• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دل چسپ، معلوماتی واقعات، حکایات، رنگا رنگ قصّوں، کہانیوں کی اِک اَن مول لڑی

اس میں حوالہ جاتی استعمال کے لیے دس لاکھ سے زیادہ تصاویر، ترسیمیات اور فونٹس موجود ہیں۔ اِسے معاوضے پر استعمال کرنے والے صارفین کی تعداد تین لاکھ کےلگ بھگ ہےاوراس کی کاروباری وقعت قریباً 150ارب روپے کے برابر ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں کسی کاروباری خیال کو عملی شکل دینے اور وسیع کرنے کے لیے بھاری سرمایہ کاری کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہاں ایسے سرمایہ کاروں کی وسیع تعدادموجودہے، جو کام یابی کا امکان رکھنے والے خیالات اور منصوبوں میں سرمایہ کاری کے لیے تیار رہتے ہیں۔ میلانےپرکنز نے اس ویب سائٹ میں جدت،انتخاب کی وسیع گنجائش اورسہل استعمال متعارف کروایا۔ امریکی سرمایہ کاروں سے رابطہ کرنے پر اِسے ثقافتی اور لسانی فرق کی وجہ سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ امریکا میں اپنے منصوبے کو بڑھاچڑھا کر بیان کیاجاتاہے۔ آسٹریلیا میں اپنے خیال کو روایتی عاجزی سےپیش کیاجاتا ہے۔ ابتدائی طور پر اُس خاتون نےانکسار سے کام لیا تو اُس کی عاجزی کو منصوبے کی کم زوری پرمحمول کیا گیا، یہاں تک کہ اُسے امریکی اندازِتفاخر اختیار کرنا پڑا۔

وطنِ عزیز میں جدّتِ خیال پر کوئی منصوبہ تیار کیا جائے اورسرمایہ کاروں کے سامنے پیش کیا جائے، تو وہ کم زور قوانین اورسُست و فرسودہ نظامِ عدل کا فائدہ اٹھاتے ہوئے، خود لے اُڑتے ہیں، اور منصوبہ ساز ہاتھ ملتا رہ جاتاہے۔ جہاں احباب کہانی کا بنیادی خیال اور اشعار لے اُڑیں، وہاں عام آدمی کے کاروباری خیالات اور منصوبوں کا اللہ ہی حافظ ہے۔ ایمازون (Amazon) دنیا میںE-Commerce کی سب سے بڑی کمپنی ہے، اِسے ٹیکنالوجی کے چار بڑے ناموں میں سے ایک شمار کیا جاتا ہے۔ دیگر نام گوگل، ایپل اور فیس بُک ہیں۔ ان ناموں سے ایک دنیا واقف ہے۔ ایمازون کو ایک جنّاتی کمپنی کی شہرت حاصل ہے۔ اس کی سالانہ آمدنی پاکستان کی مجموعی قومی آمدنی سے پانچ گنا زیادہ ہے۔ بانی کا نام، جیف بیزوز ہے، جو غیر معمولی صلاحیتوں کا حامل شخص ہے۔ کمپنی کا اصل کمال اُس کی شان دار کام یابی ہی نہیں، بلکہ گزشتہ آٹھ برسوں سے یہ صارفین کو خدمات کی مستعد، پیشہ ورانہ اورعُمدہ پیش کش میں اوّل نمبر پر ہے۔ 

جیف کے مطابق کمپنی کے ابتدائی خیال اور اس کی بنیاد رکھنے کے بعد جدّت و وسعت میں کسی کارکن، منتظم یا تیکنیک کار کا اُتنا اہم کردار نہیں، جتنا ’’غیرمطمئن صارفین‘‘ کا ہے۔ اُس کے مطابق، متعلقہ صارفین کی شکایات کے ازالے اور ہمہ وقت بہتری میں یہ شکوے نئے خیال، منفرد سوچ، مثبت ردّعمل اور نظام میں بہتری کا باعث بنتے ہیں۔ گویا کم زوری کو جدّتِ خیال اور طاقت کا باعث بنا لیا جاتا ہے۔ وطنِ عزیز میں توبعض اوقات ’’غیرمطمئن صارف‘‘کوقریبی تھانےلےجاکر اطمینان دلوایاجاتاہے۔ بات کارُخ اگر ادب کی جانب موڑا جائے تو موجود ادیبوں میں نابغۂ روزگار جاپانی ادیب ہارو کی موراکامی کے تذکرے کے بغیر بات نامکمل رہتی ہے۔ جب وہ کسی نئے خیال کو ناول میں ڈھال رہا ہوتا ہے، تو چھے ماہ تک ایک مخصوص معمول پر عمل کرتا ہے۔ ہر صبح چار بجے اُٹھتا ہے، پانچ چھے گھنٹے سوچنے اور لکھنے کا کام کرتا ہے، دس کلومیٹر طویل دوڑ لگاتا ہے یا پندرہ سو میٹر تیراکی کرتا ہے، بقیہ دن مطالعے میں بسر کرتا ہے اور رات ٹھیک نو بجے سونے کے لیے بستر پر چلا جاتا ہے۔ وہ چھے ماہ تک مسلسل اس معمول پر عمل کرکے اپنے آپ کو حالتِ تنویم (Mesmerism) میں لے کر آتا ہے تاکہ بقول اُس کے ’’ذہن کے عمیق گوشوں تک رسائی حاصل کرسکے۔‘‘ پاکستان میں اتنی ورزش کے بعد تحریر و تالیف (جب کہ اس سے آمدنی بھی نہ ہوتی ہو) کا خیال ہی جی کے خوش رکھنے کو اچھا ہے۔

ایک اورمعاملہ نئےخیالات کی پیداوار میں عملی معنوں میں مقامی طور پر معاون ہو سکتا ہے۔معروف امریکی ادیب ارنسٹ ہیمنگوے، برطانوی ادیب، سمرسیٹ مام اور دیگر ادبا اس سےخاصا فیض یاب ہوتےرہےہیں۔ یہ معاملہ سیر وسیاحت کے ذریعےنئےتجربات کرنے،مختلف مقامی وبین الاقوامی ثقافتوں سے رُوشناسی، متنّوع افراد سے ملاقاتوں اور نئے خیالات کی پیداوار کا ہے۔ اُردو ادب کی اہم ترین ناول نگار، قراۃ العین حیدر بھارت کے طُول و عرض کی مسافت، پاکستان میں مختصر مدت اور برطانیہ میں قیام کے تجربات سے گزریں اور شان دار ادب تخلیق کیا۔ عبداللہ حسین کی تحریر کو ابتدائی سفر اور قیامِ کینیڈا، بعد ازاں طویل عرصے تک برطانیہ کو اپنا مستقر بنالینےکےعمل اور سیاحت ِ یورپ نے بارآور کیا۔ 

مستنصر حسین تارڑ کی دنیا کے طول و عرض کی سیاحتوں اور پاکستان میں پنجاب و شمالی علاقہ جات کے چپّے چپّے پر قیام نے بھی نہ صرف اُنھیں اس نسل کا مقبول ترین مصنف بنایا بلکہ معیار کےنئےسانچے تخلیق کرنے کی خوبی بھی عطاکی۔ اقبال نے ہند و یورپ کے سفر کیے، فیض احمد فیض کے اسفارِ مغرب و ایشیا بشمول روس و بھارت سب کے سامنے ہیں اور راشد نے بھی بے شمار سفر کیے، اسی طرح دیگر ممتازشاعر اور ادیب بھی ہیں۔ البتہ یہ اخذ کرلینا کہ سفر ہی وسیلۂ ظفر ہے، بےجا ہوگا۔ شعرا میں غالبؔ (سفرِکلکتہ سے ہٹ کر) سے لے کر منیرنیازی تک اور نثر نگاروں میں منٹو سے لےکر انتظار حسین تک بے شمار ممتاز ادبا شامل ہیں، جنھوں نے کہیں ہجرت کا سفر تو کیا، دیگر قابلِ ذکر سفر نہ کیے، تو بڑا، جدت آمیز اور آفاقی ادب سفر کیے بغیر بھی تخلیق ہو سکتا ہے، مگر سفر اِسے اضافی رنگ اور جہتیں ضرور عطا کرسکتا ہے۔ دو یا زیادہ افراد کے بیچ مکالمہ بھی نئے خیال کی کھیتی قرار پاتاہے۔ 

کارمک میکارتھی امریکا کے مقبول ترین مصنّفین میں سے ایک ہے۔ اُسے اپنے ناول ’’سڑک‘‘ (The Road) پربین الاقوامی اعزاز پلٹزر انعام سے بھی نوازا گیا۔ اِس ناول میں کئی مکالمات ہُوبُہو اُسی طرح لکھے گئے ہیں، جس طرح وہ حقیقی زندگی میں وقوع پذیر ہوئے۔ مثال کے طور پر اُس کے ناول میں درج بہت سے حقیقی مکالموں میں سے اپنے بیٹے سے ایک مکالمہ یوں درج ہے۔ بیٹا: ’’بابا اگر مَیں مرگیا تو آپ کیا کریں گے؟‘‘ باپ: ’’مَیں بھی مرجانا چاہوں گا۔‘‘ کارمک سمجھتاہےکہ نئے خیالات کے لیے اپنے اِردگرد کے افراد سے حقیقی مکالمات پر غور کرتے رہناچاہیے۔ یہ اُس کی واحد نصیحت نہیں، بہت سے راہ نمااصولوں میں سے ایک ہے۔ دی ہنگر گیمز (The Hunger games) نامی فِکشن کاسلسلہ بین الاقوامی کام یابی کی ناقابلِ یقین داستان ہے۔ اب تک اس کے دو کروڑ سے زائد نسخے فروخت ہوچُکےہیں۔ یہ سائنس فِکشن پرمشتمل ایک خیالی دنیا کی کہانی ہے، جسے ایک سولہ سالہ کردار کی زبانی بیان کیا گیا ہے۔ 

اِس کی مصنّفہ، سوزن کولنز کو اس تخّیلاتی داستان کا بنیادی خیال، جس میں مستقبل کا ماحول دکھایاگیا ہے اورجس میں نوعُمر کردار ایک وسیع و عریض پنڈال میں مرنے تک لڑنے کو تیار رہتے ہیں،دو مختلف خیالات کے ملاپ سے سُوجھا۔ یعنی دو یا زیادہ خیالات کا ملاپ بھی ایک نئے خیال کوجنم دے سکتا ہے۔ ایک شام وہ تھکی ہاری، اپنی آرام گاہ میں نیم دراز، بے دلی سے ٹیلی وژن دیکھ رہی تھی۔ ٹی وی کے چینل بدلتے ہوئے وہ ایک رئیلٹی شو پر کچھ دیر کے لیے ٹھہر گئی، جس میں چند نوجوان لڑکے لڑکیاں انعام کےلیے مقابلہ کررہےتھے۔ چند لمحے یہ پروگرام دل چسپی سے دیکھنے کے بعد وہ ایک اورچینل کی جانب بڑھ گئی۔ اس چینل میں عراق کی جنگ کے مناظر دکھائے جارہے تھے۔ رئیلٹی شو اور عراق کی جنگ کےمناظر اس کےذہن سے چپک کراُسے بے چین کرنے لگے، یہاں تک کہ وہ آپس میں مُدغم ہوگئے اور ان میں سے ایک خیال اُبھرا، جس نے آہستہ آہستہ اس ناول (اور فلم) کی صُورت اختیار کی جوبین الاقوامی سطح کاایک سنسنی خیز اشاعتی واقعہ بن گیا۔

اسٹیفن کنگ یکےبعددیگر پاپولر نوعیت کےبیسٹ سیلرناول تخلیق کرنے کے لیے معروف ہے۔ ابتدا میں اُسےسستے قسم کے سنسنی خیز ناول لکھنے والا مقبول مصنف سمجھا جاتا تھا، مگر جب اُس کی تحریریں ’’دی نیویارکر‘‘ اور دیگر مستند جرائد نے شائع کرنا شروع کیں، تو اُسے سنجیدہ ادیبوں کی صف میں شامل کرلیا گیا۔ تخلیقات اور ایجادات میں ’’خواب ‘‘ کا تذکرہ کیا گیا، تو اسٹیفن کنگ کو اپنے معروف ناول ’’بے چارگی‘‘ (Misery) کاخیال ایک خواب ہی میں آیا۔ قصّہ یوں ہے کہ وہ طیارے کے ایک سفر کے دوران سوگیا۔ اُسے خواب میں ایک سنگ دل اور خوں خوار عورت نظر آئی، جس نے ایک مصنّف کو قید کر کے اسے قتل کرڈالا۔ بعد ازاں اُس کی جِلد، بدن سے علیحدہ کی۔ بدن کے اعضا ایک سور کو کِھلادیے اور مصنّف کے ماس سے ایک کتاب کی جلد بندی کردی۔ ایک مصنّف کی جِلد ایک کتاب کی جِلد بن گئی۔ نتیجتاً اسٹیفن کنگ نے ناول کے ابتدائی چالیس پچاس صفحات ہوٹل تک پہنچتے ہوئے اپنے دماغ میں لکھ ڈالے۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ بعدازاں ناول تحریر کرتے ہوئے اُس میں بہت سی بنیادی تبدیلیاں کرنا پڑیں۔ تخلیقی طور پر ادبی خیال کے لیے غیر معمولی پروازِ خیال بھی لازم نہیں۔ بہت سےمصنّفین حقیقی زندگی کے عمیق مشاہدے سے عُمدہ فن پارے سامنے لےآتے ہیں۔

امریکی ادب کا سُرخیل، مارک ٹوئن اِس کی عُمدہ مثال ہے۔ اُس کا ناول، ہکل بیری فِن (Huckle berry Finn) اُس کی زندگی کے ایک حقیقی کردار کے گرد بُناگیاتھا۔ اِس ناول کو بین الاقوامی سطح پر کلاسیک کادرجہ حاصل ہے۔ وہ اپنے بچپن کے دوست ٹام بلینکن شپ کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتا ہے۔ ’’مَیں نے ہکل بیری فِن کا کردار ہُو بہُو ٹام بلینکن شپ کے حقیقی کردار کی طرح لکھ دیا۔ وہ کم علم، ان دُھلا اور زیادہ تر بھوکا رہنے والا لڑکا تھا، پر دل کا بہت اچھا تھا، بےحد آزاد شخصیت کا مالک تھا۔ ساری آبادی کے مَردوں اور لڑکوں میں سے صحیح معنوں میں سب سے آزاد مزاج لڑکا تھا۔ نتیجتاً وہ ہمہ وقت مطمئن و خوش رہتااور ہم سب کے لیے قابلِ رشک تھا۔‘‘ اُردو ادب میں اشفاق احمد کے افسانے ’’گڈریا‘‘ سے لے کر منٹو کے افسانوں ’’بُو‘‘، ’’ٹھنڈاگوشت‘‘، ’’شاردا‘‘ وغیرہ اور ن۔م راشد کی نظم ’’مسز سالا مانکا‘‘ سے لے کر مصطفیٰ زیدی کی نظم ’’شہناز‘‘ تک اور دیگر بے شمار فن پاروں میں حقیقی کردار یوں موجود ہیں، جیسے بدن میں روح یا دماغ میں خیال۔

خیالات کے نزول کےسلسلے میں بین الاقوامی سطح کی دو اہم ادبی تخلیقات کاتذکرہ دل چسپی و علم کا حامل ہے۔ رابرٹ لوئی اسٹیونسن اسکاٹ لینڈ کا معروف ادیب تھا۔ اُس نےدیگر بےشمار ادیبوں کو متاثر کیا۔ انیسویں صدی میں جب ابھی برصغیر میں فِکشن کا نثری ادب گُھٹنوں کے بَل چل رہا تھا، وہ اپنی پروازِتخیل کےباعث ڈاکٹر جیکل اور ہائڈ جیسے کردار، ٹریژرآئی لینڈ، کڈنیپڈ اور دیگر عوامی مقبولیت حاصل کرنے والے ناول سامنے لے کر آیا۔ اردو کے معروف ادیب، محمد خالد اختر اس کی پرُتخیّل، تازہ اور دَمکتی تحریروں سے خاصے متاثر تھے اور انھوں نے بے شمار جگہوں پر اُس کا تذکرہ بھی کیا ہے۔ ایک مرتبہ اسٹیونسن نے اسکاٹ لینڈ میں چُھٹیوں کے دوران وقت گزاری کے لیے ایک نقشہ پینٹ کرنا شروع کیا۔ کام مکمل کرکے وہ چند قدم پیچھے ہٹا تاکہ پینٹنگ کا ناقدانہ جائزہ لے سکے،تو اُس نے چشمِ تصوّر سے اس نقشے میں بحری قزّاقوں کو چلتے پھرتے دیکھا۔ بعدازاں، اُس نےبیان کیا ’’قزّاق نقشے پر حرکت کر رہے تھے۔ وہ ایک خزانے کے حصول کے لیے آپس میں لڑائیاں لڑ رہے تھے۔ یہ سب اُس چند انچ کے نقشے کے میدان پر ہورہا تھا۔‘‘ اُس نے فوری طور پر پینٹ برش کی جگہ پرندے کےپرَسے بنا قلم تھاما اورناول تحریرکرنا شروع کردیا۔ اُس ناول نے ادب کے علاوہ فلموں میں پیش کیے جانے والے بحری قزّاقوں کے تصوّر کو خاصا متاثر کیا۔ 

ایک ٹانگ والے، کاندھوں پر توتے بٹھائے ملاّح ہوں یا خزانے کےنقشے، اُسی ناول سے متاثر ہوکر تخلیق کیے گئے۔ جارج آرویل کے ناول ’’اینیمل فارم‘‘ کو جدید سیاست، ریاستی جبر اور انسانی نفسیات کی پیچیدگیوں کے اظہار کے لیے حوالہ جاتی حیثیت حاصل ہے۔ بنیادی طور پر اس ناول میں انقلابِ اکتوبر کےبعد روس میں قائم اسٹالن کی جابرانہ حکومت کا علامتی انداز میں ناقدانہ جائزہ لیا گیا تھا۔ اِس میں غیر ذمّے دار اور عادی شرابی، مسٹر جونز کے فارم کے جان وَروں کی بغاوت دکھائی گئی ہے، جب وہ اپنی طاقت سے مسٹر جونز اور دیگر انسانوں کا نظام تلپٹ کرنے کا منصوبہ بنا کرانقلاب لے آتے ہیں اور فارم پر قبضہ کر لیتے ہیں۔ بعد میں وہ مختلف احکامات تحریر کرکےوہاں آویزاں کردیتے ہیں، جو ضرب المثل کی حیثیت اختیار کرچُکے ہیں مثلاً ’’تمام جان وَر برابر ہوتے ہیں، مگر چند جان وَر دوسروں کی بہ نسبت زیادہ برابرہوتے ہیں‘‘ وغیرہ۔ اس طرح کہانی آگے بڑھتی ہے۔ قصّہ کچھ یوں ہے کہ ایک مرتبہ جارج آرویل نے ایک لڑکے کو دیکھا، جو ایک قوی الجثّہ گھوڑے کو تنگ رستے پر بمشکل لیے چلا جارہا تھا۔ یہ دیکھ کر یک دَم ایک سوال جارج کے دماغ میں آیا کہ اگر جان وَروں کو اپنی قوت کا صحیح طور پر احساس ہو جائے تو کیا ہو؟ پس اس سے ناول کا خیال پیدا ہوا، باتیں کرتے اور منصوبے بناتے جان وَروں کی شبیہیں اُبھریں اور ’’اینیمل فارم‘‘ وجود میں آگیا۔ 

ریمنڈ کارور جدید افسانے کے سُرخیلوں میں شمار ہوتا ہے۔ اُس کے شاہ کار افسانوں نے اردو ادب کے قارئین کو بھی متاثر کیا ہے۔ صغیر ملال نے اس کے افسانے ’’بیسویں صدی کے نمایندہ افسانے‘‘ میں ترجمہ کر کے شامل کیے۔ شکیل عادل زادہ نے ’’سب رنگ‘‘ جیسے عُمدہ رسالے میں اُس کے افسانوں میں سے منتخب کردہ افسانے شامل کیے۔ علی محمّد فرشی نے اپنے شان دار رسالے ’’سمبل‘‘ میں اُس کے افسانوں کے تراجم شائع کیےاورشائقینِ اردو ادب اس کےکئی افسانوں سے محظوظ و متاثر ہوئے۔ وہ سمجھتا تھا کہ عُمدہ ادب میں سوانحی اور خودنوشتی عناصر نمایاں ہوتے ہیں۔ اُس کی رائے کا خلاصہ کچھ یوں ہے، ’’جب آپ نوجوان ہوتے ہیں تو آپ کو بارہا بتایا جاتا ہے کہ اُن موضوعات، کرداروں اور ماحول کے بارے میں لکھیں، جنھیں آپ جانتے ہیں۔ میری رائے میں تھوڑی سی خودنوشت اور حقیقی مشاہدے، زیادہ تخیّل کاملاپ بہترین تخلیقات کاضامن ہوتا ہے۔‘‘

علمائے ادب سمجھتے ہیں کہ عموماً ایک ادیب کے پہلے ناول پر اس کی اپنی سوانح کی واضح چھاپ ہوتی ہے۔ اپنی زندگی کا بغور جائزہ لے کر اُس میں سےکرداروں، ماحول، جزئیات، واقعات اور فضا کا انتخاب اورتخیّل کی کارفرمائی شامل کرکے شاہ پارےسامنے لانا جیّد اور عُمدہ ادیبوں کا آزمودہ نسخہ رہا ہے۔ نوبل انعام یافتہ ادیب، جوزے سارا ماگو کی تحریروں نے ایک زمانے کو اپنا گرویدہ بنائے رکھا۔ اُس کا نمایاں ترین ناول ’’بلائنڈنیس‘‘ ہے جس کا احمد مشتاق نے اُردو میں عمدہ ترجمہ کیا۔88 برس کی عُمر میں وفات پانے والے پرُتگالی مصنف نے دنیا کو کئی عُمدہ تحریریں پیش کیں۔

وہ اپنے طویل جُملوں، حیران کُن خیالات، تخلیقی اختراعات اور عوام و خواص کو بیک وقت متاثر کرتے انداز ِ تحریر کی وجہ سے زیادہ جانا جاتا ہے۔ وہ دل چسپ سوالات، منفرد اقوال اور توجّہ طلب حقیقی مکالمات کو اپنی ڈائری میں تحریر کرتا رہتا تھا۔ ایک مرتبہ سستاتے ہوئےاُس کے ذہن میں سوال آیاکہ اگر موت چُھٹی پر چلی جائے تو کیا ہوگا؟اس سوال پرسوچ بچارکرتے ہوئے اُسے اپنے ناول ’’وقفوں میں موت‘‘ کا خیال سُوجھا۔ کتاب کا آغاز ایک بے نام مُلک سے، اَن جانے دَور میں، موت کی رخصت سے ہوتاہے۔ جب گھڑیال نئے سال کی آمد کا اعلان کرتے ہیں تو اُس کے بعد مُلک میں کسی شخص کو موت نہیں آسکتی۔ فلسفی، ماہرین، مذہبی راہ نما موت کےچلےجانے پر حیراں و پریشاں ہوجاتے ہیں اور کہانی آگے بڑھتی ہے۔ جوزے ساراماگو نے یہ ناول تب لکھا، جب وہ تراسی (83) برس کا تھا۔ اُس نے اپنا معروف ترین ناول ’’بلائنڈنس‘‘ تہتّر (73) برس کی عُمر میں لکھ کر ثابت کردیا کہ غیر معمولی طور پرتخلیقی لوگوں کےلیےجسمانی ضعیفی کوئی معنی نہیں رکھتی۔ 

جدید نسل کے بین الاقوامی سطح اور اُردو زبان کے بہت سے ادیبوں کو اپنی تخلیقات کا خیال یک دَم اس طرح آیا، جس طرح باغ میں بیٹھے ہوئے ایک پتّا لہراتا ہوا گود میں آن گرتا ہے۔ وہ پتّا تو نہ تھا، نہ جانے کیا تھا، الہام، کشف یا خیال، جو ایک اُداس عورت کی مرمریں کہنی کی صُورت لیوٹا لسٹائی کی چشمِ تصوّر پر ایک جھماکے سے اپنی جھلک دکھلا گیا تھا۔ کہنے کو تو وہ ایک عظیم ادیب کاچند لمحوں پر مشتمل گیان اورخیال تھا، مگر اُس کے پیچھے خیال کاری کا ایک پیچیدہ، وسیع سلسلہ تھا، جو شعور، تحت الشعور، جینز، ذہنی تربیت، ودیعت کردہ خوبی، ماحول اور پروازِخیال سمیت بےشمار عناصر کو متحرک کرگیا۔ کہنے کو تو میرِ کارواں ایک گھوڑے کو چابک مار کر سفر کا آغاز کرتا ہے، مگر…وہ ایک ہلکی سی ضرب، تیار قافلے کو منزلوں کی جانب روانہ کردیتی ہے، نامعلوم اور پُراسرارمنزلوں کی طرف بھی۔

تازہ ترین