لندن (مرتضیٰ علی شاہ) ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین کے وکیل سے اولڈ بیلی نے سنا کہ متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما کو اگست2016میں اپنے کارکنوں کو کراچی کے متعدد میڈیا ہائوسز پر حملہ کرنے کا حکم دینے پر جیو نیوز کا ادارتی موقف پسند نہیں آیا تھا۔ الطاف حسین کے وکیل جوئیل بیناتھن نے جمعہ کو عدالت کو بتایا کہ جیو اور دیگر دو چینلز سما اور اے آر وائی نے ان کی تقاریر کو جس طرح سنسر کیا اور ان کے16اگست 2016 کے خطاب کو کوریج نہیں دی گئی تھی، جس پر وہ اپ سیٹ اور مشتعل تھے جو بالآخر ان کی پارٹی اور سیاست کا شیرازہ بکھیرنے کا سبب بنی۔ مسز جسٹس مے ڈی بی ای نے الطاف حسین کی جانب سے اپنے خلاف الزامات کو مکمل طور پر خارج کرنے کیلئے عدالت میں دائر کی گئی درخواست پر پراسیکیوشن اور دفاع کے وکلا کے دلائل سنے۔ ایم کیو ایم بانی کورونا وائرس وبا کی وجہ سے ذاتی طور پر عدالت میں پیش نہیں ہوئے۔ عدالت نے انہیں ذاتی پیشی سے استثنیٰ دے دیا کیونکہ حسین نے عدالت کو بتایا تھا کہ ان کی حالت ٹھیک نہیں ہے۔ اولڈ بیلی جج نے الطاف حسین کی دہشت گردی پر اکسانے سے متعلق الزامات کو خارج کرنے کی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اس سال موسم گرما میں مقدمے کی سماعت ہوگی اور ایک جیوری ہی یہ فیصلہ کرے گی کہ ایم کیو ایم لیڈر قصور وار ہیں یا نہیں۔ اس کیس میں مارک ہیڈوڈ اور جوناتھن پولنے نے کراؤن پراسیکیوشن سروس (سی پی ایس) کی نمائندگی کی۔ حسین کی قانونی ٹیم نے موقف اختیار کیا کہ ان کے خلاف الزامات ٹھیک نہیں ہیں اور نہ ہی اینٹی ٹیررازم لاز سے مطابقت رکھتے ہیں اور یہ مناسب نہیں ہیں، اس لئے ان کو مسترد کر دیا جانا چاہئے۔ وکیل نے کہا کہ ایم کیو ایم بانی نے تقریر صرف سیاسی مقاصد کیلئے کی تھی اور دہشت گردی کی حوصلہ افزائی نہیں کی تھی۔ اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ کسی قسم کے متشدد اقدامات بشمول پراپرٹیز کو نقصان پہنچانا یا مخالفین کے خلاف انتقام پر اکسانا یا یہ کہ کسی ریاستی ادارے یا میڈیا ہائوس کے خلاف پر تشدد کارروائی کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم لیڈر صرف جیو نیوز اور دیگر دو چینلز سے ناخوش تھے کیونکہ ان سٹیشنز نے ورکرز کے قتل پر ان کی تقاریر کو پالیسی معاملے کی وجہ سے روک دیا تھا۔ حسین کے وکیل نے کہا کہ وہ اس لئے ناراض تھے کہ ان کی تقاریر کو مناسب شیئر نہیں دیا گیا۔ انہوں نے جج کو بتایا کہ حسین کی تقریر کا مقصد عوام کو ڈرانا اور املاک کو نقصان پہنچانا نہیں تھا۔ انہوں نے عدالت کو بتایا کہ سکاٹ لینڈ یارڈ نے انہیں اینٹی ٹیررازم لاز کے تحت گرفتار نہیں کیا تھا اور انہوں نے گرفتاری کے بعد حکومت پاکستان کی شدید لابنگ کے نتیجے میں فرد جرم عائد کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ یہ سمجھا جاتا ہے کہ حسین کے ایڈوائزرز اور لیگل ٹیم کا خیال ہے کہ کراچی بیسڈ بزنس مین سرفراز مرچنٹ، جو کبھی منی لانڈرنگ کیس میں الطاف حسین کے ساتھ شریک ملزم تھے، اپنے سابقہ دوست کے خلاف ابتدائی طور پر قانونی اقدام کو مربوط کرنے میں ملوث ہیں۔ منی لانڈرنگ کیس میں حسین، محمد انور اور طارق میر کے ساتھ مرچنٹ سے بھی دو سال سے زیادہ انویسٹی گیشن کی گئی تھی۔ ٹی وی انٹرویوز میں مرچنٹ نے اس کی تفصیلات بتائیں کہ کتنی بڑی رقم ادھر ادھر منتقل ہوئی اور انہوں نے الطاف حسین اور ان کے قریبی لوگوں کو کس طرح رقم دی تھی۔ حسین کے وکیل نے جج کو بتایا کہ پاکستانی حکومت اس کیس میں سی پی ایس پر اثر انداز ہو رہی ہے اور پاکستانی وکیل ٹوبی کیڈمین کو اس ٹرائل میں نہیں بیٹھنا چاہئے۔ میں یہ نہیں سمجھ سکا کہ کیڈ مین ٹرائل میں کیوں بیٹھے ہیں۔ پراسیکیوٹرز نے عدالت کو بتایا کہ الطاف حسین کے خلاف الزامات برقرار رہنے چاہئیں اور سال رواں موسم گرما کے وسط میں اس ٹرائل کو آگے بڑھنا چاہئے۔ انہوں نے جج کو بتایا کہ حسین نے کھلے عام رینجرز، پولیس حکام اور میڈیا کے خلاف تشدد پر اکسایا تھا۔ پراسیکیوٹرز نے الطاف حسین کی تقاریر کا حوالہ دیا، جن میں انہوں نے رینجرز کے سینئر حکام کے خلاف براہ راست دھمکیاں جاری کی تھیں۔ انہوں نے جج کو بتایا کہ ایم کیو ایم کی تاریخ اور سیاست کے مخصوص تناظر میں الطاف حسین کے اشتعال انگیز ریمارکس کو دیکھا جانا چاہئے۔ انہو ں نے کہا کہ یہ ریکارڈ پر ہے کہ ایسے ہی ریمارکس پر الطاف حسین نے معافی مانگی تھی اور یہ حقیقت ہے کہ اپنے سپورٹرز کو جیو سما اور اے آر وائی کے دفاتر کی جانب مارچ کرنے کا حکم دینے کا مقصد انہیں نشانہ بنانا تھا۔ لندن میں دو دہائیوں سے زیادہ عرصے سے مقیم الطاف حسین سیاسی جلا وطن ہیں۔ ان کے خلاف 2016 میں کراچی میں اپنے حامیوں کو ایک تقریر میں دہشت گردی کی حوصلہ افزائی کرنےکا الزام عائد کیا گیا تھا۔ اس تقریر کے بعد پر تشدد مظاہرے بھی ہوئے تھے۔ انہیں اس تقریر کے نتیجے میں کئی سال قید کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔