• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کورونا وائرس کی وباء پھوٹنے کی قیمت چین کے غرباء ادا کررہے ہیں

بیجنگ: کرسچین شیفرڈ،ایما چاؤ

بیجنگ کے مضافات میں پناہ گزین مزدوروں کے گاؤں پکن کے باہر بس اسٹاپ پر انتظار کرنے والے مٹھی بھر لوگوں کے درمیان کرائے کیلئے مسافر وں کی تلاش کرنے والے غیرقانونی ٹیکسی ڈرائیورز کیلئے کاروبار کرنا مشکل ہے۔

انہوں نے فنانشل ٹائمز کو بتایا کہ پہلے میں روزانہ لگ بھگ 600 سے 800 یوآن( 86 سے 115 امریکی ڈالر) کمالیتا تھا لیکن اب میری آمدنی 80 سے 100 یوآن رہ گئی ہے۔ اس سے قبل ٹریفک عہدیدار نےمسافر کے بغیر ہی اس مقام سے چلے جانے کا کہا تھا۔

اعدادوشمار سے پتہ چلتا ہے کہ چین میں 80 ہزار سے زیادہ افراد کو متاثر کرنے والی کورونا وائرس کی وباء اب قابو میں آرہی ہے۔تاہم سفر،کام اور روزمرہ کی زندگی پر مہنوں پابندیوں نے چینی معاشرے کے غریب خاندانوں پر بہت زیادہ دباؤ ڈالا ہے۔

چینگدو میں ایک معتبر آزاد کنسلٹنسی چین ہاؤسنگ فنانس سروے اینڈ ریسرچ سینٹر کے ذریعے گذشتہ ہفتے کیے گئے ایک لاکھ 20 ہزار افراد کے سروے کے مطابق ہر پانچواں چینی گھرانہ بغیر کسی آمدنی کے صرف ڈھائی مہینے زندہ رہ سکتا ہے جبکہ 40 فیصد تین ماہ تک نہیں گزار سکتے۔

ٹیکساس اے اینڈ ایم یونیورسٹی میں سینٹر کے ڈائریکٹر اور معاشیات کے پروفیسر گین لی نے کہا کہ فی الحال ہم نہیں کہہ سکتے کہ ملازمت پر وباء پھیلنے کے اثرات نصف سال،ایک سال یا اس سے زائد عرصے رہیں گے،لیکن جو بات یقینی طور پر ہے وہ یہ ہے کہ معاشرے کے کچھ طبقات کے لئے اپنی روزی روٹی برقرار رکھنے کا عرصہ امکان سے کہیں زیادہ طویل ہوگا۔

گین لی کے مطابق چین نے ترقی میں سڑکوں،ریل اور دیگر بنیادی ڈھانچے کے حوالے سے ترقی یافتہ ممالک کو پیچھے چھوڑ دیا ۔ تاہم مجموعی ملکی پیداوار کے تناسب کے ابھی بھی تقریباََ 3 فیصد کے ساتھ یہ سستی رہائش جیسے معاشرتی تعاون کے اقدامات میں بہت کم رقم مختص کرتا ہے ، جو ترقی یافتہ ممالک کے اوسطاََ 12 فیصد کے مقابلے میں کہیں کم ہے۔

معاشرتی تعاون کا فقدان خاص طور پر غیر رسمی معاہدوں پر کام کرنے والے ملازمین کیلئے خاص طور پر تشویش کا باعث ہے جیسے ہیبی سے تعلق رکھنے والی 50 سالہ پناہ گزین محترمہ وو جو چین کے تعمیراتی بینک کی برانچ میں کیلنر کی حیثیت سے ملازمت کرتی ہیں۔

محترمہ وو ، جو اپنا پورا نام نہیں بتانا چاہتی تھیں، انہوں نے بتایا کہ پہلے وہ عموماََ ماہانہ 2000 رینمبی کمالیتی ہیں، لیکن انہیں دسمبر کے بعد سے ادائیگی نہیں کی گئی۔اپنے گھر کا ماہانہ کرایہ ادا کرنے کی خاطر انہوں نے اپنی قلیل بچت سے اپنے روزمرہ کے اخراجات میں سخت کمی کی ہے۔

محترمہ وو نے فنانشل ٹائمز کو بتایا کہ کسی کو بھی باقاعدگی سے تنخواہ نہیں مل رہی ہے، ہم بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ انہوں نے صورتحال کو قبول کرلیا ہے۔

گھریلو مالی معاملات پر دباؤ متوسط طبقے کے خرچ کرنے کی عادات کے لئے پریشان کن بن رہا ہے،خاص طور پر ایسے نوجوان والدین جنہیں بڑی عمر کی نسل کے مقابلے میں جن میں بچت کرنے کا رجحان کافی کم پایا جاتا ہے۔

بیجنگ میں رہائش پذیر 35 سالہ مساج کرنے والی ہاؤ ژاؤ گانگ نے کہا کہ 3000 یوآن ماہانہ قرض کی قسط کی ادائیگی کیلئے انہیں گھر کیلئے خریداری سے باز رکھنے پر مجبور کردیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ سال میں پہلے ہی کافی مالی دباؤ کا شکار تھی جب مجھے اپنی ایک خریداری کو منسوخ کرنا پڑا۔ میرا مزید کسی بڑی خریداری کا ارادہ نہیں، ہاتھ میں نقد رقم کا ہونا ضروری ہے۔

آمدنی میں کمی اور ملزامت کے عدم تحفظ سے متعلق غم و غصہ پیدا ہونے لگا ہے۔چین کے صنعتی شمال مشرق سے لے کر گوانگ ڈونگ کے جنوبی مینوفیکچرنگ مرکز تک، دکانوں کے مالکان نے گزشتہ ہفتے کم از کم چھ شہروں میں چھوٹے پیمانے پر احتجاج کیا۔

ہانگ کانگ سے متصل شینزین میں حالیہ ایک مظاہرے کی ویڈیو میں دکانداروں نے کرائے کی کٹوتی کے نعرے لگائے اور گھر میں تیار کردہ سائن بھی لہرائے،یہاں تک کہ پولیس نے مظاہرین کو متنبہ کرنے کیلئے لاؤڈ اسپیکر کا استعمال کیا کہ لوگوں کی بڑی تعداد میں وائرس پھیلنے کا خطرہ ہے۔

مظاہرین کو رعایت کا امکان نہیں ہے۔خاندانی دکانیں،گلیوں کے اسٹالز،کھانے پینے کی چھوٹی چھوٹی دکانیں اور دیگر چھوٹے کاروباروں میں 230 ملین افراد ملازمت کرتے ہیں،بالخصوص اس دھچکے سے متاثر ہیں کیونکہ ان کے پاس سرمائے کی کمی ہوتی ہے اور وہ قرض لینے کے اہل بھی نہیں ہوتے ہیں۔

علی بابا کی ضمنی کمپنی آنٹ فنانشل کے ریسرچ شعبے کی ایک رپورٹ کے مطابق چین کے روزمرہ کے سامان کی کھپت میں چھوٹے کاروباری شعبے میں کا تقریباََ ایک تہائی حصہ ہے۔

تاہم،چھوٹے کاروباروں نے پہلے کے مقابلے میں فروری کے مہینے کے پہلے دو ہفتوں میں صرف نصف ٹرانزیکشز کے حجم کے معاملات طے کیے۔اسی عرصے میں وباء کے مرکز صوبے ہوبے میں لین دین کے معاملات میں 70 فیصد کمی واقع ہوئی۔بیجنگ میں سینٹرل یونیورسٹی آف فنانس اینڈ اکنامکس میں پروفیسر اور رپورٹ کے مصنفین میں سے ایک وانگ جنگی نے کہا کہ بیجنگ اور شنگھائی، جہاں بڑے اسٹورز کی چین خدمات فراہم کررہے ہیں، جیسے بڑے شہروں کے باہر خریدار ان چھوٹے کاروباری اداروں پر انحصار کرتے ہیں۔

ٹیکساس اے اینڈ ایم یونیورسٹی کے مسٹڑ گان نے کہا کہ چین کی حکومت نے کاروباری اداروں کی مالی اعانت کے لئے ٹیکس کی ادائیگی میں وقفے اور قرضوں کی ادائیگی میں توسیع جیسے اہدافی اقدامات جاری کئے ہیں ،لین ان سے کم آمدنی والے گھرانوں کی مدد ہونے کا امکان نہیں ہے۔

مسٹر گان نے آن لائن ادائیگی کے پلیٹ فارم کے ذریعے افراد کو ایک وقت میں براہ راست رقم کی منتقلی کی تجویز دی،جس کے بارے میں انہوں نے کہا کہ انفرااسٹرکچر کے اخراجات کے مقابلے میں کہیں زیادہ جی ڈی پی پر اس کے بہت زیادہ اثرات مرتب ہوں گے۔لیکن انہوں نے کہا کہ چینی حکومت کبھی بھی لوگوں کو براہ راست رقم دینے کیلئے رضامند نہیں ہوئی۔

تازہ ترین