• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ملک میں کوروناPIA اور حکومت کی نااہلی سے آیا، چیف جسٹس


سپریم کورٹ آف پاکستان نے ایئرمارشل ارشد ملک کو بطور چیف ایگزیکٹیو آفیسر (سی ای او) پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائن (پی آئی اے) کام کرنے کی اجازت دیتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ ایئر مارشل ارشد محمود ادارے میں اپنی خدمات جاری رکھیں۔

چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے سی ای او پی آئی اے ایئر مارشل ارشد ملک کی تعیناتی سے متعلق کیس پر سماعت کی۔

سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے سی ای او پی آئی اے ایئر مارشل ارشد ملک کی تعیناتی سے متعلق تحریری حکم نامہ جار ی کیا گیا۔

تحریری حکم نامے میں کہا گیا کہ وفاق نے قانونی طریقے سے ارشد ملک کو مقرر کیا ہے۔

اٹارنی جنرل نے کیس کی سماعت کے دوران کہا کہ سی ای او کو کام کرنے کی اجازت دی جائے، ادارہ وینٹیلیٹر پر ہے اس لیے ارشد ملک کو کام کرنے دیا جائے، اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ارشد ملک قابل آدمی ہیں، وہ نتائج دیں گے ۔

سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران اٹارنی جنرل پاکستان خالد جاوید خان کا کہنا تھا کہ انشا ء اللّٰہ ارشد ملک ایئر لائین کو آگے لے جائیں گے۔

 جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ماشاء اللّٰہ، سبحان اللّٰہ اور الحمد اللّٰہ سے کام نہیں چلے گا، جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ ہم جانتے ہیں بہت ساری لابیز ادارے کے خلاف کام کر رہی ہیں، پی آئی اے کے اندر بھی لابیز ہیں جو اس کو چلنے نہیں دیتیں۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ وہ اقدامات کریں جو سیاسی حکومتیں نہیں لیتیں، اگر اقدامات کیے جاتے تو ایئر لائن کا یہ حال نہ ہوتا۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ ایئر مارشل ارشد ملک کو اجازت دی جائے تو وہ تمام ضروری اقدامات کریں گے، آپ جس وقت کہیں گے ارشد ملک اسی وقت چلے جائیں گے۔

اٹارنی جنرل کا کراچی میں غیر قانونی تعمیرات سےمتعلق چیف جسٹس سے مکالمے کے دوران کہنا تھا کہ کراچی میں غیر قانونی تعمیرات آپ کے حکم سے مکمل طور پر رک گئیں، پی آئی اے میں بھی اسی طرح آپ کے حکم سے بہتری آئے گی۔

 چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد نے کہا کہ کراچی میں بہتری سب کی کاوشوں سے ہوئی ہے۔

چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد کا کہنا تھا کہ سابق وزیراعظم لندن گئے تو پی آئی اے کا جہاز وہاں کھڑا رہا، لندن میں طیارہ کس کے خرچ پر کھڑا رہا، انہیں کس نے ایسا کرنے کی اجازت دی ؟

چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد نے مزید کہا کہ جس نے گلگت گھومنا ہووہ خاندان کے ساتھ جہاز لے کر چلا جاتا ہے، جس نے کہیں اور جانا ہو وہ جہاز کا رخ بدلوا دیتا ہے۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ اس وقت ہر جگہ ملک میں کورونا کی بات ہو رہی ہے، کورونا وائرس ملک میں ایئرپورٹ کے ذریعے آیا ہے اور یہ پی آئی اے اور حکومت کی نااہلی سے ممکن ہوا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اگر پی آئی اے کی سیکیورٹی کا یہ حال رہا تو پتہ نہیں کون سی بیماریاں ملک میں آجائیں گی، ہم تو عدالتی کام کے لئے یہاں موجود ہیں ، حکومت نے کورونا سے متعلق کوئی اقدام نہیں کیا، ہمیں کہہ دیا کہ عدالتی کام روک دیں۔

چیف جسٹس گلزار احمد کا مزید کہنا تھا کہ پی آئی اے کے بارے میں کوئی ایک چیز بتائیں جو اچھی ہو، پی آئی اے لوگوں کی زندگیوں کے ساتھ کھیل رہا ہے کیا اس کو بند کردیں، ایئر پورٹ کی طرف گند نظر آتا ہے، ہر خراب چیز ایئرپورٹ پر نظر آتی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ پی آئی اے، اے ایس ایف اور کسٹم والے لوگوں کو سہولیات دینے میں ناکام ہو چکے ہیں، پی آئی اے میں کوئی پروفیشنلزم نظر نہیں آتا۔

چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ کراچی ایئرپورٹ پر خستہ اور خراب حالات میں جہاز کھڑے ہوئے ہیں، اگر خدا نخواستہ حادثہ ہو گیا تو لوگوں کا کیا ہوگا۔

جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ ہم بھی ایک ادارہ ہیں، لوگوں کے مسائل حل کرنا ہمارا کام ہے، پی آئی اے کو کس طرح چلانا ہے ہمیں پتہ ہے، پی آئی اے کے علاوہ بھی کمپنیاں اچھا کام کررہی ہیں۔

دوران سماعت اٹارنی جنرل آف پاکستان نے اپنے دلائل میں کہا کہ امریکی صدر کی اہلیہ نے جب پی آئی اے پر سفر کیا انہوں نے فلائٹ کو بہترین قرار دیا تھا، جس پر چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ اس وقت پی آئی اے کا انتظام ایئرمارشل نورخان اور ایئر مارشل اصغر خان جیسے لوگوں کے ہاتھ میں تھا۔

سماعت کے دوران اٹارنی جنرل پاکستان خالد جاوید خان کا کہنا تھا کہ 9 سالوں میں پی آئی اے کے 12سربراہ تبدیل ہو چکے ہیں،  ایئر مارشل ارشد ملک اچھے اور قابل انسان ہیں۔

اس دوران جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس میں کہا کہ ہمیں ادارے کا مستقل 3 سال کے لیے سربراہ چاہیے جو ادارے کو بہتر کر سکے، اس ادارے میں ایک حکومت اپنے بندے بھرتی کرتی ہےاور دوسری آکر نکال دیتی ہے۔

جسٹس اعجازالاحسن نے مزید کہا کہ نکالے جانے والے بعد میں ترقی اور رقوم کا دعویٰ کرتے ہیں، ان کو پھر تیسری حکومت لاکھوں روپے دے دیتی ہے، کچھ لوگ آتے ہیں سہولیات لے کر غائب ہوجاتے ہیں۔

چیف جسٹس آف پاکستان گلزار احمد نے اس دوران استفسار کیا کہ کوئی بھی ادارہ یونین کودیں گے تو وہ بند ہی ہوجا ئے گا، پھر کون ذمہ دار ہوگا؟

اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے کہا کہ ہم اپنے گھر میں ایک ملازم اپنی بساط سے زیادہ نہیں رکھتے، اگر گھر کا ملازم ایک گلاس پانی دیر سے پہنچاتا ہے تو اس کو نکال دیتے ہیں، پی آئی اے تو ہمارا ادارہ ہے اس کےساتھ نازیبا سلوک کیا گیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ پی آئی اے کے ملازمین نے ایک سابق سربراہ کو واش روم میں بند کردیا، اسٹیل مل کی حالات ہمارے سامنے ہیں،جس کی حالت خراب ہے، پی آئی اے ایک قومی ادارہ ہے، پورےپاکستان کو اس پر فخر ہے، بد قسمتی سے کچھ لوگوں کی خراب ہونے سےپی آئی اے خراب ہو گیا ہے۔

تازہ ترین