• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس بار مسئلہ کچھ مختلف تھا، یہ مسئلہ صرف بلوچستان کا نہیں بلکہ پورے ملک کا تھا لیکن اسلام آباد کی اشرافیہ نے اس مسئلے کو بلوچستان کے دیگر مسائل کی طرح دیکھا اور یہ خیال نہیں کیا کہ اس قومی مسئلے کو بلوچستان کے دیگر مسائل کی طرح معمول کے حالات میں نہیں دیکھنا۔ مگر حسبِ سابق اسلام آباد والوں نے ایسی حکومت کے ناتواں کندھوں پر کورونا وائرس جیسے موذی مرض کا بوجھ لاد کر پورے ملک و قوم کے ساتھ ظلم عظیم کیا جو حکومت اپنے صوبائی دارالحکومت میں ڈاکٹرز کی حاضری کو یقینی بنانے سے بھی قاصر ہے۔ سندھ کے وزیراعلیٰ کا یہ دکھڑا کہ وفاقی حکومت نے وہ اقدامات نہیں کیے جو ایک قومی حکومت کے فرائض ہیں، اسی طرح کا گلہ ہر بلوچستانی کا بھی ہے۔ جس کی آواز اسلام آباد کی اشرافیہ تک بڑی مشکل سے پہنچتی ہے۔ کورونا وائرس ایک عذاب کی طرح دنیا پر نازل ہوا ہے لیکن جس طرح ہمارے پالیسی سازوں نے اسے گھیر گھار کر پاکستان کی دہلیز تک پہنچایا ہے اس پر حکمران ضرور تمغہ نااہلی کے حقدار ہیں۔ آج پاکستان کے طول و عرض میں لوگ تفتان کے ذریعے درآمد شدہ کورونا وائرس پر ایک صوبائی حکومت کو کوس رہے ہیں۔ جب حکمران نااہل ٹیم منتخب کریں گے تو پھر ایسا تو ہونا تھا۔ جس حکومت کو قرنطینہ کا پتا نہ ہو، وہ کیا حکومت ہوگی؟ وزیراعلیٰ سندھ کے بقول تفتان میں جہاں زائرین کو قرنطینہ کے لیے رکھا گیا وہاں چارپائی سے چارپائی جڑی ہوئی تھی۔ جس کا مطلب یہ تھا کہ اگر 300زائرین میں سے ایک شخص میں بھی خدانخواستہ کورونا کا وائرس ہو تو اس بات کو یقینی بنایا گیا کہ تمام زائرین میں یہ سرایت کر جائے۔ بلوچستان میں وفاق نے ہمیشہ منظورِ نظر افراد کو اہم ترین پوسٹنگز سے نوازا ہے جس نےکمزور بیوروکریسی کے نظام کو مزید خراب کیا ہے۔ المیہ تو یہ ہے کہ جب محکمہ صحت بلوچستان نے ڈاکٹروں کو تفتان میں اس مقصد کیلئے پوسٹ کیا تو سرکاری ملازم ڈاکٹروں نے جانے سے انکار کردیا۔ جب جونیئر آفیسر سفارش کے تحت پوسٹ ہوں گے تو پھر ایسا ہی ہوگا۔ قرنطینہ کو اگر آسان الفاظ میں بیان کیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ قرنطینہ والے شخص کو چند دنوں کیلئے الگ تھلگ رکھا جائے تاکہ اگر اس میں اس دوران کسی بیماری کی علامات پائی جائیں تو وہ کسی صحتمند شخص کو ٹرانسفر نہ ہو جائیں۔ یہ انتہائی آسان اور سادہ سی بات نااہل ٹیم کو سمجھ نہ آئی اور بڑے فخر سے ٹویٹ کے ذریعے ایک ہی ٹینٹ یا چھت کے نیچے قریب قریب بچھے بستر دکھائے گئے۔ حیران کن طور پر بلوچستان کے مسائل سے بےخبر بعض ٹی وی اینکرز نے یہ ٹویٹر والی تصاویر اٹھا کر صوبائی حکومت کی نااہلی کو قومی سطح پر بہترین کارکردگی کے طور پر پیش کرکے قومی جرم کا ارتکاب کیا اور سب کو خواب غفلت میں سونے پر داد دی اب جب پورے ملک میں ہاہاکار مچی ہے تو وزیراعلیٰ نے کہہ دیاکہ ہمیں این ڈی ایم اے سے صرف 1200 ٹینٹ بستر اور کمبل ملے تھے۔ کوئی ان سے پوچھے کہ کچھ آپ کی بھی کچھ ذمہ داری تھی، آپ کے صوبے میں پی ڈی ایم اے اور محکمہ صحت کا وجود بھی ہے۔ بعض ضرب الامثال اتنی حسب حال ہوتی ہیں جنہیں نظر انداز کرنا ممکن نہیں رہتا، جیسے جاگتے رہنا، ہم پر نہ رہنا۔ گزشتہ دنوں حکومتی ترجمان کا موقف یہ تھا کہ ہم نے زائرین کو باربی کیو کھلایا، جس کی وڈیوز ٹویٹ بھی کی ہیں۔ اس پر سر پیٹنے کو دل کرتا ہے۔ ہم تو پہلے کہہ رہے تھے کہ مکمل تشخیص تک زائرین کو کوئٹہ نہ لایا جائے اور تفتان میں وفاقی حکومت کی مدد سے بہتر سہولتیں فراہم کی جائیں تاکہ یہ آگے پورے ملک میں پھیل نہ سکے۔ اب تو حالت یہ ہے کہ وبا کوئٹہ تک پہنچ گئی ہے، جہاں پہلے منہ ڈھانپنے والے ماسک مارکیٹ سے غائب ہوئے، اب کورونا وائرس کے مریضوں کی کوئٹہ میں موجودگی کی خبر پھیلتے ہی جراثیم کش سینی ٹائزر ناپید ہو چکے ہیں۔ اگر خدانخواستہ اس نے کوئٹہ میں وبائی شکل اختیار کی تو اس کی تمام تر ذمہ داری حکومت پر ہوگی۔

صوبائی حکومت کا یہ عالم ہے کہ کورونا وائرس سے اس قدر خائف ہے کہ بلوچستان سول سیکرٹریٹ، محکمہ صحت، میٹروپولیٹن کارپویشن کوئٹہ سمیت تمام دفاتر میں تمام شہریوں کا داخلہ مکمل طور پر بند کردیا ہے اور شہر میں افواہوں کا طوفان اٹھا ہے، کبھی شہر میں کرفیو تو کبھی کورونا وائرس میں مبتلا ہزاروں افراد کی افواہ گردش کرتی ہے، جس کا توڑ حکومت کے پاس نہیں ہے۔ ڈبلیو ایچ او اور وفاقی حکومت سے دست بستہ گزارش ہے کہ بلوچستان میں ہیلتھ ایمرجنسی نافذ کریں۔کہیں ایسا نہ ہو کہ آخر میں وفاقی حکومت کے پاس سوائے ندامت کے اور منیر نیازی کے ان الفاظ کہ ’’ہمیشہ دیر کردیتا ہوں ‘‘کے سواکچھ بھی نہ ہو۔

تازہ ترین