پشاور( نسرین جبین )خیبرپختونخواکے صوبائی دارالحکومت پشاورسمیت صوبے بھرکے دیگراضلاع میں لاکھوں طالبات پرائمری سکولوںمیںکلاس رومزکی صفائی کے لئے خالائیں/ماسیاں اور جمعدار / خاکروب نہ ہونے کے باعث اپنی مددآپ کے تحت صفائی کاکام کرنے پر مجبورہیں۔تعلیم معیارمیں انقلابی تبدیلیاں لانے کےدعویدارصوبائی حکمرانوں نےآنکھیں بندکرکے طالبات کامستقبل دائوپر لگارکھاہے۔اس حوالے سے تفصیلی رپورٹ اتوارکے روز جنگ کے سنڈے میگزین میں ملاحظہ فرمائیں۔صوبائی وزیرابتدائی وثانوی تعلیم اکبرایوب کاکہناہے کہ پرائمری سکولوں میں خاکروب اور خالا ئوں کی پوسٹ نہیں ہے ،ہم اس مسئلے کو دیکھ رہے ہیںاور اس پر بات چیت کریں گےتاہممحکمہ فنانس کلاس فور ملازمین کی بھرتی کے لئے روڑے اٹکاتا ہے۔محکمہ تعلیم کی خاتون اعلیٰ آفیسرنے کہاہے کہ مذکورہ پوسٹیں 2007 سے ختم ہیں۔ سکول انتظامیہ اور پرنسپل سکولوں کی صفائی اور کاغذات و احکامات کو سر کولیٹ کرنے کے لئے انتظامات کرتی ہیں۔کہیں پرائیویٹ لوگ بھرتی کئے جاتے ہیںاورکہیں چوکیدار صفائی کرتاہے۔اس سلسلے میں پشاور کی تقریباً ڈیڑھ لاکھ اور دیگر اضلاع کی ملا کر لاکھوں کی تعداد میں صوبے کی طالبات کے لئے پرائمری سکولوں میںکلاس رومز، گرائونڈز کو صاف کرنے والی کوئی خالہ سرکاری طور پر موجود نہیں ہے اور واش رومز کی صفائی کے لئے کوئی جمعدار یا خاکروب بھی ان لاکھوں کی تعداد میں طالبات کے سکولوں کو فراہم نہیں کیا گیا جبکہ ان سینکڑوں سکولوں میں طالبات کے لئے کینٹین کی بھی کوئی سہولت دستیاب نہیں ہے۔ صرف پشاور کے 450اور صوبہ بھر کے اضلاع بشمول نئے ضم شدہ قبائلی اضلاع کے ہزاروں سکولوں کی لاکھوں طالبات سکولوں کی صفائی خود کرتی ہیں بچیوں کی باقاعدہ ڈیوٹیاں لگا دی جاتی ہیں جو کہ بڑی کلاسوں کی طالبات سکول کے اوقات کار سے کچھ وقت پہلے سکول آ جاتی ہیں اور سکولوں کے گرائونڈز اور کلاس رومز صاف کرتیں، جھاڑو لگاتیں اور فرش دھوتی ہیں جبکہ یہی طالبات سکولوں میں ’’ماسیوں‘‘’’خالائوں‘‘ اور خاکروب کا کردار ادا کرنے کے بعد جمعدار کے فرائض بھی سرانجام دیتی ہیں اور طالبات کے واش رومز کے ساتھ ساتھ اساتذہ کے واش رومز بھی دھوتیںاور ان کی صفائی کرتی ہیں اور بریک یعنی چھٹی ختم ہوتی ہے تو ہر کلاس کی بچیاں اپنے اپنے کلاس روم کی صفائی کرتی ہیں ان سکولوں میں کینٹین کی سہولت بھی دستیاب نہیں ہے تاہم شہری علاقوں میں عام طور پر سکول انتظامیہ اور پرنسپل اپنے اپنے طور پر سکولوں کی صفائی اور کاغذات و دیگرخط وکتابت کو سر کولیٹ کرنے کے لئے انتظامات کرتی ہیں۔کہیں وہ پرائیویٹ لوگ بھرتی کر لیتی ہیں۔تو کہیں چوکیدار صفائی کرتاہے تاہم ان کی تعدادا آٹے میں نمک کے برابر ہے پر ائمری کی سطح پرسکولوں میں پڑھائی لکھائی اور بہترین تربیت کے لئے بھیجی جانے والی بچیاں وہاں ہائی جین کے مسائل اور بیماریوں کے ساتھ ساتھ سکول کا ایک ’’برا‘‘ تصور لے کر گھر آتی ہیں ۔پشاور میں گورنمنٹ گرلز پرا ئمری سکول جوگیواڑہ، جی جی پی ایس فدا آباد، زرگرہ آباد ، یونین کونسل پشتخرہ ، یونین کونسل اچینی بالایونین کونسل شیخان اور دیگر سینکڑوں سکول شامل ہیں جن میں مذکورہ مسائل موجود ہیں جنگ سے گفتگو کے دوران والدین کا کہنا ھے کہ متعدد مرتبہ ھماری بچیاں ہمارے ساتھ اس قسم کی شکایت کرتی ہیں اور سکول کی صفائیاں نہ کرنے کے ساتھ سکول چھوڑ دینے کی ضد بھی کرتی ہیں جبکہ مجبوری کے باعت انہیں دوبارہ اسی سکول میں پڑھنے کے ساتھ ساتھ صفائی کرنے کے لئے بھی ہم انہیں بھیج دیتے ہیں۔جنگ کے رابطہ کرنے پر آل ٹیچرز پرائمری سکولز ایسوسی ایشن برائے زنانہ کی نائب صدر جمیلہ افتخار نے کہا کہ بچیوں سے کام کرانے کی اجازت نہیں ہےلیکن شہری علاقوں کے بعض سکولوں میں اساتذہ نے اپنی مدد آپ کے تحت اور مختلف قسم کے اکٹھے ہونے والے فنڈز کے عوض جمعداروں کا بندوبست بھی کر رکھا ہے مگر ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہےاس حوالے سے وزیر تعلیم خیبر پختو نخوا اکبر ایوب کا کہنا ہے کہ پرائمری سکولوں میں یہ مسئلہ موجود ہے کہ وہاں خاکروب اور خالا ئوں کی پوسٹ نہیں ہے ،ہم اس مسئلے کو دیکھ رہے ہیںاور اس پر بات چیت کریں گے،تاکہ اسکا حل نکل سکے،عام طور پر چوکیدار صفائیاں کرتے ہیں،تاہم انکا بھی یہ کام نہیں،انہوں نے کہاکہ محکمہ فنانس کلاس فور ملازمین کی بھرتی کے لئے روڑے اٹکاتا ہے محکمہ تعلیم کی خاتون ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر برائے زنانہ محکمہ ایلمنٹری اینڈ سیکنڈری ثمینہ غنی نے کہا کہ مذکورہ پوسٹیں 2007 سے ختم کر دی گئی ۔ہم نے متعلقہ افراد کو بار ہا اس مسئلے کی طرف نشان دہی کی ہے ۔عام طور پر سکولوں کی انتظامیہ اور پرنسپل اپنے اپنے طور پر سکولوں کی صفائی اور کاغذات و احکامات کو سر کولیٹ کرنے کے لئے انتظامات کرتی ہیں۔کہیں وہ پرائیویٹ لوگ بھرتی کر لیتی ہیںتو کہیں چوکیدار صفائی کرتاہے۔