پیر محمد اسماعیل جان سرہندی مجددی فاروقی، سندھی اور فارسی زبان کےقادر الکلام شاعر، جید عالم دین اور تحریک پاکستان کے رہنما تھے۔ آپ کا تعلق سندھ کے مشہور سرہندی خانوادے سے تھا۔وہ 5ذی القعدہ 1307 ھ بمطابق 23جون 1890ء کو ٹکھڑ (موجودہ ضلع ٹنڈو محمد خان، سندھ) میں پیدا ہوئے۔ والد کا نام خواجہ محمد حسین جان سرہندی اور دادا حضرت خواجہ عبد الرحمٰن مجددی سرہندی تھا جو سلسلۂ نقشبندیہ کے نامور صوفی بزرگ اور جید عالم دین تھے۔ انہوںنے ابتدائی تعلیم اپنے دادا خواجہ عبد الرحمٰن مجددی سرہندی سے حاصل کی۔ اس کے بعد حافظ علامہ یوسف اور ان کے صاحبزادے حافظ ہارون سے مزید تعلیم حاصل کی۔ عربی کی تعلیم علامہ اسد اللہ شاہ’’فدا‘‘ سے حاصل کی۔ بچپن ہی میں اپنے دادا خواجہ عبد الرحمٰن مجددی سرہندی سے سلسلۂ نقشبندیہ میں بیعت تھے اور انہی سے علوم باطنی کے مدارج اور تصوف کے مراحل طے کیے۔ ٹکھڑ سے آپ اپنے اہل و عیال کے ہمراہ پہلے حیدرآباد اور پھر ضلع تھرپارکر کے قصبہ سامارو منتقل ہو گئے۔
مذہبی خدمات انجام دینے کے ساتھ ساتھ آپ نے سیاست میں بھی بھرپور حصہ لیا۔ مسجد منزل گاہ سکھر کی تحریک میں آپ پیش پیش تھے۔ تحریکِ خلافت میں شاندار خدمات انجام دیں۔ 1926 میں جب سعودی عرب میں مزاراتِ مقدسہ کو منہدم کیا جانے لگا تو اس کے خلاف آواز اٹھانے اور امت مسلمہ کے جذبات سے آگاہ کرنے لیے موتمر عالم اسلامی کے تعاون سےا یک وفد سلطان ابن سعود سے ملنے کے لیے گیا تو اس وفد میں وہ بھی شریک تھے۔ اس وفد میں ان کے علاوہ مولانا محمد علی جوہر، مولانا شوکت علی اور علامہ سید سلیمان ندوی بھی شامل تھے۔ تحریک پاکستان میں آپ نے بھرپور حصہ لیا اور مسلم لیگ کا ہر طرح سے ساتھا دیا، حتیٰ کہ1942ء میں آپ سندھ مسلم لیگ کے صدر بھی منتخب ہوئے۔ اس کے علاوہ جمعیت العلماء ضلع تھرپارکر کی صدارت کے منصب پر بھی فائز رہے۔
پیر اسماعیل جان سرہندی بے حد متقی اور پرہیز گار تھے۔ پرہیز گاری کی اس سے بڑی مثال کیا ہوگی کہ اپنے والدِ گرامی کے باغ سے آپ نے کبھی ان کی اجازت کے بغیر کوئی پھل نہیں توڑا۔ عبادت گزاری کا یہ عالم تھا کہ آپ خود آخری عمر میں فرمایا کرتے تھے کہ سات برس کی عمر سے لے کر آج تک الحمد للہ میری نماز کبھی قضا نہیں ہوئی۔ لوگ اکثر اپنے جھگڑوں اور دیگر تصفیہ طلب معاملات کے لیے آپ سے رجوع کرتے تھے ، اس وقت آپ احتیاط کرتے تھے کہ کسی فریق کا نہ کھانا تناول کرتے تھے نہ ان سے کوئی ہدیہ یا تحفہ قبول کرتے تھے۔ زورِ خطابت کا یہ عالم تھا کہ جس موضوع پر آپ تقریر کرتے تھے وہ لوگوں کے دلوں میں گھر کرتی چلی جاتی تھی۔ان کی سخاوت کا بڑا شہرہ تھا، گھر میں جو کچھ ہوتا وہ حاجت مندوں کے حوالے کردیتے تھے۔ مزارعوں سے حساب کتاب میں بہت احتیاط کرتے تھے تاکہ کوئی منشی عمداً یا سہواً کسی مزارع کی حق تلفی نہ کرے۔
پیر محمد اسماعیل سرہندی سندھی اور فارسی زبان کے صاحبِ دیوان شاعر، بہترین انشا پرداز اور عالم تھے۔ شاعری میں ’’روشن‘‘تخلص رکھتےتھے۔ آپ کی تصانیف میں دیوانِ روشن (فارسی، مطبوعہ1961ء)، انشائے روشن (فارسی مضامین کا مجموعہ)، نسیم چمن (فارسی زبان میں حکایات اور ضرب الامثل پر مشتمل اور ضخامت دو سو صفحات ہے)، جواہر نفیسہ (فارسی میں تصوف اور کراماتِ اولیاء کے موضوع پر مشتمل ہے اور اس کی ضخامت ۳۰۰ صفحات ہے)، دیوانِ روشن (سندھی) اور خطباتِ روشن (سندھی زبان میں جمعہ اور عیدین کے خطبات کا مجموعہ) شامل ہیں۔
پیر محمد اسماعیل جان سرہندی 1361ھ میں کراچی میں اپنے خالقِ حقیقی سے جاملے ۔ آپ کے جسدِ خاکی کو کراچی سے آبائی قصبے ٹنڈو سائینداد (ٹنڈو محمد خان) لایا گیا اور ٹنڈو سائینداد سے چند میل کے فاصلہ پر ‘کوہ گنجہ’ نامی آبائی قبرستان میں دفن کیا گیا۔ آپ کے بڑے صاحبزادے پیر محمد اسحٰق جان سرہندی (متوفی ۷ دسمبر ۱۹۷۵ء) نے مصنف، تحریکِ خلافت اور تحریکِ پاکستان کے رہنما کے طور پر شہرت پائی۔ آپ کے دوسرے فرزند محمد ابراہیم جان سرہندی ممتاز عالم دین، نامور حکیم اور شاعر کی حیثیت سے شہرت رکھتےتھے۔سو