پورآیا تو اس نے شیخ عیسیٰ سے ملاقات کا شرف حاصل کیا اور ان کو اپنے ہمراہ آگرہ لے آیا۔ شیخ عیسیٰ کی طبیعت پر بادشاہ کی رفاقت سے بڑا بوجھ رہتا تھا، چناں چہ انہوں نے ایک دن خواب میں اپنے والد کو دیکھا اور بادشاہ سے رخصتی کی اجازت چاہی ۔ بادشاہ نے انتہائی بے دلی سے آپ کو آگرہ سے رخصت کی اجازت دے دی ، پھر آپ واپس برہانپور میں آکر مقیم ہو گئے۔ کچھ روایات کے مطابق اکبر نے نام نہاد مذہبی عقائد کی حمایت سے انکار پر آپ کو قلعہ اسیر گڑھ میں قید کر دیا تھا۔

شیخ عیسیٰ کے بہت سے خلیفہ تھے جن سے سلسلہ قادریہ اور شطاریہ کا فیض نہ صرف ہندوستان اور دور دراز ملکوں میں پھیلا۔ آپ کے مشہور خلفاء میں شیخ برہان الدین راز الہٰی، شیخ عبد القدوس، شیخ حاجی نعمت للہ، شیخ محمد صدیق کابلی، شیخ عبد العزیز لاہوری، شیخ اسماعیل فرحی، شیخ نور الایمان، سید قاسم، شیخ محمد سندھی اور شیخ فرید بن عبد الحکیم شامل ہیں۔

شیخ عیسیٰ نے فارسی اور عربی میں تصانیف کا بیش بہا ذخیرہ چھوڑا جو علمی دنیا میں خاص اہمیت کا حامل ہے۔ آپ کی تصانیف میں روضۃ الحسنیٰ (سن تالیف ۹۸۹ء، موضوع: شرح اسماء الہٰی) ، عین المعانی (سن تالیف ۹۹۷، موجوع: شرح اسماء الہٰی)، انوار السرار (اس میں قرآن مجید کی بعض آیات کی صوفیانہ انداز میں تفسیر بیان کی گئی ہے)، رسالہ حواس پنجگانہ، حاشیہ بر اشارۂ غریب کتاب انسانِ کامل (اس میں شیخ عبد الکریم جیلی کی کتاب انسانِ کامل کے بعض مقامات کی وضاحت کی گئی ہے)، شرح قصیدہ بردہ (فارسی شرح)، رسالہ قبلۃ المذاہب اربہ مع اشارات اہلِ تصوف، حاشیہ بر شرح ضیائیہ ، تتمیم شرح مائۃ عامل (عربی زبان میں اس شرح کو میر فتح اللہ شیرازی نے شروع کیا لیکن مکمل نہ کر سکے۔ شیخ عیسیٰ نے قاضی میر سید علی کے کہنے پر اسے مکمل کی)، رسالہ عقود (ہاتھ کی انگلیوں کے پوروں پر تسبیح پڑھنے کا بیان ہے) اور دو شرح دو رباعی (یعنی صوفیانہ رباعیوں کی شرح) اور ترجمہ اسرار الوحی شامل ہیں۔ آپ فارسی اور ہندی زبان کے شاعر بھی تھے۔

شیخ عیسیٰ سندھی ۴۱ شوال ۱۰۳۱ھ بمطابق ۲۲ اگست ۱۶۲۲ء کو برہانپور میں رحلت فرما گئے اور اپنے حجرۂ عبادت میں مدفون ہوئے۔ آپ کا مزار محلہ سندھی پورہ میں زیارت گاہِ خلائق ہے۔ عبد الرحیم خانخاں نے آپ کے مزار پر شاندار گنبد تعمیر کرایا۔

شیخ عیسیٰ سندھی نے دو شادیاں کیں۔ پہلی منکوحہ کا تعلق سندھ سے تھا اور وہ مسیح الاولیاء کے چچا اور اپنے وقت کے نامور محدث مخدوم عباس ہنگورجائی کی دختر تھیں۔ ان سے شیخ عبد الستار، شیخ شہر اللہ رمضان، شیخ عثمان اور بی بی امۃ الرحمٰن پیدا ہوئے اور دوسری منکوحہ جو برہانپور سے تعلق رکھتی تھیں ان سے شیخ عبد الرحمٰن عرف بابا فتح محمد، شیخ طہٰ، شیخ ہاشم اور فاطمہ بی بی پیدا ہوئے ۔ ان میں سے شیخ شہر اللہ سندھ کی طرف چلے آئے اور پاٹ میں مقیم ہو گئے، جن کی اولاد سہون اور پاٹ کے صدیقی مخدوم ہیں۔

تازہ ترین