کرونا وائرس نے نے دیگر تمام مسائل کو پیچھے دھکیل دیا ہے پورے ملک میں کرونا وائرس کی وجہ سے نہ صرف خوف و ہراس کی فضا ہے بلکہ زندگی کے معاملات کے مفلوج ہوکر رہ گئے ہیں ، اگرچہ اس وقت مرکزی اور صوبائی حکومتیں اس عفریت پر قابو پانے کے لیے پورا زور لگا رہی ہیں لیکن لگتا ہے کہ اس حوالے سے کچھ تاخیر ضرور ہوئی ہے ہے اگر آغاز میں اس وبا پر قابو پانے لئے ایسے اقدامات کیے جاتے، تو شاید کرونا وائرس پاکستان میں اس طرح نہ پھیلتا ، جس طرح چاروں صوبوں میں پھیل چکا ہے اور ہرصوبہ اور اسلام آباد سے کرونا وائرس کے مریضوں کی بڑی تعداد سامنے آ رہی ہے لگتا یہی ہے کہ حکومتیں اسے ایک معمول کی وبا سمجھ کر خواب خرگوش کے مزے لیتی رہیں ،حتی کہ پی ایس ایل کے میچز بھی ہزاروں لوگوں کی موجودگی میں کرائے جاتے رہے ،مگر اس بات پر توجہ نہیں دی گئی کہ چین سے نکلنے والا کرونا وائرس دنیا کے 165 ممالک میں پہنچ چکا ہے اور اس کی تباہ کاریاں جاری ہیں، سعودی عرب کی مثال سامنے ہے کہ اس نے کرونا وائرس کی وجہ سے فوری اقدامات کرتے ہوئے مکہ اور مدینہ میں انتہائی قدم اٹھائے اور اپنے ملک کو عملاً لاک ڈاؤن کردیا۔
سرحدوں پر پہرے بٹھا دیئے اور ایئرپورٹس بند کر دیئے ، آج یہ صورتحال ہے کہ سعودی عرب کرونا کے معاملہ میں بڑی حد تک اس عفریت سے نکل آیا ہے،لیکن ہمارے ہاں بے شمار ایسے مسائل ہیں کہ جن کی وجہ سے ہماری حکومتیں کوئی بڑا قدم اٹھانے سے قاصر نظر آتی ہیں ،اتنے ہفتے گزر گئے کورونا کے بارے میں اطلاعات و شواہد سامنے آتے رہے مگر بات زبانی جمع خرچ سے آگے نہ بڑھی ، جب معاملہ ہاتھوں سے نکلتا ہوا محسوس ہوا تو حکومت نے ہڑبڑا کر فیصلے کرنے کا آغاز کیا ،دفاتر،مال ، مارکیٹیں بند کر دیئے گئے اور سرگرمیاں محدود کرنے کے اقدامات اٹھائے جانے لگے،لیکن اس وقت جو صورت حال ہے اس میں صرف زبانی جمع خرچ سے یا چھوٹے موٹے اقدامات سے بات نہیں بنے گی، بڑے اور سخت فیصلے کرنا پڑیں گے،اب جبکہ چاروں صوبوں میں فوج بلا لی گئی ہے اور لاک ڈاؤن کے ذریعے کو رونا کو روکنے کا فیصلہ کیا گیا ہے ، تو سوال یہ ہے کہ کیا اس کے لیے کوئی مربوط حکمت عملی بھی اختیارکی جائے گی ؟ یہ ایک دو دن کا بھی معاملہ نہیں ہے بلکہ اس کے لیے ایک لمبی لڑائی لڑنا ہوگی، تو کیا لوگوں کو لاک ڈاؤن کے ذریعے گھروں تک محدود رکھنے کی جو حکمت عملی بنائی گئی ہے اس کے دیگر پہلوؤں پر بھی غور وخوض کیا گیا ہے؟لاک ڈاؤن کے باعث خوراک کا بحران پیدا ہوسکتا ہے ،کیا اس پر بھی حکومت کی نظر ہے ؟۔
موجودہ حالات میں حکومت ہو یا اپوزیشن فوج ہو یا سول ادارے سب کی اولین ترجیح یہ ہے کہ کرونا وائرس کی تباہ کاریوں سے ملک کو بچایا جائے، عوام کے اندر بھی اس حوالے سے شعور بیدار ہوچکا ہے اور انہیں اندازہ ہے کہ کورونا وائرس کو صرف احتیاط کے ذریعے ہی شکست دی جاسکتی ہے وزیراعظم عمران خان نے چند روز پہلےلاک ڈاؤن کے آپشن کو مسترد کیا تھا کہ اس سے غریب طبقہ بری طرح متاثر ہو سکتا ہے لیکن حالات یہی تقاضہ کر رہے ہیں کہ ایک بار لاک ڈاؤن کا یہ کڑوا گھونٹ پینا ہی پڑے گا ،چین نے اس حوالےسے ایک بڑی مثال قائم کردی ہے ، اگر وہاں متاثرہ صوبہ کالاک ڈاؤن نہ کیا جاتا ، تو شاید آج چین میں قیامت صغریٰ برپا ہو چکی تھی، اگرانہوں نے کورونا وائرس پر قابو پایا ہے تو اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ حکومت نےایک سخت قدم اٹھایا اور عوام نے حکومت سے مکمل تعاون کیا۔
اسی اثناء میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف بھی پاکستان واپس آ چکے ہیں،بہتر تو یہی ہوگا کہ وہ کورونا کے ایشو پر پوائنٹ سکورنگ کرنے کی بجائے حکومت سے مکمل تعاون کریں، حکومت پنجاب کو بھی چاہیے کہ وہ شہباز شریف سے مشاورت کریں اور صوبے میں کورونا سے نمٹنے کے لیے جو حکمت عملی بنائی گئی ہے اس پر ان کی رائےلے ، اس کی وجہ یہ ہے کہ شہباز شریف 10 سال تک صوبہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ ہیں اس دوران انہوں نے ڈینگی وائرس اور دیگر آفات سے نمٹنے کے لیے کامیاب حکمت عملی اختیار کی تھی اس سے پہلے بلاول بھٹو زرداری حکومت کو مکمل تعاون کا یقین دلاچکے ہیں اور انہوں نے کہا ہے کہ یہ موقع سیاست کرنے کا نہیں بلکہ حکومت سے تعاون کرنے کا ہے تاکہ اس بلائے ناگہانی سے قوم کو بچایا جا سکے ،دوسری طرف حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ اپوزیشن کے ساتھ فوری رابطہ کرے اور جو مسائل درپیش ہیں ان پر متفقہ قومی لائحہ عمل اختیار کیا جائے۔ اللہ تعالی سے یہ دعا ہے کہ وہ ہمیں کورونا وائرس کی تباہی سے محفوظ رکھیں ۔ جہاں تک ملتان کا تعلق ہے تو اس وقت سب سے زیادہ کورونا وائرس کے اثرات کی زد میں ہے۔
تفتان سے ساڑھے چودہ سو کے قریب زائرین کو ملتان کے قرنطینہ سینٹر میں منتقل کیا جا چکا ہے ہے جس میں تین ہزار سے زائد کمرے موجود ہیں اور غالباً یہ پاکستان میں سب سے بڑا قرنطینہ سنٹر ہے، کورونا وائرس نے ہمارے طبی نظام کی بھی قلعی کھول کے رکھ دی ہے، خاص طور پر جنوبی پنجاب میں چھ کروڑ کی آبادی کے لیے کوئی ڈھنگ کی طبی سہولتیں موجود نہیں ہیں ،کرونا وائرس کی وجہ سے تفتان بارڈر پر آنے والے کو سینکڑوں میل کا سفر طے کرا کے ملتان لایا گیا ، راستے میں کوئی ایسا مرکز موجود نہیں تھا کہ جہاں ان کی دیکھ بھال کی جاسکے ،ادھر ملتان میں زیرتعمیر ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر سپتال میں سو بستروں کا قرنطینہ ہسپتال بھی بنایا گیاہے ،وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے جب اس کا دورہ کیا ،تو انہیں یہ بتایا گیا کہ یہاں تمام طبی سہولیات موجود ہیں، سیریس مریضوں کے لئے ہائی ڈیپنڈینسی یونٹ بھی بنایا گیا ہے جہاں پانچ وینٹی لیٹرز نصب کئے گئے ہیں، طبی عملہ کے لیے احتیاطی تدابیر کا سامان بھی انہیں دکھایا گیا، مگر وزیراعلی کے جاتے ہی نہ صرف وہ سامان غائب ہو گیا بلکہ یہ بات بھی کھل گئی کہ وہاں رکھے گئے وینٹی لیٹرز کام ہی نہیں کرتے جبکہ اگلے دن اس کی خبریں اخبارات میں چھپیں ، تو صحت کے افسروں کو ہوش آیا اور انہوں نے وینٹی لیٹر ز کو جیسے درست کرایا اور فعال کرادیا ، لیکن طبی عملہ کو حفاظتی سامان نہیں دیا گیا اور وہ اس حوالے سے احتجاج ہی کرتے رہ گئے ، ان باتوں سے لگتا ہے کہ ہمارے ارباب اختیار میں اس کڑی صورتحال کے باوجود سنجیدگی کا فقدان ہے۔