عزیر احمد
سرطان زدہ خلیات کی نشان دہی کرنا آسان ہوگیا ، تھری ڈی پرنٹنگ کے ذریعے انسانی اعضا بھی بننے لگے۔ سائنس کے میدان میں رونما ہونے والی حیرت انگیز ترقیاں واقعی تہلکہ خیز ہیں اور تیزی سے ہونے والی یہ ترقیاں کسی بھی شعبے میں اس قدر نمایاں نہیں جتنی کہ حیاتیاتی سائنس میں ہے ،کیوں کہ زندگی اور دیگر کیمیائی عوامل کی سمجھ بوجھ میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے ۔سائنس داں یہ سمجھنے کی تگ ودو میںمصروف ہیں کہ یہ سمجھا جائے کہ قدرت کس انوکھے انداز سے مختلف عوامل سر انجام دیتی ہے اور سائنس داں انہی عوامل کی بناء پربیماریوں سے نبرد آزما ہونا اور زرعی پیدا وار میں اضافے کے طر یقے اخذ کرتے ہیں یہ عمل حیاتیاتی نقل (Biomimicry) کہلاتا ہے ۔
اس سلسلے میں چند حیرت انگیز مثالیں نظرقارئین ہیں۔جرمنی میں قائم جامعہ کو نسٹا نز کے محققین کے مطابق پھلوں کی مکھی کی حس ِبو کے ذریعے کینسر خلیات کی نشان دہی کی جاسکتی ہےاور انہیں دیگر تندرست خلیات سے علیحدہ شناخت بھی کیا جا سکتا ہے۔ دراصل عام تندرست خلیات اور کینسر زدہ خلیات میں سے خارج ہونے والی بو میں کافی واضح فرق ہوتا ہے۔ یہ فرق ان دونوں اقسام کے خلیات میں رونما ہونے والی مختلف حرکات کی بنا پر ہوتا ہے۔اس مقصدکے حصول کے لیے ان مکّھیوں کے اینٹینا کے موصولاتی خلیوں میں جینیاتی تبدیلی کی گئی ہے۔ اس طرح کہ کسی بھی کینسر خلیےکی موجودگی میں یہ اینٹینے مخصوص انداز سے چمکتے ہیں۔
Samuel Achilefu جامعہ واشنگٹن، امریکا اور ان کے ساتھیوں نے کینسر خلیات کی شناخت پر جرّاحی کے ذریعے ان خلیات کو نکالنے کے عمل کو مزید آسان بنانے کے لئے ایک عینک نما آلہ دریافت کیا ہے جو کہ آپریشن کے دوران سرطانی خلیات کی نشاندہی میں مدد کرتا ہے۔ اس کے لیےخلیات میں داخل کیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے سرطانی خلیات الگ سے چمکتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ اس آلے کا استعمال نہایت ہی آسان ہے اور جرّاحی کے دوران ہاتھ بھی خالی رہتے ہیں۔ سفید روشنی اور انفرا ریڈ روشنی کی بیک وقت موجودگی میں اس آلے سے دیکھا جا سکتا ہے اور ساتھ ہی ویڈیو اور گرافک تصاویر بھی دیکھی جا سکتی ہیں۔
طبّی آلات کی دریافتوں کی صف میں ایک اور دلچسپ دریافت 3D چھپائی ہے۔ا ب اس کا استعمال کافی آلات بنانے کے لیے کیا جارہا ہے ۔ خصوصاً گزشتہ تین سالوں میں اس مد میں ہونے والے کام کا تخمینہ تقریباً 3 ارب امریکی ڈالر لگایا گیا ہے جو کہ سالانہ 30 فی صد بڑھ رہا ہے۔چین نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ 500 ملین امریکی ڈالر کی سرمایہ کاری سے 10 تحقیقاتی ادارے قائم کرے گا جو کہ 3D چھپائی میں مہارت حاصل کریں گے۔3D چھپائی میں کسی بھی آلے یا چیز جس کی بھی چھپائی کرنی ہے ۔
اس کا 3D خاکہ پہلے کمپیوٹر پر تیّار کیا جاتا ہے ،پھر کمپیوٹر کو مشین سے منسلک کر دیا جاتا ہے، جو کہ اس3D خاکے کے مطابق دھات یا پلاسٹک کے پرزوں کو تشکیل دیتا ہے۔3D پرنٹر اب مختلف اقسام کی چیزوں کی چھپائی کے لئے استعمال ہو رہے ہیں جن میں مشینی پرزہ جات سے لے کر تعمیراتی سامان تک اور کپڑا سازی سے لے کر آگ بجھانے کے آلات تک شامل ہیں۔3D چھپائی صنعتوں کے لیے نہایت کارآمد ثابت ہو سکتی ہے جیسا کہ بائیو میڈیکل آلات کی تیّاری۔ 2013ء میں چینی سائنسدان اس چھپائی کے ذریعے جگر، گردے اور کان وغیرہ زندہ خلیات سے تیّار کرنے میں کامیاب ہو ئے تھے۔
جامعہ Hangzhou Dianzi کے محققین 3D بائیو پرنٹر ایجاد کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں جو کہ ایک چھوٹا سا جگراور کان کی ہڈّی زندہ خلیات پر3D پرنٹ کر سکتاہے۔مارچ 2014ء میں سوان سی میں ایک موٹر سائیکل سوار کا چہرہ حادثے کی وجہ سے بالکل مسخ ہو گیا تھا اسے بھی 3D چھپائی کے ذریعے دوسرا چہرہ لگا دیا گیا۔3D چھپائی کے ذریعے امریکا میں ایک 14ماہ کے بچّے کی دل کے آپریشن کے دوران جان بچا لی گئی۔بچّے کے دل میں چار نقائص تھے اور ڈاکٹروں کو فوری طور پر ماڈل دل کی ضرورت تھی۔
جامعہ Louisville کےJ.B Speed School of Engineering نے اس آپریشن کا پلان بنایا اور کامیابی سے پایۂ تکمیل تک پہنچایا۔3D چھپائی انسانی بیرونی ڈھانچے 43(exoskeleton) میں بھی استعمال ہو رہی ہے جس نے ایک مفلوج خاتون کو چلنے پھرنے کے قابل بنا دیا۔بیرونی ڈھانچے ،اکثر سائنسی تخیّلاتی فلموں میں دکھائے جاتے ہیں بطور میکانیکی لباس (mechanical suits) جن میں غیر مرئی طاقت ہوتی ہے جو پہننے والے کو اضافی طاقت دیتا ہے۔یہ سب آج حقیقت بن چکا ہے۔ امریکی دفاعی ادارہ DARPA اور Lockheed نے سپاہیوں کے لئے ایسے ہی بیرونی ڈھانچے تیّار کئے ہیں، تاکہ ان کی طاقت کو دوبالا کیا جا سکے اور وہ پھرتی سے وزنی سامان اٹھا کر اور چیزوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جا سکیں اور دیگر کام بغیر تھکاوٹ کے کر سکیں۔