• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کورونا وائرس نہ صرف انسانوں کو مار رہا ہے بلکہ اس نے عالمی سطح پر معیشت کو بھی تباہی کے کنارے لا کھڑا کیا ہے۔ یہ وائرس تو ختم ہو جائے گا لیکن عام آدمی کی زندگی پر اس کے اثرات بہت دیر تک باقی رہیں گے۔

جو ممالک چند دن پہلے تک سائنس اور ٹیکنالوجیز میں ایڈوانس مانے جاتے تھے اس وبا نے ان سب کو کچھ تہس نہس کردیا ہے۔ حالت یہ ہے کہ امریکہ جیسے ملک کو بھی ماسک اور دیگر طبی سامان کی قلت کا سامنا ہے۔

معاشی طور پر مضبوط ممالک تو کسی حد تک برداشت کر لیں گے مگر ان کو بھی معیشت سے متعلق منصوبوں میں بہت ساری تبدیلیاں کرنا پڑیں گی لیکن معاشی طور پر کمزور ملکوں کا کیا بنے گا۔ غریب ممالک جہاں جی ڈی پی کی شرح انتہائی کم ہے ان کےعوام کا کیا ہوگا۔

مستقبل قریب میں جو صورتحال نظر آ رہی ہے وہ زیادہ باعثِ اطمینان نہیں ہے۔ کورونا وائرس کے خاتمے کے بعد دنیا کی معیشت کو بہت بڑے بحران کا سامنا کرنا پڑے گا۔ کئی ممالک قحط اور سخت معاشی بحران سے دو چار ہو سکتے ہیں۔

خصوصاً وہ ممالک جو زرعی پیداوار کے معاملے میں کمزور ہیں جہاں زرعی پیداوار نہ ہونے کے برابر ہے جن میں اکثریت افریقی ممالک کی ہے۔

وہ ممالک جو زرعی اجناس دوسرے ممالک سے درآمد کرتے ہیں ان کی مشکلات میں بھی مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔ دنیا کا نظام درآمد اور برآمد پر چلتا ہے۔ صنعت کی اہمیت اس لئے ہے کہ اس سے درآمد برآمد اور ملکی معیشت کی مضبوطی میں بہت مدد ملتی ہے جبکہ صنعتوں کے چلنے سےعوام کو براہِ راست فائدہ روزگار کی صورت میں پہنچتا ہے۔

بہت بڑ ی تعداد میں لوگوں کی روزی صنعتوں سے وابستہ ہے۔ کورونا وائرس کی وجہ سے صنعتوں سے وابستہ افراد بھی شدید متاثر ہو رہے ہیں مستقبل میںیہ حالات مزید خراب ہو سکتے ہیں۔ سیاحت کا بھی ملکوں کی معیشت میں اہم کردار ہے اور لاتعداد افراد اس پیشے سے منسلک ہیں۔

جو کورونا وائرس کی وجہ سے بند ہو گیا ہے اور بےشمار افرادبے روزگار ہو چکے ہیں۔ آج سے بارہ سال پہلے ایک بہت بڑا مالیاتی بحران پیدا ہو گیا تھا جس نے بہت سے ممالک کو پریشانی سے دو چار کر دیا تھا لیکن موجودہ صورتحال اس سے کہیں زیادہ خراب اثرات کی حامل ہے۔

اب تو حالت یہ ہے کہ ریستوران خالی اور ہوائی اڈے ویران پڑے ہیں ریلوے اسٹیشنوں اور بس اڈوں میں ہو کا عالم ہے، بازار سنسان ہیں۔

بہت سی کمپنیاں دیوالیہ ہو جائیں گی۔ دراصل اس وبا نے معیشت کی جڑیں ہلا کر رکھ دی ہیں۔ تیل پیدا کرنے والے ممالک کی مشکلات میں مزید اضافہ نظر آرہا ہے۔ چین جہاں سے کورونا وائرس کی ابتدا ہوئی جس نے انسانوں کے علاوہ چین کی معیشت کو خطرے سے دو چار کیا ایک بار پھر شدید بحران سے دو چار ہو سکتا ہے۔

چونکہ چین کی معیشت کا دارومدار اس وقت بر آمد پر ہے اور کوئی بھی چیز تب برآمد ہو سکتی ہے جب کوئی اس کو درآمد کرنے والا ہو۔ اس نکتہ کو مد نظر رکھیں تو یہ صاف نظر آرہا ہے کہ کورونا کے بعد بھی ایک عرصےتک چین کو برآمد میں نصف سے زیادہ کمی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو گزشتہ روز وزیراعظم عمران خان نے اربوں روپے کے مختلف پیکجز کا اعلان کیا ہے۔

جن میں غریب افراد کے لئے مجموعی طور پر ساڑھے تین سو ارب روپے ریلیف کے لئے مختص کئے گئے ہیں۔ غریب خاندانوں اور دیہاڑی کرنے والوں کے لئے ماہانہ مختص رقم اونٹ کے منہ میں زیرہ کے برابر ہے۔ کیا چار پانچ افراد پر مشتمل کنبہ سو روپے میں تین وقت کا کھانا کھا سکتا ہے؟ گھروں کے کرائے، علاج معالجہ اور اسکولوں کی فیس سمیت دیگر اخراجات اس کے علاوہ ہیں۔

دوسری طرف وزارت پٹرولیم نے پٹرول وغیرہ کو38 روپے سستا کرنے کی بات کی تھی لیکن قیمتوں میں صرف پندرہ روپے کمی کا اعلان کیا گیا ہے۔ بجلی اور گیس کی قیمتیں اب بھی اپنی جگہ برقرار ہیں۔ البتہ برآمد کنندگان کے لئے ایک سو ارب روپے فوری ریفنڈ کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔

سوال یہ ہے کہ جب صنعتیں بند ہوں، وہاں کام کرنے والے مزدور فاقے کر رہے ہوں تو برآمدات کیسے ہوں گی۔ اس کا ایک اور پہلو یہ بھی ہے کہ برآمدات تو تب ہوں گی جب درآمد کرنے والے ہوں گے۔

جب پوری دنیا میں کاروبار بند ہو تو وہ درآمد کیسے کریں گے۔ کیا یہ بہتر نہ ہوتا کہ یہ رقم غریب عوام کو ریلیف دینے کے لئے مختص کی جاتی۔ اس کے علاوہ میڈیا کے کارکنوں کی مشکلات سے کون واقف نہیں ہے۔ اخبارات اور میڈیا ہائوسز کو شدید مالی بحران کا سامناہے، ان کے تقریباً چھ ارب روپے حکومت نے روک رکھے ہیں۔

اس بحرانی کیفیت میں چند ایک کو چھوڑ کر متعدد اخبارات اور ٹی وی چینلز کے سرکاری اشتہارات بھی بند ہیں۔ اس تمام صورتحال کا نتیجہ یہ ہے کہ میڈیا کے بڑے بڑے ادارے بھی گزشتہ کئی ماہ سے اپنے کارکنوں کو تنخواہوں کی ادائیگیوں سے قاصر ہیں۔

ان کارکنوں کے گھروں کا چولہا اس تنخواہ سے چلتا ہے، غور کا مقام ہے کہ میڈیا سے وابستہ یہ کارکنان کن کن اذیتوں سے دوچار ہوں گے۔ حکومت جہاں ایک ہزار ارب کے لگ بھگ رقم ریفنڈ اور ریلیف کی صورت میں دے رہی ہے، اگر چھ ارب میڈیا ہائوسز کے کارکنان کے لئے بھی دے دے تو ان کی مشکلات کافی حد تک کم ہو سکتی ہیں۔

’’شاید کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات‘‘

تازہ ترین