• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
رابطہ…مریم فیصل
 یہ خوش فہمی بھی کیا خوب ہے کہ ہم تو خلائی مخلوق ہیں ہم پر کسی وار کا کوئی اثر نہیں ہوتا ۔ اور اس خوش فہمی کا شکار وہ قوم ہے جو پولیو اور ملیریا جیسے مرض سے خود کو نجات نہیں دلا سکی اور تو اور ڈینگی کو بھی خوب پھلنے پھولنے کاموقع فرام کیا ہوا ہے، جگہ جگہ گندگی کے ڈھیر لگا کر، اس وقت جب امریکہ ،جو خود کو سپر پاور ثابت کر کے بہت نہال ہوتا رہتا تھا ،اس کے ڈاکٹرز سوشل میڈیا پر آکر یہ بتا رہے ہیں کہ ہمارے پاس اس خوفناک وائرس سے لڑنے کے لئے سہولیات کم پڑ رہی ہیں، پاکستانی قوم کورونا وائرس کے ساتھ اسی خوش فہمی کاشکار ہے کہ ہم پر اس وائرس کا کوئی اثر نہیں ہو گا کیونکہ ہماری قوت مدافعت تو کما ل ہے ا س لئے کیسز کم ہو رہے ہیں ۔ ایسی خوش فہمی سے ہمیں باہر نکلنا چاہیے، کیونکہ کیسز کم اس لئے بالکل بھی نہیں ہیں کہ صرف وہاں خدا کی مہربانی ہے کہ اس آفت سے وہاں کی عوام باقی دوسرے ممالک کے مقابلے میں کم شکار ہو رہی ہے نہ ہی وجہ بہترین طبی سہولیات کی موجودگی ہے اورنہ ہی مضبوط قوت مدافعت ہے، وجہ صرف ٹیسٹ نہ ہونا ہے ۔ ڈر اور کٹس کی کمی کے باعث اس تعداد میں ٹیسٹ ہی نہیں ہو رہے جتنی ضرورت ہے ۔ پہلے تو ستم یہ تھا کہ متاثر ہونے والوں کی صحیح تعداد ہی نہیں بتائی جارہی تھی لیکن جب حالات قابو سے باہر ہو ئے تب بھی ہولے ہاتھ سے گنوایاجارہا ہے کہ کیسز سامنے آرہے ہیں وہ بھی دوسرے ممالک کے مقابلے میں کم ہیں ۔ یہ جو مقابلے کی بات ہے وہ اس صورتحال میں ہونی بھی نہیں چاہیے کیونکہ یہ کوئی گولڈ میڈل جیتنے کا مقابلہ نہیں ہے کہ جو جتنا اچھا پرفارم کرےگا وہ ونر کہلائے گا ۔ اس وقت پر فارمنس تو تب ہی بہتر مانی جائے گی جب زیادہ سے زیادہ متاثرین کی تعداد سامنے آئے گی تاکہ ان سے باقیوں کو محفوظ رکھنے کی تدابیر کی جا سکیں اور یہ عوام کا بھی فرض بنتا ہے کہ وہ اس وبا کو کوئی موقع نہ سمجھے نہ ہی کاروبار بڑھانے کے ذریعے کے طور پر دیکھیں بلکہ یہ سمجھے کہ یہ آفت کا دور ہے جس کا شکار ہر کوئی بنا رنگ نسل کی تفریق کے ہو رہا ہے ہمیں اپنی بھی مدد کرنا ہے اور دوسروں کی بھی اور یہ بات یہاں برطانیہ میں بھی سب کو سمجھنا ہوگی جو یہ سوچ کر خوش ہو رہے ہیں کہ سورچ چمک رہا ہے موسم اچھا ہے چلو تفریح پر نکل جاتے ہیں ۔ یہاں بھی کیسز پانچ ہزار کا ہندسہ عبور کر رہے ہیں، اموات کی تعداد بھی روزانہ کے حساب سے بڑھ رہی ہے خود وزیر اعظم اس کا شکار ہو چکے ہیں ، صورتحال برطانیہ میں بھی بہت خراب ہے ۔ یہ وقت صبر کرنے کا ہے دوسروں کا خیال رکھنے کا ہے اور اپنا بھی ۔ اس بیماری کا کوئی علاج نہیں ہے صرف افواہیں ہیں کہ فلاں ملک کے پاس ویکسین ہے یا فلاں دوا سے ممکن ہے ایسا کچھ نہیں ہے، صرف ڈوبتے کو تنکے کا سہارا ہے۔ یہ وبا ہے جو جانے میں وقت لے گی اور بہت سارے سبق بھی سکھا جائے گی جو ہم بھول چکے ہیں ۔ 
تازہ ترین