اقبال اے رحمٰن
نپئیر روڈ سر چارلس نیپئر سے موسوم یہ سڑک اپنے ابتدائی ایام میں نیپئیر اسٹریٹ کہلاتی تھی1853 سے1859کے درمیان کراچی میں ترقیاتی کاموں کے ضمن میں بہت سی سڑکیں تعمیر ہوئیں، پرانے شہر کی اکثر سڑکیں اسی دور تعمیر کی یادگاریں ہیں ،جن میں نیپئیر روڈ بھی شامل ہے ،جس کی تعمیر پر اس زمانے میں چند سو روپے خرچ آیا تھا، سر چارلس نیپئر
انگریز ا فواج کی اعلی مرتبت فوجی افسر تھے اورسندھ کے پہلے گورنر تھے، ان کی گورنر شپ 1843سے1847تک رہی، مگر ان چار برسوں میں ان کی کارکردگی کا یہ عالم تھا کہ کراچی ایک معمولی سی بستی سے ترقی کر کے ایک بین الاقوامی اور جدید شہر بن کر ابھر ااور پھر ابھرتا ہی چلا گیا۔ گویا جدید کراچی کی بنیاد ان کے ہاتھوں رکھی گئی اس پر دو رائے نہیں ہو سکتیں، چارلس نیپئیر نے کراچی کو سونے کی چڑیا سے تشبیہ دی تھی ۔ کراچی سے بمبئی جاتے وقت ان کے اعزاز میں یکم دسمبر 1847 میں اہلیان کراچی نے الوداعی تقریب منقعد کی تھی، نیٹی جیٹی کا پل جو انکے نام سے موسوم کردیا گیا تھا “ نیپئر مول برج “ اس برج کے کیماڑی والے سرے پر 1853ء میں انکا مجسمہ نصب کروایا گیا تھا اور میکلوڈ روڈ سے لی مارکیٹ تک جاتی یہ سڑک بھی ا ن کے نام سے موسوم کی گئی ۔
یہ سڑک ، سٹی ریلوے اسٹیشن آئی آئی چندریگر روڈ کے بالکل سامنے سے چلتی ہے اور سب سے پہلے شاہراہ لیاقت کو کراس کرتی ہے، اسکے بعد کراچی کے دل ایم اے جناح روڈ کو پھلانگتی ہوئی نشتر روڈ پر پہنچ جاتی ہے، نشتر روڈ کراس کرتی ہے تو کراچی کا بازار حسن شروع ہوجاتا ہے ،جس کےساتھ چلتی چلتی یہ لی مارکیٹ پر اس جگہ پر جاکر ختم ہوتی ہےجہاں سے حضرت سید بلاول شاہ نورانی کے مزار عرف عام میں “ شاہ نورانی “ واقع خضدار پر جاتی بسوں کا اڈہ ہے ۔
یہ سڑک کراچی کے قدیمی آباد اور گنجان علاقوں سے گزرتی ہے ہر علاقہ گویا ایک نگینہ ہے اور ایک عہد ایک تاریخ کو بیان کرتا نظر آتا ہے۔کراچی میں سڑکوں کے نام جب تبدیل ہوئے تو ساؤتھ نیپئیر روڈ کا نام الطاف حسین روڈ کردیا گیا۔الطاف حسین ایک بنگالی جرنلسٹ تھے جو تقسیم سے قبل سے لے کر قیام پاکستان کے بہت بعد تک روزنامہ ڈان انگلش کے چیف ایڈیٹر رہے۔ پر قائد اعظم کی تحریک پر اس اخبار کے ایڈیٹر بنے اور اسکا حق ادا کیا۔ قیام پاکستان کے بعد ڈان انگلش جب کراچی سے شائع ہونے لگا تو اسی سڑک پر اس کادفتر اور پریس تھا اس حوالے سے حکومت پاکستان نے اس سڑک کو الطاف حسین صاحب سے منسوب کیا یوں یہ خوش قسمت سڑک اپنے اپنے زمانے کے دو زیرک انسانوں کے نام سے موسوم ہوئی، یعنی ایک تلوار کا دھنی تو دوسرا قلم کا ۔
نیپئر روڈ یا الطاف حسین روڈ پر آئی آئی چندریگر روڈ کی جانب سے داخل ہوں یہ علاقہ نیو چالی یا نئی چالی کہلاتا ہے، ایک جانب یونی ٹاور و یونی پلازہ ہیں اور دوسری جانب ٹیکنو سٹی، نئے زمانے کی آئی ٹی کی دنیا کی تمام کی تمام جدت گویا یہاں سمٹ آئی ہے، پارینہ تاثر میں اسی سڑک پر زبوں حالی کا شکار وہ قدیم عمارتیں ہیں جو مقدمہ بازی کے سبب گویا گؤو شالہ میں بندھی پڑی ہیں، ان ہی میں سے کوئی عمارت ہوگی جس کی نو تعمیر شدہ خوبصورت بالکنی نے اس علاقے کو “ نئی چالی “ کا نام دیا ہوگا، ہندو طرز تعمیر کی عمارتوں میں گھر کے داخلی دروازوں کے ساتھ چلتی مشترکہ بالکنی چالی کہلاتی ہے ۔
نیپئر روڈ کو ابتدا ہی میں ایک اور سڑک گرانٹ روڈ کو کراس کرنا پڑتی ہے جس کا نیا نام حسرت موہانی روڈ ہے، اس سڑک پر ان کثیر المنزلہ عمارتوں کی بہار ہے جو پاکستان بننے کے بعد تعمیر ہوئیں، جب جذبہ جوان اور سچا تھا، سو پاکستان افق عالم میں اپنی پرواز کی داستانیں رقم کر رہا تھا، انہی اچھے دنوں اور اسی خوشحال زمانے کی بکھری یہ سوغات کیا سے کیا یاد نہیں دلا دیتی اور دل بے اختیار کہہ اٹھتا ہے دیکھو “ ایسا تھا میرا پاکستان “ ۔ اسی گرانٹ روڈ اور الطاف حسین روڈ کے سنگم پر کیفے وکٹری ہے، کیفے وکٹری کراچی کی پارینہ ثقافت “ ایرانی کیفے “ کا بچ جانے والا نشان ہے جو آج بھی اپنے مخصوص ثقافتی انداز کی سروس سے ایام رفتہ کی یاد دلا دیتا ہے ۔
نیپئیر روڈ کے اس علاقے یعنی نئی چالی میں داہنے ہاتھ کی طرف جو راستہ جاتا ہے وہاں میونسپل کارپوریشن کے زیر انتظام سرفراز رفیقی ہاسپٹل ہے، سرفراز رفیقی جنگ ستمبر میں پاک فضائیہ کی جانب سے پہلے جانباز تھے ،جنہوں نے جام شہادت نوش کیا۔ اس کے بعد حقانی چوک جہاں بھولو پہلوان کا اکھاڑہ دارالصحت اور اس کے بعد پاکستان چوک جہاں اداکارہ روزینہ اور اداکار معین اختر رہتے تھے ۔ ایک زمانہ تھا جب نئی چالی میں غلے سے لدے ٹرکوں کا آنا جانا لگا رہتا تھا یہ علاقہ گویا غلے کی ٹرانسپورٹیشن کا اڈہ تھا، ملحقہ ویران گلیوں میں بیوپاریوں کے غلے کے گودام تھے اور غلے کی ترسیل کرنے والے ٹرانسپورٹرز کے دفاتر اور ان کےگودام بھی بڑے بڑے احاطوں میں نظر آتے تھے، میمن برادری یہاں بھی متحرک تھی، جوناگڑھ کے ساحلی قصبہ ویراول جس کی بندرگاہ سے زیادہ تر غلہ یا اناج کی ترسیل ہوتی تھی لہذہ وہاں رہتے بستے میمن اناج کے کاروبار سے منسلک تھے۔تقسیم کے بعد ہجرت کرکے کراچی آئے تو اسی کاروبار کو اپنایا اور مہارت کے سبب بہت جلد منڈی پر چھاگئے۔
سنا تھا کہ ویراول میں بازار میں دوپہر کے وقت جو کھانے دستیاب ہوتے تھے ان میں خشکہ کہلاتے سادہ چاول ملتے تھے جنکے اوپر دال کا چھینٹا مفت، جیسے کراچی میں پوری کے ساتھ چھولے فری، قیمتاً خشکہ اور فری دال کا کلچر ویراول والوں کے طفیل نئی چالی میں بھی مروج ہوگیا تھا ۔ غلے کے گودام اور انکی ٹرانسپورٹیشن کی اس علاقے میں موجودگی کی وجہ یہ تھی کہ سامنے شاہراہ لیاقت پر جہاں ماسٹر بریانی ہے بالکل اسی جگہ گرین ٹریڈنگ ہال تھا جس کے بند کواڑ اور زنگ آلود بورڈ آج نوحہ گری کر رہے ہیں
میکلوڈ روڈ اور فرئیر روڈ کے درمیان نئی چالی کہلاتے اس ٹکڑے میں اس زمانے میں تمام تر عمارتیں قدیم طرز کی تھیں جو سنہ ۱۹۰۰ء کے لگ بھگ تعمیر ہوئیں ان عمارتوں کے درمیان ایک ہی عمارت تھی جدید طرز کی نظر آتی تھی آدم چیمبرز۔اسں علاقے کی شان ان بلوچ بابا کو کون بھول سکتا ہے جو ملیر کے انتہائی لذیذ اور شیریں پیتے ٹوکرے میں پپیتے کے پتوں کے درمیاں رکھے وہاں بڑی شان سے براجمان ہوتے اور انتہائی شفقت سے بہت ہی ارزاں نرخ پر پپیتا فروخت کرتے تھے۔
نئی چالی اور اطراف کا علاقہ’’ سرائے کوارٹرز “ کہلاتا تھا اس کی وجہ یہ ہے کہ جہاں آجکل سندھ مدرستہ الاسلام ہے یہاں کبھی بہت بڑی سرائے ہوا کرتی تھی اس، مناسبت سے سندھ مدرستہ السلام کے سامنے والی چھوٹی سی سڑک کا نام سرائے روڈ ہے، چونکہ یہ علاقہ بندرگاہ سے نزدیک اور مارکیٹ کے اندر تھا لہذہ میروں کے دور سے بندرگاہ پر لنگر انداز ہوتیں بڑی بڑی مال بردار اور مسافر بردار کشتیوں کے ذریعے جو لوگ اس شہر میں وارد ہوتے ان کے لئے یہ سرائے جائے امان تھی، اس سرائے کی مناسبت سے نیپئر روڈ کی سڑک پر جابجا مسافر خانے تھے جو بندرگاہ کے سبب بیرون ملک کے مسافروں اور بسوں کے اڈوں اور بعد میں بنے سٹی ریلوے اسٹیشن کے سبب اندرون ملک سے آئے مسافروں کے سبب آباد رہتے تھے ۔ سرائے روڈ ایک چھوٹی سی سڑک ہے جو شاہراہ لیاقت تا ایم اے جناح روڈ تک ہے، یہ کراچی کی صنعتی ہارڈوئیرُ کی مارکیٹ ہے ۔
نیپئر روڈ کا ایک کوچہ ایسا ہے جس سے شہر کے حلوائی خوب واقف ہیں، کھویا گلی یا کھویا منڈی، کبھی دودھ گلی بھی جوڑیا بازار میں ہوتی تھی بعد میں یہاں سے لی مارکیٹ منتقل ہوگئی۔