اندرون سند ھ پسند کی شادی، برادریوں اورخود ساختہ قبائلی قوانین کی رو سے جرم تصور کی جاتی ہے، جس کی سزا صرف موت ہے۔ ایک سال کے دوران شہید بے نظیر آباد سمیت سندھ کے متعدد علاقوں میں ایک درجن کے قریب محبت کی شادی کرنے والے جوڑے موت کے گھاٹ اتار ے جا چکے ہیں۔حال ہی میں ایک اور ’’ پسند کی شادی" کا جرم کرنے والا جوڑا برادری کے غیظ و غضب کا نشانہ بن گیا۔ برادری کی مرضی کے خلاف شادی ان کی غیرت کا مسئلہ بن گئی اور سفاک، قاتلوں نے دن دھاڑے بیوی اور بچی کے سامنے شوہر کو گولیوں سے بھون ڈالا۔بیوی کی چیخ و پکار کسی کام نہ آسکی۔ بچی ، باپ کی لاش سے چمٹ کر روتی رہی ۔
شہید بےنظیر آبادضلع کے تعلقہ قاضی احمد کے رہائشی صدیق کھوسو نے مسمات حوا سے پسند کی شادی کی تھی اور وہ اپنی بیوی اورخود کو دونوں برادریوں کے غیظ و غضب اورہلاکت سے بچانے کے لئے کراچی منتقل ہوگیا اور وہاں محنت مزدوری کرکے گھر کی کفالت کرنے لگا ۔اسی اثناء میں اللہ نے اسے پھول سی بیٹی دی ۔ مسمات حوا کے والد قادر بخش کھوسو نے صدیق کھوسو کے خلا ف اپنی بیٹی کے اغوا کی رپورٹ قاضی احمدتھانےمیں درج کرادی۔ تاہم صدیق کھوسو اس دوران اپنے سسر اور دیگر رشتہ داروں سے رابطے میں رہا اور منت سماجت کرتا رہا کہ اس نے ان کی بیٹی سےقانون اور شرعی تقاضے پورے کرتے ہوئے شادی کی ہے لہذا اس کی اور اس کی بیوی کی غلطی کو درگزر کیا جائے۔
گذشتہ دنوں اس نےشہید بے نظیر آباد میں گاؤں آکر اپنے رشتہ داروں اور سسر سے ملنے کا پروگرام بنایا۔ وہ ڈھائی سال بعد اپنے بیوی اور بچی کے ہمراہ قاضی احمد پہنچا ۔اس کے ہمراہ اس کا بھائی بھی تھا ۔ رشتے داروں کے پاس جانے سے قبل انہوں نے قاضی احمد پولیس اسٹیشن جا کر فریاد کی کہ اس کی شادی سے اس کے سسرال والے ناخوش ہیں اور اسے اپنے سسر قادر بخش کھوسو اور دیگر سے اپنی اور اپنی بیوی ، بچی کی جان کا خطرہ ہے، لہذا اسے تحفظ فراہم کیا جائے تاکہ وہ اپنے گاؤں جاکر اپنےعزیزو اقارب سے مل سکے ۔ صدیق کھوسو کے بھائی کے مطابق تھانے میں صرف ایک سپاہی ڈیوٹی پر موجود تھا جس نے یہ کہہ کر کہ آپ لوگ اپنے گاؤں چلے جائیں وہاںکچھ نہیں ہوگا ، لیکن اس نے ان کے ہمراہ پولیس کی نفری ساتھ بھیجنے سے معذوری ظاہر کردی۔
صدیق کھوسو، بیوی ،بھائی اور بچی کے ہمراہ قاضی احمد کے شہر کے عین وسط میں ایک ہوٹل کے قریب پہنچاجہاں وہ اپنے اہل خانہ کے ساتھ ناشتے کے لیے ہوٹل میں بیٹھا۔ وہ لوگ ناشتہ کررہے تھے کہ کسی نے ان کی مخبری کردی ، جس کے بعد چار مسلح افراد ہوٹل پہنچ گئےجنہوں نے بھرے ہوٹل میں ناشتے میں مصروف صدیق کھوسو کو پکڑ کو بری طرح زدوکوب کیا۔ اس دوران اس کی بیوی حوا نے مسلح افراد کے پاؤں میں اپنا ڈوپٹہ ڈال کر رحم کی التجا کی جبکہ معصوم بچی بھی اپنے زخموں سے چور والدسے، جسے مسلح افراد بری طرح ماررہے تھے، چمٹ کر رونے لگی ۔مگر قاتلوں کا دل نہیں پسیجا اور انہوں نے صدیق کھوسو کو شدید زدوکوب کرنے کے بعد گولیاں ماریں جس کے نتیجے میں وہ موقع پر ہی ہلاک ہوگیا۔
صدیق کھوسو کی بیوی حوا نے پولیس کو بتایا کہ اس کے شوہر کے قتل کے موقع پر جمع ہونے والے ہجوم کو قاتلوں نے یہ کہہ کر دور رکھا کہ کوئی ہمارے درمیان میں نہ آئے یہ ہمارے گھر کا معاملہ ہے ۔موقع پر موجود لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ انہوں نے اس واقعہ کی اطلاع فوری طور پرپولیس اسٹیشن میں دی مگر پولیس دیر سے پہنچی اور قاتل قتل کرنے کے بعد باآسانی فرار ہوگئے ۔ بعد ازاں پولیس نے جائے وقوعہ پر پہنچ کر متوفی کی لاش کو اسپتال پہنچایااور پوسٹ مارٹم کے بعدلاش ورثاء کے حوالے کردی گئی۔ اس سلسلے میں ایس ایچ او قاضی احمد ،حسین علی کا کہنا ہےکہ ملزمان نے صدیق کھوسو کو برادری کی مرضی کے خلاف شادی کرنے پر قتل کیا ۔
ایس ایچ او کے مطابق صدیق کھوسو کے سسر قادر بخش کھوسو نے اس کے خلاف اپنی بیٹی کے اغواء کا مقدمہ درج کرایا تھا جس کی سماعت عدالت میں جاری ہے ۔ایس ایچ او کا کہنا ہے کہ قاتلوں کی گرفتاری کے لئے پولیس پارٹی روانہ کردی گئی ہیں اور جلد ملزمان کو گرفتار کرلیا جائے گا۔ تاہم تادم تحریر ملزمان کی گرفتاری عمل میں نہیں آسکی۔۔حقیقت یہ ہے کہ سندھی معاشرے خصوصا ًدیہی علاقوںمیں پسند کی شادی کو قبول نہ کرنے کی وجہ سے آئے دن اس طرح کے واقعات رونما ہوتے ہیں ۔کورٹ میرج کرنے والی لڑکی یا لڑکے یا پھر دونوں کو کاری قرار دے کر موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے۔اس سلسلے میں قبائلی عمائدین، علمائے کرام ، سول سوسائٹی، سیاسی و سماجی تنظیمیں برادریوں اور قبائل کے پسند کی شادی کے خلاف رجحان کی حوصلہ شکنی کے لیے لائحہ عمل طے کریں جب کہ حکومت اسمبلی میں اس کے خلاف قانون سازی کرے ورنہ برادری کی مرضٗی کے بغیرشادی کرنے والے جوڑے اسی طرح زندگی سے محروم کیے جاتے رہیں گے۔