• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پُر تجسس، پُرعزم، کیفیتِ تسلسل کے آدمی
میرخلیل الرحمٰن،میر جاویدرحمٰن اور میرشکیل الرحمٰن کی ایک یادگار تصویر

محمود شام

ہم دونوں اس وقت جوان تھے۔ اور وہ سارے جذبات ہم میں تھے۔ جو عہد شباب میں آنے والے دنوں کے لیے ہوتے ہیں۔ میدان صحافت۔ جس میں ہر لحظہ تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔ پھر ایک نوآزاد ترقی پذیر ملک میں اخبارات کے درمیان صحت مند پیشہ ورانہ مقابلہ ہماری ملاقاتیں۔ جنگ بلڈنگ کی تیسری منزل پر ہوتی تھیں۔ میں لاہور سے نیا نیا آیا تھا۔ کراچی کے جغرافیے سے نابلد۔ مگر ہمیں یہاں ایک طرف میر خلیل الرحمٰن جیسے مشفق مہربان مالک کی رفاقت حاصل تھی۔ ان کے چھوٹے بھائی میر حبیب الرحمٰن۔ اور ہمارے منیجنگ ایڈیٹر تھے میر جاوید رحمٰن۔ بلند قامت۔ ایک حسین سی مسکراہٹ۔ اور ایک تجسس۔ ہمارے رفقائے کار میں تھے انور شعور۔ احفاظ الرحمٰن۔ نعیم آردی۔ مجیب الرحمٰن شامی۔ خالد خلد۔ نوشابہ صدیقی۔ سعیدہ افضل۔ ریحانہ حاتمی۔

’اخبار جہاں‘ کے اسسٹنٹ ایڈیٹر تھے نذیر ناجی۔ انہوں نے ہی مجھے لاہور سے کراچی آنے کی دعوت دی تھی۔یوں سمجھ لیجئے کہ اب نصف صدی سے زیادہ عرصہ ہونے کو آیا ہے۔ فروری 1967سے یہ رفاقت شروع ہوئی ہے۔ تادمِ مرگ جاری تھی ۔

ان ہنگاموں،بحرانوں،عالمی تبدیلیوں، ملکی تغیرات سے بھرے 53سال میں میر جاوید رحمٰن کے ہاں جو ایک کیفیت مسلسل دیکھنے میں آئی ہے۔ وہ ان کی تجسس سے معمور آنکھیں تھیں۔ وہ جب کسی نئے منصوبے یا اخبار میں نئے سلسلے کی ٹھان لیتے ہیں تو اس کے تمام پہلوئوں پر غور کرنا شروع کردیتے ۔ ان کا عزم یہ ہوتا کہ اسے وقت مقررہ میں اپنے تکمیل تک پہنچانا ہے۔ انٹرنیٹ تو ابھی آیا ہے۔ بیسویں صدی کی چھٹی دہائی میں تو نہ موبائل فون تھے نہ انٹرنیٹ نہ فیس بک۔اس وقت واحد حوالہ کتابیں ہوتی تھیں۔ اب اگر انہوں نے سوچ لیاکہ ہمیں دنیا بھر کی خفیہ ایجنسیوں پر ایک سلسلۂ مضامین شروع کرنا ہے تو وہ فوراً گاڑی نکالتے اور کتابوں کی دُنیا کا رُخ کرتے ۔ مقامی ہوٹل میں کتابوں کی دکان ان کی پسندیدہ جگہ تھی۔ انٹیلی جنس اداروں سے متعلقہ جتنی کتابیں دستیاب ہیںہوتیں۔ وہ اسے ہاتھوں میں اٹھائے چلے آرہے ہوتے۔ خود بھی ان کا مطالعہ کرتے اور اپنی ایڈیٹوریل ٹیم میں بھی ایک ایک کتاب بانٹ دیتے ، پھر آپس میں تبادلۂ خیال کرتے۔ اسرائیل۔ انڈیا۔ ایران۔ روس۔ امریکہ ۔ مراکش۔ سب کی خفیہ ایجنسیوں پر بات ہوتی اور ایک دو ہفتے بعد ہی ایک دلچسپ سلسلۂ مضامین شروع ہوجاتا۔

پُر تجسس، پُرعزم، کیفیتِ تسلسل کے آدمی
قائم علی شاہ، میر جاوید رحمٰن کے ساتھ اُن کے والد کے انتقال پر فاتحہ خوانی کرتے ہوئے

 مجھے یاد آتا ہے کہ مشہور پیش گو ناسٹراڈمس کی حیرت انگیز پیش گوئیوں کا تذکرہ بھی بیسویں صدی کی آٹھویں دہائی میں کسی حوالے سے زیادہ ہی ہواتو جاوید صاحب نے ہم سب کو اس کی پیشگوئیوں سے متعلق کئی کتابیں فراہم کردیں۔ ناسٹراڈمس کو کیسے سمجھنا ہے۔ اس کا بھی باقاعدہ ایک فن قائم کرلیا گیا۔ اس کے الفاظ اور معلومات کی تشریح۔ توجیہ اب باقاعدہ ایک سائنس ہے۔ اس سے آگاہی بھی ہمیں جاوید صاحب کے ذریعے ہوتی۔ کبھی کبھی میں اپنے دل کے آگے یہ اعتراف کرتا ہوں کہ صحافت کے اس سفر کے ابتدائی دنوں میں اگر میرا تعلق میر جاوید رحمٰن سے نہ ہوتا تو خبر بنانے، مضمون تیار کرنے کے بہت سے ٹیکنیکل پہلوئوں پر میں عبور حاصل نہ کرتا۔ ان کے اس تجسس اور کسی بھی منصوبے کے پُر زور تعاقب اور وقت مقررہ میں تکمیل کا عزم ہی ’اخبار جہاں‘ کی مقبولیت میں اضافے کا باعث رہا ہے۔ میرا اخبار جہاں اُردو صحافت میں ایک بالکل انوکھا۔ مختلف اور کامیاب تجربہ رہا ہے۔ گزشتہ 53سال میں صحافت کی دنیا میں کتنی تیز رفتار، معنوی اور صوری تبدیلیاں آئی ہیں۔ ٹیکنیکل تغیرات سے دوچار ہوئے ہیں۔ اُردو زبان کو برقی خوش نویسی سے کتنا فروغ ملا ہے۔ پھر اپنے قارئین کی دلچسپی برقرار رکھنے کے لیے میگزین میں مختلف تجربات سلسلے پر بھی یادہ تر میر جاوید رحمٰن کے ذہن کی کاوش ہوتی۔ سرورق پر عورت اور حسن کی تلاش۔ سلسلہ وار ناولوں کی اشاعت تو قارئین کو مسحور بھی کرتی ہے۔ اور رسالے سے جوڑے بھی رکھتی ہے۔ صحافتی ذمہ داری کے سلسلے میں مختلف ملکوں میں جانے کا اتفاق ہوتا ہے تو وہاں ہر بڑی لائبریری میں ’اخبار جہاں‘ پاکستان کی نمائندگی کررہا ہوتا ہے۔ چاہے وہ کینیڈا یا امریکہ ہو۔ یا مشرق بعید میں کمبوڈیا۔ کوئی پاکستانی سفارت خانہ ایسا نہیں دیکھا جس کے استقبالیے میں ’اخبار جہاں‘ نہ نظر آتا ہو۔ یہ میر جاوید رحمٰن کی مسلسل محنت شاقہ، ادارتی ٹیم سے مشاورت کا مظہر ہے۔

میر جاوید رحمٰن اتنی بڑی اقلیم کے مالک ہونے کے باوجود بہت ہی سادہ زندگی گزارتے تھے۔ جنرل ضیاء الحق میر خلیل الرحمٰن کو بادشاہِ صحافت کہتے تھے۔ اس حوالے سے میر جاوید رحمٰن شہزادے ہوئے،مگر ان میں شہزادوں جیسی شوخیاں، فضول خرچیاں اور بے مقصد شوق نہیں تھے۔ بہت نظم و ضبط والی زندگی جو بھی اصول مرتب کر رکھے ہیں انہیں خود بھی ملحوظ خاطر رکھتے اور یہ بھی خواہش ہوتی کہ دوسرے بھی اس کی پابندی کریں۔ اس معاملے میں کبھی کبھی سخت گیری بھی اختیار کرلیتے۔

محفل آرائی کے شوقین نہیں تھے۔کام سے کام رکھتے تھے۔ بہت زیادہ ملنے سے بھی گریز کرتے تھے۔ اپنی تشہیر کے سلسلے میں میر خلیل الرحمٰن کی پیروی کرتے تھے۔ میر خلیل الرحمٰن ان سے بہت پیار کرتے تھے۔ انہیں ہمیشہ اپنے ساتھ رکھتے تھے۔ اخباری صنعت کے رموز و اسرار سے انہیں آگاہ رکھتے تھے۔

مجھے’جنگ‘ بلڈنگ کی تیسری منزل یاد آرہی ہے۔ اب تو یہاں ’اخبار جہاں ‘ اور ’میگ‘ کے بڑے خوبصورت دفاتر ہیں۔ 60کی دہائی میں یہ بالکل کھلا فلور تھی۔ یہاں ہماری کرسیاں، میزیں ترتیب وار رکھی ہوتی تھیں۔ جاوید صاحب دوسری منزل پر بیٹھتے تھے۔ اور تھوڑی تھوڑی دیر بعد تیسری منزل پر آتے کبھی میرے سامنے کرسی ڈال کر بیٹھ جاتے۔ کہتے اس ہفتے کیا موضوعات ہیں۔ کیا فیچر ہیں۔ کبھی مجیب الرحمن شامی کے سامنے۔ انہیں آگے بڑھنے، جاننے کا شوق تھا۔ کتابوں پر باتیں ۔ شخصیات پرگفتگو۔

ان کا پسندیدہ موضوع۔ پیدائش کے ستارے تھا۔ زیادہ تر شخصیات کو ان کے ستارے کے حوالے سے پرکھتے تھے اور اکثر اوقات اس میں ان کے اندازے درست ہوتے ،خواہ وہ عالمی حکمران ہوں۔ مقامی صدور۔ وزرائے اعظم۔ گورنرز۔ وزیر اعلیٰ یا اپنا اسٹاف۔ وہ صحیح یوم پیدائش معلوم کرکے پھر اس کی شخصیت کے مختلف پر تو دریافت کرتے۔ ستاروں کے حوالے سے بھی ان کے پاس کتابوں کا بڑا ذخیرہ تھا۔ نئی نئی تحقیق پر مبنی کتابیں بھی منگواتے رہتے ۔ علم نجوم تو ظاہر ہے کہ اب بہت ہی ترقی یافتہ سائنس ہے۔ بہت تحقیق ہورہی ہے۔ اکثر بڑے اخبارات میں ہفتہ کیسا رہے گا۔شامل ہوتا ہے۔ لیکن یہ میر جاوید رحمن کا ہی شوق تھا کہ کوئی نیا حکمران کہیں بھی آئے تو اس کے ستارے معلوم کرکے اس کے انداز حکمرانی اور مستقبل کے بارے میں تجزیے شائع کردیتے۔

مجھے یاد آرہے ہیں 1985کے غیر جماعتی انتخابات۔ میں ان دنوں ’جنگ‘ کے ساتھ ایک سیاسی رپورٹر کی حیثیت سے وابستہ ہوں۔ انتخابی مہم جاری ہے تو میر جاوید رحمٰن ایگزیکٹو ایڈیٹر کے دفتر میں بیٹھ کر مجھے بلاتے ہیں۔الیکشن میں چند روز ہی باقی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ آپ پورے پاکستان کا ایک چکر لگائیں۔ وہاں سے انتخابی صورت حال پر خبریں بھیجیں۔ یہ وہ دن ہیں جب کوئی انٹرنیٹ ہے نہ فیکس۔ صرف ٹیلیکس ہے۔ فون ہے۔

یہ ایک چیلنج والا کام ہے۔ اور بالکل نیا۔ آج کل تو ٹی وی چینل یہ کام آسانی سے کررہے ہیں۔ اس وقت کوئٹہ بھی جانا ہے۔ پشاور۔ لاہور۔ ملتان۔ بہاولپور بھی اور ملک میںصرف پی آئی اے کی فضائی کمپنی ہے۔

یہ آئیڈیا میر جاوید رحمٰن کا ہی تھا اور ایک ترقی پسند۔ جدید خیال رکھنے والے اخباری مالک کا۔ دو تین دن میں پورا پاکستان گھومنا۔ وہاںتمام اہم شخصیات سے رابطے کرنا۔ انٹرویو کرنا۔ میر جاوید رحمٰن فون پر رابطہ رکھتے تھے۔ موبائل نہیں، جنگ کے دفاتر سے، نمائندگان سے ۔ مجھے خوشی ہے کہ میں اس آزمائش میںسرخرو ہوا۔

ملک میں اکثر سیاسی تبدیلیاں آتی رہتی ہیں۔ نئے نئے وزرائے اعلیٰ۔ میر جاوید رحمٰن کا ہمیشہ اصرار ہوتا کہ نئے وزیر اعلیٰ کا پہلاانٹرویو ’جنگ‘ میں شائع ہونا چاہئے۔ مجھے یاد ہے کہ جب صدر فاروق لغاری نے محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت برطرف کی تو سندھ میں ممتاز علی بھٹو نگراں وزیراعلیٰ بنے۔ جاوید صاحب پہلی منزل پر آئے اور کہنے لگے کہ چلیں، ممتاز علی بھٹو کا انٹرویو کرتے ہیں۔ان دنوں سیاسی گرما گرمی اتنی تھی کہ ہم ’جنگ‘ کی اس روایت کو بھول گئے تھے۔ وزیر اعلیٰ ہائوس فون کیا۔ وقت طے ہوا اور ہم انٹرویو کے لیے موجود تھے۔ عام طور پر ہم صحافی بہت سے ایسے اہم معرکوں کو صرف اپنے آپ سے منسوب کرلیتے ہیں لیکن کریڈٹ اسے بھی ملنا چاہئے جن کا آئیڈیا ہو۔

یادیں تو بہت سی ہیں۔ بہت سی پیشہ ورانہ۔ بہت سی ذاتی۔ یقینا کسی وقت دہرائیں گے۔ اللہ تعالیٰ میر صاحب کو جنت الفردوس میں جگہ دے۔ ان کا ایک طویل دَور صحافت ہے۔ اور پاکستان کی اُردو انگریزی صحافت کی ترویج اور فروغ میں ناقابل فراموش کردار اور حصّہ۔

تازہ ترین