1980ء کے اوائل میں مَیں علامہ اقبال میڈیکل کالج میں زیرِ تعلیم تھا، اخبارات، کتابیں اور رسائل پڑھنے کا شوق بےانتہا تھا، علما کرام، دانشوروں، صحافیوں اور سینئر حاضر و ریٹائرڈ فوجی افسران سے ملاقاتیں کرکے اُن کے تجربات سے استفادہ کرتا تھا، چودہ پندرہ سال کی عمر میں مولانا مودودیؒ کی بیٹھک میں حاضری کا شرف بھی حاصل رہا۔ الطاف حسن قریشی، مجیب الرحمٰن شامی، مصطفیٰ صادق، صلاح الدین شہید، نسیم حجازی، شبیر شاہ، زیڈ اے سلہری، مجید نظامی اور اس طرح کے دیگر زعماء و اکابرین سے نیازمندی کا شرف حاصل رہا اور اکتسابِ فیض بھی کرتا رہا۔ اسی دوران میر خلیل الرحمٰن مرحوم سے بھی تعارف ہوا اور پھر ان کی وفات تک تعلق قائم رہا۔ وہ ایک پرانی روایات کے حامل انسان، عجز و انکسار کا پیکر تھے۔ ہمیشہ خوش لباس رہتے، مَیں نے بطور طالبعلم بھی رابطہ کیا تو انہوں نے ہمیشہ جواباً کال بھی کی اور ملاقات کا وقت بھی دیا۔ ملاقات کے بعد ہمیشی دروازے تک چھوڑنے آتے اور کہا کرتے کہ کوئی کام ہو تو ضرور بتائیے، اس دور میں دو ہی معروف اخبار تھے اور ’’جنگ‘‘ ان میں بھی ٹاپ پر تھا۔ میر صاحب بڑے باخبر اور صاحبِ علم شخص تھے۔ اُن کی ذات کا ایک اہم پہلو اُن کی سخاوت بھی تھی۔ وہ لوگوں کو بتائے یا تصویر بنوائے بغیر لوگوں کی خدمت کرتے رہتے تھے، ضرورت مند کیلئے متعلقہ حکام کو فون بھی کرتے اور بڑی محبت و شفقت سے کہتے کہ اس کی مدد بھی کریں۔
انہی ابتدائی ایام میں اُن کے صاحبزادے میر شکیل الرحمٰن سے ملاقات بھی ہو جایا کرتی تھی، اُس زمانے میں وہ چمکتی ہوئی گاڑی میں گھومتے دکھائی دیتے تو مَیں سوچتا کہ کیا کبھی میر شکیل بھی اپنے والد کی طرح ایک پُراثر طاقتور شخصیت بن پائیں گے کیونکہ تاریخ میں یہ بہت کم ہوا ہے کہ والد کے بعد صاحبزادے کو بھی اتنی ہی شہرت اور مقام حاصل ہو۔ بہرحال دن گزرتے گئے، بڑے میر صاحب 1992ء میں دُنیا سے رخصت ہو گئے، دس پندرہ برس کی تربیت نے میر شکیل الرحمٰن کو بھی مضبوط اور صاحبِ فہم و ادراک بنا دیا۔ انہوں نے اپنے والد کا حق ادا کرتے ہوئے اُن کی روایات کی پاسداری کی اور صحافت میں ثابت قدم رہے۔ اُن سے یہ توقع نہیں کی جا رہی تھی کہ وہ اس حد تک اہلِ اقتدار سے ٹکرائیں گے لیکن سب لوگوں کی سوچ کے برعکس انہوں نے حق کی آواز بلند کی اور آزادیٔ اظہار پر کوئی سمجھوتا نہ کیا۔ سچی خبروں کی فراہمی کیلئے سربکف رہے، متعدد اداروں میں اُن کو دبائو میں لانے کیلئے کئی حیلے بہانے تراشے گئے، کبھی انکم ٹیکس، کبھی کسٹمز، کبھی پولیس، کبھی احتساب کمیشن کے ذریعے اُنہیں زیر نگیں کرنے کی کوشش کی گئی، لیکن وہ حیران کن طور پر مضبوط اعصاب کے مالک نکلے اور ہمیشہ اپنے موقف پر ڈٹے رہے۔ عام لوگوں کا خیال یہ تھا کہ شاید میر شکیل الرحمٰن دبائو برداشت نہیں کر سکیں گے اور اپنا صحافتی ادارہ و دیگر کاروبار بچانے کیلئے حکومتوں سے کمپرومائز کر لیں گے، لیکن یہ سارے مفروضے غلط ثابت ہوئے اور وہ ہر دور میں ڈٹے رہے۔ دبائو میں نہ آئے اور اپنی آواز بلند کرتے رہے۔ میر شکیل کی ایک اہم خوبی یہ ہے کہ ان کے جو مخالفین ان پر کھل کر تنقید کرتے تھے، یہ ان کی خبریں اور مضامین بھی شائع کرتے بلکہ اپنے خلاف خبر بھی چھاپنے سے گریز نہ کرتے۔
حال ہی میں ان کو 35سالہ پرانے مقدمہ میں ملوث کرکے گرفتار کرنا نہ صرف شرمناک بلکہ انسانی حقوق کے منافی ہونے کے ساتھ ساتھ صحافت پر قدغن کے مترادف بھی ہے۔ ہائیکورٹ میں ان کی ضمانت کی سماعت کے دوران استغاثہ شرمندگی کا شکار ہوا کیونکہ کئی گھنٹوں پر مشتمل بحث میں عدالت نے بھی کئی سوالات اٹھائے، جس کے جواب میں بھونڈے الزامات کے سوا کوئی ثبوت سامنے نہ لائے جا سکے۔ میر شکیل کو جب نیب حکام حوالات میں لے کر گئے تو انہوں نے اپنے موقف کا کھل کر اظہار کیا اور کہا کہ میں ہر قسم کے حالات کا مقابلہ کرنے کو تیار ہوں اور اس اعصاب شکن حوالات میں بستر مانگوں گا اور نہ کوئی دیگر اضافی سہولت درکار ہے، اپنے نظریات کسی طور تبدیل نہیں کروں گا۔
اس اقدام سے حکومت کے اس دعوے کی نفی ہوئی ہے کہ میڈیا پر کوئی قدغن اور اظہارِ رائے کی آزادی ہمارا نصب العین ہے۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ حکومت اس قسم کے اقدامات سے باز رہے۔ پاکستانی عوام یہ جاننا چاہتے ہیں کہ اگر حکومت کا بلاتفریق احتساب کا نعرہ درست ہے تو نیب کو مطلوب حکومت میں موجود وزرائے کرام کا احتساب کب ہوگا؟