• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کورونا عالمی طاقت حاصل کرنے کا آلہ کار تو نہیں؟

کورونا عالمی طاقت حاصل کرنے کا آلہ کار تو نہیں؟


کیا کورونا وائرس کوئی مہلک بائیولوجیکل ہتھیار ہے؟ عالمی طاقت کی دوڑ میں کسی سازش کا نتیجہ  یا کسی سائنسی تجربے کے دوران کوتاہی کا خمیازہ ہے؟

کیا کورونا وائرس کو لیب میں تیار کیا گیا؟ کورونا وائرس سے متعلق سوشل میڈیا پر گردش کرنے والے سازشی نظریات نے عوام کو تشویش میں مبتلا کر رکھا ہے۔ کس پر یقین کریں، کس کو مسترد کریں؟ انفارمیشن کے دور نے اہم سوالات کھڑے کردیے ہیں۔

بائیولوجکل ہتھیاروں کی پیداوار کے خلاف سرگرم امریکی پروفیسر ڈاکٹر فرانسس بوئل نے دعویٰ کیا ہے کہ شمالی کیرولائنا یونیورسٹی کی بائیو سیفٹی لیب نے بھاری رقم کے بدلے ووہان میں چین کی لیبارٹری کو ایسی ٹیکنالوجی بیچی تھی جس کے ذریعے ایچ آئی وی اور سارس کے امتزاج سے وائرس کو مہلک بنایا جاسکتا ہے۔ تجربہ جاری تھا اور غلطی سے یہ وائرس پھیل گیا۔

تاہم یہ تمام دعوے قیاس پر مبنی ہیں، کیونکہ پروفیسر بوئل نے ان کے کوئی ٹھوس ثبوت فراہم نہیں کیے، ڈاکٹر بوئل خود بین الاقوامی قوانین کے ماہر ہیں، جینیٹک انجینئرنگ ان کا شعبہ نہیں اور انہیں اس میں کوئی مہارت بھی حاصل نہیں۔

ڈاکٹر بوئل کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ ٹیکنالوجی میں استعمال ہونے والے خلیے میری لینڈ کی ملٹری بائیو لیب فورٹ ڈیٹرک سے حاصل کیے گئے جہاں امریکا بائیولوجکل جنگوں سے متعلق اپنی ٹیسٹنگ کرتا رہا ہے۔


پاکستانی سائنسدان ڈاکٹر عطاالرحمٰن نے بھی نجی ٹی وی کو انٹرویو میں اس ہی امریکی لیبارٹری کا ذکر کیا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کا بائیولوجیکل ہتھیار ہونا ممکنات میں سے ہے تاہم اس بات کے مکمل ثبوت نہیں ہیں۔

اس سے پہلے  اقوام متحدہ میں پاکستان کے سابق سفیر عبداللّٰہ حسین ہارون بھی کم و بیش ایسے ہی نظریات کے حامی نظر آئے۔

ان کا کہنا تھا کہ کورونا وائرس کی ویکسین پہلے ہی تیار کرلی گئی تھی۔ 

دوسری جانب سائنس میگزین نیچر میڈیسن میں شائع مضمون میں وائرو لوجسٹس نے ثابت کیا ہے کہ جینیاتی لحاظ سے یہ وائرس لیب میں نہیں بنایا جاسکتا۔ حقیقت میں یہ پنگولین اور چمگادڑوں میں پائے جانیوالے کورونا وائرس سے مشابہت رکھتا ہے۔

اس کے پھیلاؤ پر سازشی نظریات کو سیاسی تجزیہ کار یاسر پیرزادہ نے مسترد کیا اور عبداللّٰہ حسین ہارون کے دعوؤں کو احمقانہ قرار دیا۔

یاسر پیرزادہ نے کہا کہ اگر کوئی جینیٹک انجینئرنگ سے وائرس بنائے گا تو یوں آزادانہ اس کا patent نمبر ویب سائٹ پر کیوں شئیر کرے گا؟

انہوں نے کہا کہ جب انہوں ان patent نمبرز کو انٹرنیٹ پر چیک کیا تو یہ ان میں سے ایک بریسٹ کینسر کا ڈائگناسٹک ٹیسٹ اور دوسرا ماضی میں پھیلنے والے سارس وائرس کی ویکسین کا نکلا۔

یاسر پیرزادہ کا کہنا تھا کہ جب پڑھے لکھے لوگ سازشی نظریات پر یقین کریں گے تو ان پڑھوں کا کیا ہوگا۔

یونیورسٹی آف میری لینڈ کے چیف امراض انفیکشن ڈاکٹر فہیم یونس کے مطابق سارس کووِڈ19 جینیاتی لحاظ سے منفرد ساخت رکھتا ہے جس کو لیب میں تخلیق کرنا ممکن نہیں۔

تازہ ترین