اس سال جنوری میں مصنوعی طور پر پیدا کردہ گندم کا اعصاب شکن بحران جس طرح بامر مجبوری اس کی 14لاکھ ٹن درآمد پر منتج ہوا، اس سے ملک کا کثیر زرمبادلہ خرچ ہوا اور گندم برآمد کرنے والا ملک درآمد کرنے والوں میں شامل ہو گیا۔ اسمگلنگ چاہے گندم، چینی کی ہو یا دیگر اشیا کی، اس کا ایک بڑا نقصان قومی معیشت کے متوازی نظام چلانے کی صورت میں ملک و قوم کو 72برس سے بھگتنا پڑ رہا ہے۔ اس وقت جبکہ کورونا کی وبا نے لاک ڈائون کی کیفیت پیدا کر رکھی ہے، آٹے کے حصول کیلئے بعض مقامات پر اب بھی لوگوں کی قطاریں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ وفاقی حکومت نے تمام تر صورتحال کا ادراک کرتے ہوئے انتظامات کیے ہیں۔ مشیرِ خزانہ حفیظ شیخ نے جمعہ کے روز رواں سال گندم کی خریداری کا ہدف 82لاکھ ٹن اور اس کی سرکاری قیمتِ خرید 1400روپے فی ٹن مقرر کرنے کا اعلان کیا ہے جو گزشتہ برس کے مقابلے میں 50روپے زیادہ ہے۔ اس بات کو ایک ایسے موقع پر یقینی بنانا جب لوگوں میں کورونا وبا کا خوف پایا جاتا ہے، حکومت کیلئے کسی چیلنج سے کم نہیں۔ البتہ وزیراعظم عمران خان اس سلسلے میں گزشتہ روز اس حوالے سے لاک ڈائون میں نرمی کا عندیہ دے چکے ہیں تاکہ لاکھوں کی تعداد میں زرعی مزدور طویل سفر طے کرکے گندم کی کٹائی میں حصہ لے سکیں۔ وفاقی حکومت نے ملک بھر میں گندم کی خریداری کے 1162 مراکز قائم کیے ہیں۔ تمام صوبوں کی ضلعی انتظامیہ کو حکم دیا گیا کہ وہ ذخیرہ اندوزوں کو روکنے کیلئے سخت قانونی کارروائی کرے۔ متذکرہ اقدامات اپنی جگہ اہم ہیں اس کیساتھ ساتھ ضروری ہوگا کہ بروقت خریداری کا عمل مکمل کرنے کے علاوہ گندم کے ذخائر ہر طرح سے محفوظ بنانے، اس کی اسمگلنگ روکنے اور افراتفری پھیلانے والے عناصر پر کڑی نظر بھی رکھی جائے۔
اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998