• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حرف بہ حرف … رخسانہ رخشی، لندن
گھر،مکان تو عام لوگوں کے رہنے کی جگہ ہوتی ہے۔ اگر اس میں سکون ہو تو وہ بھی بڑے بڑے قصرِ ایوان ثابت ہوتے ہیں۔ کبھی کبھی محلات سے زیادہ سکون کٹیا و جھونپڑی میں پایا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ بعض بادشاہوں اور شہزادوں نے محلات کو ٹھکرا کر اپنی جائے پناہ چھوٹی چھوٹی جگہوں کو بنایا مگر کچھ بادشاہوں اور نوابوں نے اپنے لئے خاص محلات بنوائے ۔ بلکہ کافی بادشاہوں نے تو اپنی چہتی بیگمات کیلئے بھی ان کی یادگار کے طور پر محبت کے محل تعمیر کرائے۔ جنہیں سونے چاندی کی اینٹوں سے سجایا گیا جن کے درو دیوار پر قیمتی دھات سے ملمع کاری کی گئی جن کے پتھروں کو خاص پالش کیا گیا کہ پتھر دودھیا ہوکر اس عمارت کا حصہ بنیں اور اس عمارت سے پورا شہر ہی جگمگا اٹھے۔ان میں محلات میں کچھ شاہی محل بھی ہوتے ہیں جہاں ہر طرح کا بازار گرم کیا جاتا تھا۔ مختلف خادمین، خواجہ سراء، کنیزوں، ملکائوں کے لئے ان کی حیثیت کے مطابق حصے مختص کئے جاتے کہ ہر کوئی سکون میں رہے۔ ان ہی عیش سے بھرپور محلات میں کبھی کبھی خوشامدیوں، چاپلوسوں کی مکھن زدہ چاپلوسیاں بھی پلتی رہتی ہیں بلکہ بعض مرتبہ محلات ایسی ہی دنیاوی دکھاوے اور فضولیات کے کام آتے ہیں۔ یہاں فتح و ظفر کی خوشخبریاں بھی منائی جاتی ہیں تو غربائو بے کسوں کی چیخیں بھی گونجتی ہیں۔ بے گناہوں کی آہ و فغاں بھی محلوں کے درو دیوار سے چمٹی ہوتی ہیں ۔ کانپتے ہوئے غلام اور سہمی ہوئی کنیزوں سے یہاں لطف اٹھایا جاتا ہے۔ محلوں میں بیوائوں اور یتیموں سے انصاف بھی ہوتا ہے تو کبھی نہیں بھی ہوتا۔ ایک بادشاہ اپنے دور میں محل کے وہ تمام مزے لوٹتا ہے جسے دنیاوی جنت کہا جاتا ہے ۔ غلام ذہنوں سے اپنے لئے زبان حلاوت، شراب آتشیں، نظارہ بتاں، سیمیں بدن اپسرائیں اور دیگر رنگینیاں رواں رکھنے کی تمنا کی جاتی۔ غرض محلات زیادہ تر دنیا میں مشہور ہی اس وجہ سے ہیں کہ یہاں ہر قسم کی سرگرمیاں جاری رہتیں ۔یہاں بدکاری ہوتی ہے یہاںگمراہی ہوتی ہے ،خوفناک سزائیں ہوتی ہیں، دنیا داری ہوتی ہے مگر اچھے کام بھی ہوتے ہیں عدل و انصاف بھی ہوتا ہے ،عوام کی بھلائی کے پلان بنائے جاتے ہیں، خطرناک حالات اور جنگوں سے نمٹنے کے گر سیکھے جاتے ہیں، ناانصافی نہیں ہوتی، بعض بادشاہ مدح ثنائے رنگین سے اپنے کان معمور نہ رکھتے، عوام کی ببتا بھی سنتے ان کی آہ و فغاں بھی سنتے ان کے حق دلائے جاتے، ان کے دل و دماغ اچھائیوں کی طرف بھی مائل ہوتے۔ بلکہ بعض بادشاہوں نے محلوں میں صرف بدکاری نہیں کی یہاں جنگی ریاضتیں اور عبادات بھی کیں۔ جا بجا لوگوں کو گمراہی سے بچنے کے بھلے و نقصان بتائے گئے۔ بعض بادشاہوں نے تو یہاں تک حد کی جس میں شہزادے بھی شامل ہیں کہ عیش و عشرت کو لات ماری اور مہم جوئی پر چلےگئے، تاج و خلعت کو اتار پھینکا اور گڈریوں پر آگئے، عجز و انکساری کو وتیرہ اور توبہ واستغفار میں جت گئے، انجام بد سے ڈر کر عبادات میں مشغول ہوئے۔ گناہوں کے بجائے دعائیں کرتے تھے، تحت کو لات مار کرخاک پر آبیٹھے، دنیا حیراں اور انگشت بد نداں رہی کہ وہ جگہ جہاں بد کاری کے وہ وہ ساماں ہوتے تھے کہ فرشتوں کے بھی دل دہل جائیں بلکہ شیطانوں کے دل دہل کر ہاتھ کانوں کی توبہ تک پہنچ جائیں،برائیاں پایہ کمال کو پہنچ کرہی اچھائیوں کا سامان بنتی ہیں۔ ہر امیر و کبیر آج بھی اپنی حیثیت کے مطابق محل تعمیر کرتے ہیں۔ جہاں خوشامدی بھی اور چاپلوسی بھی ہوتے ہیں جہاں پرانے بادشاہوں کی طرح بازار محل کی خرافات بھی جنم لیتی رہتی ہیں بادشاہ آج بھی مرصع تخت پر بیٹھتے ہیں۔ جنہیں صرف شوق اورعجائبات پالنے کا جنون رہتا ہے انہیں کسی کے غم اور کسمپرسی سے غرض نہیں ہوتی۔ اسی مثال کی طرح کہ’ کام نہ پوچھو میرا ناکام ہوں میں۔ یہ محل اور قلعے آخر صرف اپنے اطمینان کیلئے ہی کیوں بنائے جاتے ہیں اور بتاکر یہ کیوں سوچ لیا جاتا ہے کہ جب تک سورج چاند رہے گا، آسماں رہے گا، زمیں رہےگی، تب تک یہ اینٹوں کے انبار بھی رہیں گے ،بھلے ہی قیمتی پتھر ہیں، بھلے ہی مضبوط چٹان سے تیار شدہ ہیں ،مگر انہیں بھی ریت کے ڈھیر بنتے دیر نہیں لگتی، کچھ محل ایسے بھی ہوتے ہیں جو بادشاہ اپنے لئے نہیں بنواتے وہ کسی کی یاد میں بنائے جاتے ہیں۔ جنہیں محبوب کی طرف سے نایاب تحفہ سمجھ کر دوسرے محبوب کی یاد میں تعمیر کیا جاتا ہے۔ اس یاد گار محل کے بنانے کا مقصد آداب یا کورنش بجا لانا نہیں ہے کہ لوگ آکر ایسا کریں بلکہ یو تو قابل دید عمارت ہوتی ہے جسے دیکھنے کی تاب ہونا چاہئے۔ اسے تو عجائبات کا نام دیا جاتا ہے۔ اسے ہی پر شکوہ عمارت سے تشبہیہ دی جاتی ہے ۔ مگر ہوتا یوں ہے کہ ایک وقت آنے پر یہ بھی بھربھری دیوار ثابت ہوتی ہیں۔ اب تاج محل ہی کولے لیجئے کہ محبت کی عظیم الشان نشانی اور یادگار کے مینار ٹوٹنے پر آگئے ہیں۔ سنگ مر مر سے بنے تاج محل کو سالہا سال سے تاریخی ورثہ قرار دیا جاچکا ہے مگر اس کی چمک دمک ختم ہوتی جارہی ہے، مینار منہدم ہوتے جارہے ہیں، سترھویں صدی میں بیوی کی محبت میں تعمیرہونے والا محل بھی آج اپنی آب و تاب کھوتا جارہا ہے۔ اسی طرح کئی محل دنیا میں تعمیر ہوئے مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو رہے ہیں۔ سولہویں صدی ، اٹھارویں کے محل! ذرا سوچیئے تو صدیاں گنتی میں رہ جاتی ہیں مگر عمارات کسی بھی گنتی میں نہیں آتی۔ کوئی کتنی بھی عجائبات بنوالے مگر اس کے ساتھ اپنا کردار بھی تعمیر کرے تو بات بنتی ہے اور اچھے کردار اور کام یاد رہ جاتے ہیں ۔عمارات تو ٹوٹ پھوٹ ہی جاتی ہیں امراء کے خیال میں کہ وہ کوئی چیز بنائیں گے تو کیا وہ قائم رہے گی؟ نہیں قوم و سلطنت کا درد رکھنے والے سوچ کے محل بنائیں جس کا فائدہ رہتی دنیا تک کام آئے اور کار آمد رہے، غرباء کی بستیاں ہی نہیں ٹوٹتی و تباہ ہوتی، محلات بھی آخر خستہ حالی کو پہنچ جاتے ہیں۔ قصہ مختصر یہ کہ زمانے بنتے ہیں بگڑتے ہیں،ہستی صفحہ ہستی سے اکھاڑ دی جاتی ہے، مال و اسباب کا بننا لٹنا،محلاتی سازشیں یہ سب آتے جاتے رہیں گے مگر قوموں کی تہذیب شائستگی ان کے اعمال یہ زندہ رہنے والے کام ہیں، رہے بس نام خدا کا۔
تازہ ترین