• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بچوں کے لئے شائع ہونے والے ایک جریدے میں ایک کہانی میری نظر سے گزری ہے ”یہ ایک ”سبق آموز“ کہانی ہے لیکن صورت حال یہ ہے کہ اس میں جو ظالم (فضلو) ہے اسے مظلوم اور جو مظلوم (نصیبن) ہے۔ اسے ظالم کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ کہانی کچھ یوں ہے !
فضلو ایک غریب لکڑ ہارا تھا، سارا دن لکڑیاں کاٹ کاٹ کر مشکل سے ایک آدھ روپیہ کماتا مگر اس کی بیوی نصیبن بہت فضول خرچ، نافرمان، ضدی اور بدزبان تھی، اس لئے ان کا گزارہ مشکل سے ہوتا تھا، نصیبن ہمیشہ فضلو سے لڑتی جھگڑتی رہتی۔ ذرا ذرا سی بات پر اسے ڈانتی اور تقریباً ہر وقت شور و غل سے گھر سر پر اٹھائے رکھتی۔ ہمسائے اس سے تنگ اور محلے والے اس سے بیزار تھے، اس کی زبان قینچی کی طرح چلتی تھی، خاوند کی ہر بات سے انکار کرنا اس کی عادت میں داخل ہو چکا تھا، جب کبھی وہ کوئی بات کہتا تو وہ ہمیشہ اس کا الٹ کرتی، اگر وہ روٹی مانگتا تو وہ اسے روٹی نہ دیتی، ہاں اگر وہ کہتا کہ مجھے بھوک نہیں اور میں روٹی نہیں کھاؤں گا، تو وہ اسے زبردستی روٹی کھلاتی، لہٰذا اسے جس چیز کی خواہش ہوتی وہ ہمیشہ اس سے الٹ کہتا۔ تب کہیں جا کر اسے وہ شے ملتی، چنانچہ فضلو اس سے بہت تنگ آ چکا تھا، آخر کار اسے ایک بات سوجھ ہی گئی اور وہ اسے کہنے لگا ”دیکھو بیوی ہم باہر کبھی نہیں جائیں گے کیونکہ جو آرام گھر میں ہے، وہ باہر نہیں مل سکتا۔“ یہ سن کر وہ ضدی عورت باہر جانے کے لئے تیار ہو گئی، اور وہ دونوں باہر چل پڑے راستے میں ایک تالاب پڑتا تھا، فضلو تالاب دیکھ کر کہنے لگا ”ہم اس وقت بالکل نہیں نہائیں گے“ نصیبن ایک دم نہانے کو تیار ہو گئی جب وہ تالاب میں اتری تو فضلو نے آواز دی ”بیوی آگے مت جانا، پانی گہرا ہے ڈوب جاؤ گی“ مگر نصیبن اپنی ضد پر اڑی رہی۔ وہ جونہی آگے بڑھی گہرے پانی میں غوطے کھانے لگی اور ڈوب گئی۔
پیارے بچو! بے جا ضد کرنا ٹھیک نہیں، اس سے انسان نقصان اٹھاتا ہے، دیکھا ہم نے آپ کو کیسی خوبصورت اور سبق آموز کہانی سنائی ہے، چونکہ یہ کہانی بچوں کے لئے ہے لہٰذا ممکن ہے بڑوں کو اس کی سمجھ نہ آئی ہو، چنانچہ ہم اس کی تھوڑی سی تشریح کر دیتے ہیں، اس کہانی میں دو کردار ہیں، ایک ظالم ہے، ایک مظلوم ہے۔ ظالم نصیبن ہے۔ جسے اس کا خاوند گھر کے خرچ کے لئے روزانہ مبلغ ایک روپیہ دیتا ہے اور اتنی ”کثیر رقم“یہ فضول خرچ عورت اللو تللوں میں اڑا دیتی یعنی اس ایک روپے میں سے روٹی، کپڑے اور لتے کے بعد ”خطیر“ جو رقم بچتی وہ اس سے بے جاء شاپنگ کرتی، آئس کریم کھاتی اور گھر پر پارٹیاں وغیرہ دیتی تھی۔ صرف یہی نہیں بلکہ ہر وقت ”دولت“ میں کھیلتے رہنے کی وجہ سے اس کا مزاج بھی بگڑ گیا تھا اور وہ انتہائی ضدی بھی بن گئی تھی۔
یہ تو وہ کہانی کا ظالم کردار… کہانی کا مظلوم کردار بے چارہ فضلو ہے جو ایک روز اس ظالم عورت کی فضول خرچی اور نافرمانی کی وجہ سے اسے ہلاک کرنے کا منصوبہ بناتا ہے، چنانچہ یہ ”مظلوم شوہر“ اسے بہلا پھسلا کر تالاب پر لے جاتا ہے اور یہ جانتے ہوئے کہ وہ جو کہے گا یہ ”ظالم“ عورت اس سے الٹ کرے گی چنانچہ وہ اسے اس تکنیک سے گہرے پانی میں لے جاتا ہے، جہاں وہ ڈوب جاتی ہے جس پر یہ ”مظلوم“ سکھ کا سانس لیتا ہے، اس ”فضول خرچ“ اور ”نافرمان عورت“ کی لاش دو تین دنوں بعد تالاب سے برآمد ہوئی ہو گی اور گاؤں کی دوسری ”فضول خرچ“ اور ”نافرمان“ عورتوں نے اس کے انجام سے عبرت پکڑی ہو گی اس کہانی سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ بے جاء ضد کرنا ٹھیک نہیں، اس سے انسان نقصان اٹھاتا ہے، مگر اس کہانی سے کچھ نتیجے اس کے علاوہ بھی نکلتے ہیں مثلاً یہ کہ نافرمانوں کو قتل کرنا ہو تو اس طرح کہ جس طرح کہانی میں بتایا گیا ہے۔ یعنی
دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو
والے شعر پر عمل کیا جائے! چنانچہ فضلو کی جگہ کوئی اور ہوتا تو سارے شہر میں اس کے ظلم کی ڈھنڈیا پٹ جاتی، مگر یہ اس کے صبر، برداشت اور پلاننگ کا نتیجہ تھا کہ اس نے راستے کے پتھر کو بھی ہٹا دیا اور اس کی نیک نامی پر کوئی حرف بھی نہیں آیا، اس کہانی میں ایک سبق اور بھی پوشیدہ ہے اور وہ یہ کہ اگر کم آمدن یا کسی وجہ سے اگر افراد انتشار کا شکار ہو جائیں تو نظام زر کے در پے ہو جانے کی بجائے ہمیں ایک دوسرے کے در پے ہونا چاہئے، کبھی زبان کے مسئلے پر ایک دوسرے کی گردن کاٹنی چاہئے، کبھی شیعہ، سنی اور دیوں بندی بریلوی کا جھگڑا کھڑا کرنا چاہئے، کبھی نہری پانی کے مسئلے پر ایک دوسرے کے خون کا پیاسا ہونا چاہئے اور کبھی ملک توڑ دینے کی باتیں کرنا چاہئیں کیونکہ نظام زر کا خاتمہ مشکل کام ہے جبکہ ایک دوسرے کا خاتمہ بہت آسان ہے چنانچہ مسئلے کا فوری حل ہونے کی وجہ سے ہمارے ہاں اس طریق کار کو خاصی مقبولیت بھی حاصل ہے۔
تاہم یہ کہانی اور آپ کے لئے بھی سبق آموز ہے دنیا کے سپر پاورز کے لئے ایک گائیڈ لائن کی حیثیت بھی رکھتی ہے بلکہ ہمیں یقین ہے کہ انہوں نے بہت عرصہ پہلے یہ کہانی پڑھ رکھی ہے اور اس میں مضمر گائیڈ لائن پر پہلے ہی سے عمل کر رہے ہیں ۔ گائیڈ لائن یہ ہے جس نافرمان قوم کو مارنا ہو اسے اس کے ہاتھوں سے مارو اگرچہ کبھی کبھار یہ جبر واکراہ افغانستان، چیکو سلواکیہ اور گرینڈہ وغیرہ پر خود بھی چڑھ دوڑنا پڑتا ہے مگر اصولی طور پر ہونا یہی چاہئے کہ جس قوم کو قتل کرنا مقصود ہو پہلے اسے اس کے گھر سے اتنا بیزار کر دو کہ اسے درو دیوار تک سے نفرت ہو جائے اور مکین ایک دوسرے کی شکل دیکھنے کی روادار بھی نہ رہیں اس کے بعد اسے موت کے تالاب پر لے جاؤ اور پھر اس کے غوطے کھانے اور ڈوبنے کا منظر پوری دلجمعی سے دیکھو، اس عمل کے نتیجے میں ظالم کہلانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا بلکہ الٹا سپر پاورز نہ صرف یہ کہ خود مہذب کہلاتی ہے بلکہ دوسری قوموں میں بھی تہذیب کے سرٹیفکیٹ بانٹتی ہیں فضلو چھوٹی عقل کا تھا سپر پاورز بڑی عقل کی حامل ہوتی ہے چنانچہ فضلو نے چھوٹی سطح پر نافرمان کو اس کی ضد کی سزا دی سپر پاورز بڑی سطح پر نافرمانوں کو ان کی ضد کی اس طرح سزا دیتی آ رہی ہے
پیارے پاکستانی بچو ! بے جا ضد کرنا ٹھیک نہیں اس سے انسان نقصان اٹھاتا ہے ۔
تازہ ترین