کورونا وائرس نے ہر طرف ایک خوف ہراس، ابہام اور نفسانفسی کی فضا پیدا کر رکھی ہے حکومت نے 14 اپریل تک ڈاؤن کی مدت بڑھائی ہوئی ہے مگر ساتھ ہی کچھ ایسے امید افزا ء فیصلے بھی کیے گئے ہیں کہ جن سے لگتا ہے کہ معاملہ شاید بہتری کی طرف جا رہا ہے مثلاً پنجاب میں ٹیکسٹائل ملوں کو کام کرنے کی اجازت دے دی گئی ہے تاکہ وہ اپنی بین الاقوامی آرڈرز کی مانگ پوری کرسکیں ، جبکہ دوسری طرف وزیراعظم عمران خان ہی کنسٹرکشن انڈسٹری قائم کرکے اس کے لئے بڑی مراعات کا اعلان کیا ہے جس سے یہ توقع کی جارہی ہے کہ آنے والے دنوں میں میں معاشی حوالے سے پاکستان بہتری کی طرف گامزن ہوگا۔
یہ سب کچھ اپنی جگہ ہے مگراس وقت جو سب سے اہم مسئلہ پورے معاشرے کو درپیش ہے وہ کورونا کی وبا اور اس کے اثرات سے نمٹنا ہے ہے ،اثرات سے مراد وہ بڑھتی ہوئی بے چینی اور اضطراب ہے جو لاک ڈاؤن کی وجہ سے عوام کے اندر پیدا ہو چکا ہے کیونکہ ان کا روزگار چھن گیا ہے اور وہ بے یارومددگار گھروں میں محبوس ہیں ان تک امداد نہیں پہنچ رہی اور حالات اس حد تک بگڑ گئے ہیں کہ لوگ سڑکوں پر نکل آئے ہیں اور ان کے احتجاج کا دائرہ وسیع ہوتا جارہا ہے اس حقیقت کو خود وزیراعظم عمران خان نے تسلیم کیا ہے اور کہا ہے کہ اگر یہ صورت حال ایک ماہ تک جاری رہی تو وہ ایک بڑا انتشار دیکھ رہے ہیں اب سوال یہ ہے کہ حکومت نے اچانک مارچ کے وسط میں لاک ڈاؤن کا فیصلہ کیوں کیا ؟یکدم ادارے، مارکیٹیں، بازار، شاپنگ مالز، شادی ھال اور دیگر عوامی جگہوں کو بند کیوں کیا گیا؟ کورونا وائرس تو دسمبر سے چین میں پھیل چکا تھا پھر اس کے لیے تیاریاں کیوں نہیں کی گئیں ؟
جو لائحہ عمل آج بنایا جارہا ہے وہ جنوری میں اگر بنا لیا جاتا تو شاید ملک میں اتنی بے یقینی اور بے چینی نہ پھیلتی اور نہ کورونا کا پھیلاؤ ہوتا ۔اچانک لوگوں کو گھروں تک محدود کردیا گیا۔ یہ تو بھلا ہو سماجی اور رفاہی تنظیموں کا جنہوں نے اس خلاء کو جیسے تیسے پر کرنے کی کوشش کی، اس طرح مخیر حضرات بھی آگے آئے اور انہوں نے لوگوں تک خوراک کا سامان پہنچایا، پورے سیاسی منظرنامے میں جماعت اسلامی کے سوا کوئی دوسری جماعت ایسی نہیں ہے جو اس موقع پر امدادی سامان پہنچانے کے لیے عملاً میدان میں آئی ہوں جماعت اسلامی ہی وہ پہلی سیاسی جماعت ہے جس نے کورونا وائرس سے متاثرین کی امداد کے لئے اپنی سیاسی سرگرمیاں معطل کردیں ، امیر جماعت اسلامی سراج الحق اور لیاقت بلوچ نے ملک بھر کے دورے کیے ،ان کی الخدمت فاونڈیشن نے جگہ جگہ غریبوں کی بستیوں میں امدادی سامان پہنچایا ،تحریک انصاف، پیپلزپارٹی، مسلم لیگ نون، اے این پی اور جمعیت علماء اسلام(ف) اور دیگر بڑی جماعتوں نے اس ضمن میں کوئی تحرک نہیں دکھایا، سب سے زیادہ تنقید تحریک انصاف کے ارکان اسمبلی پر کی جارہی ہے، جنہوں نے مقتدر جماعت کا حصہ ہونے کے باوجود عوام کی مدد کرنے کا یہ موقع ضائع کیا، ملتان کی مثال ہی سامنے ہے جہاں تحریک انصاف نے کلین سویپ کیا اور شہر کے تمام قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستیں عوام نےان کی جھولی میں ڈال دیں مگر آج وہی ملتا ن ہے کہ جہاں جگہ جگہ یہ بینر لگے ہوئے ہیں کہ تحریک انصاف کے ارکان اسمبلی عوام سے رجوع کریں تاکہ اس موقع پر ان کی امداد کی جاسکے ۔
یاد رہے کہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی بھی اسی ملتان سے تعلق رکھتے ہیں اور جب عوامی تنقید زیادہ بڑھی، تو وہ سیلف قرنطینہ ختم کرکے چند گھنٹوں کے لئے ملتان آئے اور وہ ملتان میں قرنطینہ سینٹر میں پریس کانفرنس کی اس کے بعد کسی امدادی پیکج کا اعلان کیے بغیراسلام آباد روانہ ہوگئے، آج کل یہاں سے ایک معطل ایم پی اے سلمان نعیم کا ڈنکا بج رہا ہے جنہوں نے عام انتخابات میں شاہ محمود قریشی کو صوبائی نشست پر شکست دی تھی مگر ایک انتخابی عذرداری کی وجہ سے ان کا کیس زیر التوا ہے تاہم انہوں نے اپنے حلقہ میں سینکڑوں مستحقین کے گھروں میں ضروری اشیاء پر مشتمل سامان پہنچایا اور یہ مثال قائم کردی کہ عوامی نمائندوں کو حکومتی امداد کا انتظار کیے بغیر اپنے وسائل سے لوگوں کی مدد کرنی چاہیے۔
یہاں یہ امرقابل ذکر ہے کہ تحریک انصاف کے ارکان اسمبلی پر تنقید شروع ہوئی اور بینرز لگے تو ملتان کے خوابیدہ اراکین اسمبلی میدان میں آئے مگر انہوں نے سرکاری آٹے کی فراہمی کے لیے تو اپنی خدمات پیش کیں مگر اپنی طرف سے اپنے حلقے کے لوگوں کے گھروں میں کسی قسم کا امدادی سامان پہنچانے کی زحمت گوارا نہیں کی ،لوگوں نے اس بات پر بھی تنقید کا نشانہ بنایا کہ پیسے خرچ کر کے کتنے لوگ آٹا خرید سکتے ہیں۔دوسری طرف پیلزپارٹی نے بھی شہیدوں میںنام لکھوانے کے لیےرکن صوبائی اسمبلی علی حیدرگیلانی کے نام کے امدادی بیگ بنواکر ان کے صوبائی حلقے میں تقسیم کرائے ، لیکن ان کی تعداد اس قدر کم تھی کہ بمشکل سو ،ڈیڑھ سو لوگوں کو امداد مل سکی، سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اس حوالے سے منظر عام پر ہی نہیں آئے اور نہ ہی انہوں نے اپنی جیب سے امدادی سرگرمیوں میں حصہ لینے کا کوئی اعلان کیا۔