سندھ کے ثقافتی کھیلوں کی آڑ لے کرجواریوں کی بہت بڑی تعداد لاکھوں روپے کا جوا کھیلتی ہے۔ ویسے تو سکھر سمیت سندھ کے مختلف چھوٹے بڑے علاقوں میں مختلف اقسام کا جوا کھیلاجاتا ہے، جن میں عام طور پر تاش کے پتوں، چھکا دانا،لوڈو، پرائز بانڈز کے نمبروں کی پرچی جوا سمیت دیگر اقسام شامل ہیں ۔تاہم سندھ کے دیہی علاقوں میں مویشیوں کی دوڑ پر کھیلا جانے والاجوا خاص طور پر مشہور ہے۔ بیل دوڑانے کی ریس کو تو مقامی زبان میں ’’گوئے‘‘ کا مخصوص نام بھی دیا گیا۔
سکھر، خیرپور، شکارپور، ٹھل، اوباڑو، گمبٹ، لاڑکانہ، قمبر شہداد کوٹ، گھوٹکی سمیت دیگر چھوٹے بڑے علاقوں میں اونٹ، بیل، گدھا گاڑی ودیگر مویشیوں کی دوڑ کے کھیل منعقد ہوتے ہیں۔ عام طور پر مویشیوں کی دوڑیں لگوانا ثقافت کا حصہ ہے اور ثقافتی پروگراموں میں یہ دوڑیں بھی شامل ہوتی ہیں تاہم بعض عناصر نے اس کی آڑ میں جوئے کا دھندا شروع کررکھا ہے اور روزانہ مختلف علاقوں میں بیلوں، اونٹوں، گدھا گاڑیوں کی دوڑیں لگوائی جاتی ہیں اور ان پر لاکھوں روپے کا جوا کھیلا جاتا ہے۔
بعض علاقے ایسے ہیں جہاں پر روزانہ کی بنیاد پر مویشیوں کی دوڑ لگواکر ان پر جوا کھیلا جاتا ہے جبکہ بعض میں جمعہ یا ہفتہ کے مخصوص ایام میں مویشیوں کی دوڑ کا انعقاد کیا جاتا ہے، ان مخصوص دنوں میں مویشیوں کی دوڑ پر جوا کھیلنے والوں کا جم غفیر موجود ہوتا ہے اور عام دنوں کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ جوا کھیلا جاتا ہے۔ پولیس سندھ کے مختلف علاقوں مویشیوں کی دوڑ پر کھیلے جانے والے جوئے کو روکنے میں ناکام دکھائی دیتی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس جوئےکی طرف سےاس نے آنکھیں بند کررکھی ہیں۔
ضلع سکھر کے نواحی علاقوں ٹھیکراٹو، صالح پٹ، کندھرا، علی واہن، اروڑ، بچل شاہ میانی سمیت قرب و جوار کے علاقوں میں کافی عرصے سے مویشیوں کی دوڑیں لگواکر ان پر جوا کھیلنے کا سلسلہ جاری ہے۔ سکھر کوئٹہ روڈ پر سٹی بائی پاس کے نزدیک جمعہ کے دن گدھا گاڑی کی دوڑ کا انعقاد کرایا جاتا ہے، اسی طرح دیہی علاقوں میں مختلف مویشیوں کی دوڑیں بھی لگوائی جاتی ہیں۔ ریس کے دوران مختلف لوگ اپنے مویشیوں کو ریس میں شامل کرتے ہیں جنہیں ایک مخصوص مقام تک دوڑایا جاتا ہے۔
لوگوں کی بڑی تعداد اس دوڑ کو دیکھنے آتی ہے۔ بظاہر دیکھنے میں یہ عام سی دوڑ ہوتی ہے مگر اس پر لاکھوں روپے کا جوا کھیلا جاتا ہے۔ عام دنوں میں لوگ اتنے زیادہ نہیں ہوتے تاہم جمعہ کے دن لوگ خصوصی طور پر مویشیوں کی دوڑ پر جوا کھیلتے ہیں۔ پولیس کی جانب سے اس طرح کی مویشیوں بالخصوص بیلوں کی دوڑ (گوئے) پر کھیلے جانے والے جوئے کی روک تھام کے لئے کوئی اقدامات نہیں کئے گئے ہیں۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ سکھر میںتقریباً ڈیڑھ سال قبل بیلوں کی اس دوڑ گوئے کو چلانے کے الزام میں ضلع سکھر کے تھانہ دادلو کے ایس ایچ او سمیت دیگر تمام عملے کو معطل کیا گیا تھا مگر اس کے بعد سے لے کراب تک اس جوئے کو روکنے کے لئے پولیس کی جانب سے کوئی خاطر خواہ کارروائی سامنے نہیں آئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کھیلوں پر جوا کھیلنے والوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے ۔
طویل عرصے سے مویشیوں کی دوڑ پر جوا کھیلنے کا سلسلہ جاری ہے مگر بڑے پیمانے پر چلنے والے جوے کی روک تھام کے لئے پولیس کی جانب سے کوئی اقدامات نظر نہیں آتے، جو کہ پولیس کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔ مویشیوں کی دوڑ پر جوا کھیلنے والےمتعدد افراد دوسروں کے قرض دار بھی ہوگئے ہیں مگراس کھیل کی کی لت میں مبتلا ہونے کے باعث وہ اپنے قرض کی ادائیگی نہیں کرپاتے۔ ایسے لوگ جوئے کی لت میں پڑ کر اتنے قرض دار ہوجاتے ہیں کہ اپنے گھروں کا سامان بھی فروخت کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ سرسری طور پر دیکھا جائے تو جوے کی یہ لت نہ جانے کتنے گھرانوں کو اجاڑنے کا سبب بھی بن چکی ہے۔
گھر کی کفالت کرنے والے متعدد لوگ اس جوئے کی لت کی وجہ سے اپنی تمام جمع پونچی گنوا بیٹھتے ہیں، جس کے بعد انہیں اپنے اہل خانہ کی کفالت کے لئے معاشی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور بعض دفعہ وہ جرائم کی راہ اختیار کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ مویشیوں کی دوڑ پر کھیلےجانے والےجوئے کی روک تھام کے لیے اگر پولیس کی جانب سے موثر اقدامات کئے جائیں اور ایسے لوگ جو کہ ان دوڑوں پر جوا کھیلتے ہیں یا جوے کی بکنگ کرتے ہیں ان کی گرفتاریاں عمل میں لائی جائیں تو اس سلسلے کو روکا جاسکتا ہے۔
شہری، سیاسی، سماجی، مذہبی عوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ پولیس کی جانب سے مویشیوں کی دوڑ کی آڑ میں کھیلے جانے والے جوئے کی روک تھام کے لیے تاحال کوئی بڑی کارروائی نہیں کی گئی ہے۔ سکھر سمیت سندھ کے مختلف علاقوں میں مویشیوں کی دوڑ پر کھیلے جانے والے لاکھوں روپے کے جوے پر پولیس کی خاموشی ایک سوالیہ نشان ہے۔انہوں نے آئی جی سندھ جناب مشتاق مہرو دیگر بالا حکام سے اپیل کی کہ مویشیوں کی دوڑ پر کھیلے جانے والے جوے کا نوٹس لے کر غفلت کے مرتکب پولیس افسران و اہل کاروں کےخلاف کارروائی کی جائے جب کہ جوا چلانے والوں کے خلاف کریک ڈائون کیا جائے۔