• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چینی برآمد کی حکومتی اجازت تھی، سبسڈی کیخلاف تھا، اسد عمر

چینی برآمد کی حکومتی اجازت تھی، سبسڈی کیخلاف تھا، اسد عمر 


کراچی (ٹی وی رپورٹ)جیو کے پروگرام ”نیا پاکستان شہزاد اقبال کے ساتھ “ میں گفتگو کرتےہوئے وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر نے کہا ہے کہ حکومت نے چینی برآمد کرنے کی اجازت دی تھی ،میں سبسڈی کے خلاف تھا،میزبان شہزاد اقبال نے اپنے تجزیئے میں کہا کہ شوگر ملز مالکان کو سبسڈی اور چینی کی قیمت بڑھنے کے فائدے ہوئے۔پروگرام میں سمیع اللہ چوہدری ،اجمل وزیر،لیاقت شہوانی اور ثانیہ نشتر نے بھی اظہار خیال کیا۔وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پروگرام شروع ہونے سے قبل آپ نے مجھے چینی اور آٹا بحران کے بار ے میں رپورٹ آنے سے آگاہ کیا ہے میں نے رپورٹ نہیں دیکھی ہے اس لئے میں رپورٹ پرتبصرہ نہیں کرسکوں گااور جہاں تک مہنگائی کا تعلق ہے وہ بھی ریکارڈ کا حصہ ہے اس پر میں پہلے بول چکا ہوں میرا یہ موقف رہا ہے کے اس وقت جو قیمتیں بڑھی تھیں وہ درست نہیں تھیں لیکن رپورٹ میں کیا لکھا ہے اس کے بارے میں نہیں جانتا ۔اس وقت بیلنس آف پیمنٹ کا کرائسز تھا اس لئے برآمد کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا وفاقی حکومت نے چینی برآمد کرنے کی اجازت دی تھی مگر ہمارے خیال سے سبسڈی کا جواز نہیں بنتا تھا اس لئے سبسڈی منع کردی گئی تھی۔اس وقت جہانگیر خان ترین حکومت کا حصہ نہیں تھے جس دن ای سی سی کی میٹنگ تھی جس میں یہ سبسڈی کا مسئلہ آرہا تھاتو مجھے صبح خسرو بختیار کی فون کال آئی انہوں نے کہا کہ آج چینی کا ایشو ایجنڈا پر ہے کیونکہ میرا مفادات کا تصادم ہے اس لئے میں نہیں آؤں گاتو خسرو نے تومیٹنگ میں شرکت نہیں کی اس کے بعد جب کابینہ کی میٹنگ ہوئی تو اس پر کافی دیر بحث ہوئی تھی کامرس منسٹری سپورٹ کررہی تھی کہ سبسڈی دینی چاہئے میں اس کے خلاف تھاسبسڈی نہیں ہونی چاہئے اس طرح اور لوگوں کی رائے تھی تو حتمی طور پر وزیراعظم نے خسرو بختیار سے پوچھاکہ آپ کا کیا خیال ہے تو انہوں نے تبصرہ کرنے سے انکار کردیاانہوں نے کہا کہ میں اس پر بات نہیں کرنا چاہتاتو خسرو کا میں بول سکتا ہوں کہ انہوں نے کسی بھی آفیشل فورم پراپنی پوزیشن استعمال کرنے کی کوشش نہیں کی۔جس طرح کمیٹی کی رپورٹ پبلک کردی گئی ہے اسی طرح کمیشن کی رپورٹ بھی پبلک کردی جائے گی آپ کو اس بات کا کریڈٹ دینا پڑے گا اس ملک میں پہلے بھی ماڈل ٹاؤن سمیت بڑے کمیشن بنے ہیں وہ کمیشن بنتا تھااور پتہ نہیں کس خانے میں رپورٹ رکھ دی جاتی تھی کبھی بھی سامنے نہیں آتی تھی تو عمران خان نے جو شفافیت کا وعدہ کیا تھا وہ پورا کردیا ہے ۔اگر کوئی ایکشن نہ کرنا ہوتواس سے بڑا تو غیر دانشمندانہ فیصلہ نہیں ہوسکتاکہ آپ نے رپورٹ بھی آرڈر کردی اور اس کے نتائج بھی سامنے رکھے دیئے تو ظاہر ہے جو بھی ایکشن بنتا ہوگاوزیراعظم وہ ایکشن لینے کے لئے تیار ہیں مجھے پورا یقین ہے کے کوئی بھی صورتحال ہو عمران خان پورا انصاف کریں گے۔اس وقت ہم بحران کی صورتحال میں ہیں کورونا وائرس کے معیشت پر جو اثرات آئے ہیں پاکستان ہی نہیں دنیا بھر میں وہ گزشتہ ایک صدی میں نہیں دیکھا گیا ہے یہ فیصلہ اس بحران کے دور کے لئے کیا گیا ہے اس وقت بالکل ایک غیر معمولی صورتحال سے دوچار ہے کروڑوں لوگوں کو معاشی بحران سے نکالنے کے لئے فیصلے کئے جارہے ہیں اور یہ فیصلے عام طور پر نہیں کئے جاتے اس وقت یورپین سینٹرل بینک ، امریکن فیڈرل ریزرووہ فیصلے کررہے ہیں جو عام حالات میں کبھی نہیں کئے جاتے ۔میزبان شہزاد اقبال نے کہا کہ گزشتہ سال2019ء کے اواخر میں ایک دم سے یہ دیکھا گیا کے گندم کی قیمت میں اضافہ ہوا گندم کی قلت پیدا ہوگئی ذخیرہ اندوزوں پر الزام لگاحکومت پر دباؤ آیاتو مختلف باتیں سامنے آئیں کے کیوں اس کی قیمت بڑھی کیوں اس میں کمی ہوئی کیا اندازہ غلط لگایا گیا تھاکیا برآمد غلط طریقے سے کیا گیایہ تمام سوالات اٹھ رہے تھے اور اس کے بعد وزیراعظم عمران خان نے ایک انکوائری کمیٹی بنائی تھی اور کہا تھا کہ ہم سچ سامنے لائیں گے اور جو بھی ذمہ دار ہوگا اس کو اس کی سزا ضرور ملے گی انکوائری کمیٹی صرف گندم کی کمی پر نہیں بنی تھی چینی کی قیمت میں جو تیزی سے اضافہ ہورہا تھااس حوالے سے بھی یہ کمیٹی بنائی گئی تھی اور اب ان دونوں کی انکوائری کمیٹی کی رپورٹس منظر عام پر آچکی ہیں کچھ دیر قبل ڈاکٹر شہباز گل نے رپورٹس آنے کی تصدیق ٹوئٹ کرکے کی ہے ۔اب اس انکوائری کمیٹی کی سفارشات پرباقاعدہ ایک انکوائری کمیشن بنایا جائے گااور25 اپریل تک اس کا آڈٹ مکمل کرکے حکومت کو رپورٹ جمع کروائی جائے گی اور وہ رپورٹ بھی پبلک کی جائے گی ۔ رپورٹ کچھ دیر قبل ہی آئی ہے اس کے چیدہ چیدہ نکات میں آپ کو بتادوں کے اس میں کہا کیا گیا ہے جو گندم بحران کے حوالے سے بتایا گیا ہے اس میں یہ کہا گیا ہے کہ 2018-19ء میں جو گندم کی پیداوار تھی وہ کم تھی اس کے باوجودگندم کو برآمد کرنے کا فیصلہ کیا گیا تو عوام میں بے چینی پھیلی ذخیرہ اندوزوں نے اس کا فائدہ اٹھایااس کی وجہ سے قلت بھی ہوئی اور گندم کی قیمت میں اضافہ بھی دیکھا گیااور جہاں تک بات ہے چینی کے بحران کی تواس حوالے سے بڑے بڑے نام آرہے تھے کہا جارہا تھا کہ جہانگیر خان ترین جو عمران خان کے بہت ہی قریبی ہیں ان کی چینی کی پیداوار سب سے زیادہ ہے ان کو فائدہ حاصل ہوا ہوگاخسرو بختیار کے رشتہ داروں کی شوگر ملز ہیں ان کو بھی فائدہ حاصل ہوا ہوگایہ تمام قیاس آرائی ہورہی تھی اس انکوائری رپورٹ میں چینی کے بحران کے حوالے سے لکھا گیا ہے کہ چینی برآمد کرنے اور برآمد پر سبسڈی دینے کی وجہ سے چینی کا بحران پیدا ہواپنجاب حکومت نے ایسے وقت میں تین ارب روپے کی سبسڈی دی جس وقت ملک میں چینی کی قلت تھی سیکریٹری خوراک نے خبردار کیا تھا کہ2019ء میں چینی کی پیداوار میں کمی آئے گی مگر اس کے باوجودحکومت نے چینی برآمد کرنے کا فیصلہ کیاجنوری2019ء سے مئی2019ء تک سبسڈی شدہ چینی برآمد کی جاتی رہی اور اس دوران چینی کی فی کلو قیمت55 روپے سے بڑھ کر71 روپے ہوگئی شوگر ملوں کے مالکان کو دو قسم کے فائدے حاصل ہوئے ایک تو برآمد کرنے کے لئے انہوں نے پنجاب حکومت سے 3 ارب روپے کی سبسڈی لی اور اس دوران جو چینی کی قیمت ہے اس میں16 روپے کا اضافہ ہوا سبسڈی کا فائدہ الگ حاصل کیا گیااور چینی کی قیمت بڑھنے کا فائدہ بھی الگ حاصل ہوا۔اس رپورٹ میں وہ فہرست شامل کی گئی ہے جو تین ارب روپے کی سبسڈی دی گئی اس سے سب سے زیادہ فائدہ کس نے حاصل کیا جہانگیر خان ترین کی شوگر ملز کو تین ارب میں سے56 کروڑ روپے کی سبسڈی دی گئی یعنی22فیصد سبسڈی انہیں ملی ہے دوسرے نمبر پر18 فیصدیعنی45 کروڑ روپے کی سبسڈی خسرو بختیار کے بھائی مخدوم عمر شہریارخان کی شوگر ملز کو دی گئی اس میں ایک نام اور بھی آرہا ہے کے مونس الٰہی بھی ان کے پارٹنر ہیں ۔رپورٹ میں باقاعدہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ چینی کی برآمد اور سبسڈی سے سب سے زیادہ فائدہ انہیں ہوا ہے جنہوں نے سبسڈی اثر و رسوخ کی وجہ سے حاصل کی اور براہ راست وہ ان فیصلوں میں ملوث تھے یعنی جو چینی مالکان ہیں جنہوں نے برآمد کی جنہوں نے سبسڈی حاصل کی ان کا ایک سیاسی کلاؤڈ ہے سیاسی اثر و رسوخ ہے جس کی بنیاد پر وہ فیصلہ سازی میں شامل تھے ۔

تازہ ترین