• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایڈیٹر ان چیف جنگ و جیو کی طویل حراست قابل مذمت ہے، جاوید جبار

کراچی(جنگ نیوز) لاہور ہائی کورٹ اور احتساب عدالت میں 7 اپریل 2020 کو بیرسٹر اعتزاز احسن اور امجد پرویز ایڈووکیٹ کی جانب سے نیب پراسیکیوٹرز کے دلائل میں کمزوریوں اور خامیوں کو واضح کر نے کے بعد دونوں عدالتیں میر شکیل الرحمان کی ضمانت کی درخواستیں منظور کر نے پر آمادہ نہیں ہیں۔

12 مارچ کے بعد سے تقریباَ ایک مہینہ ہو نے کو آرہا ہے جب جنگ ، دی نیوز اور جیو کے ایڈیٹر ان چیف کو ایسے الزامات پر حراست میں لیا گیا جو اگر مایوسی نہیں تو کم از کم ایک بڑے آزاد میڈیا گروپ کی شخصیت کو ڈرانا دھمکانے کا مقصد ضرور دکھائی دیتا ہے۔ 

یہ حیران کن اس طرح ہے کہ 34 سال قبل کے الزامات پر گرفتاری عمل میں لائی گئی۔یہ وہ عرصہ ہے جب کئی سول و فوجی حکومتیں آئیں جن کو میر شکیل الرحمان کے میڈیا گروپ سے سخت شکایات رہیں ۔لیکن ان میں سے کسی نے بھی مخصوص منتقلیوں کو کھود نکالنے کی کوشش کی اور نہ انتقامی کارروائی کے لئے استعمال کیا۔

جس سے ثابت ہو تا ہے کہ ہماری بیورو کریسی کی فائلوں کو کھو دینے کی صلاحیت کے باوجود مخصوص کیٹگریز میں مخصوص دستاویزات ہمیشہ مل جا تی ہیں ۔

شاید عدلیہ کا روز اول سے کاغذات پر انحصار اور ان کا احترام بنیادی وجہ ہے کہ چار ہفتوں میں تیسری سماعت میں بھی نیب کو کارروائی شروع کر نے کے لئے مخصوص دستاویز کا جائزہ لینے کی اجازت دی گئی۔ 

نیب قوانین کو مزید ریمانڈ کے لئے کھوکھلے بہانے تراشنے کی اجازت دی ۔جوہر ٹاؤن کے نقشے کا ایل ڈی اے کی جانب سے انتظار ہی رہا۔

چند کاغذات اونچے اڑادئے گئے یا انہیں تین دہائیوں سے گہرا دفن کر دیا گیا لیکن جب کسی کو ان کی ضرورت پڑی تو وہ ٹھیک وقت پر پہنچ گئیں جبکہ دیگر مطلوبہ دستاویزات کو اسی شہر میں ایک دفتر سے دوسرے تک پہنچنے میں دنوں اور ہفتے لگ گئے۔

نواز شریف نے اپنے دور وزارت اعلیٰ پنجاب میں اپنے وفاداروں کو مراعات دیں اور فائدے پہنچائے لیکن کسی کو اس بات کا یقین نہیں کہ میر شکیل الرحمان نےاس معاملے میں کوئی فائدہ حاصل کیا ہو ۔ 

جو بات شک وشبہ سے بالاتر ہے وہ یہ کہ راقم الحروف نے ایک شہری کی حیثیت سے نواز شریف کے دوسرے دور وزارت عظمیٰ میں آزادی صحافت کو حکومتی دھمکیوں کے خلاف میر شکیل الرحمان اور دیگر سیکڑوں کے ساتھ کراچی پریس کلب سے مظاہرے میں حصہ لیا تھا ۔ میں سمجھتا ہوں کہ عدلیہ نے ضرورت سے زیادہ احتیاط اور تحمل سے کام لیاہے۔

لاہور ہائی کورٹ اور احتساب عدالت کی آبزروینشز کے باوجود ضمانت کے لئے درخواستوں کا مسترد کیا جانا ،الزامات کے درست ہو نے کے بارے میں رائے کو ظاہرنہیں کرتا ۔

اس بات سے قطع نظر کہ آئندہ سماعت پر ایم ایس آر ضانت حاصل کر پاتے ہیں یا نہیں یا پھر نیب کو ایک بار پھر سے کمزور بہانے تراشنے کی اجازت دے دی جائے گی ۔ 

عدلیہ کا فرض ہے کہ وہ پھائوڑے کو پھائوڑا تسلیم کرے ایسے وقتوں میں جب خود میڈیا کو غیر معمولی مسائل کا سامنا ہے اور خود ان کی جانب سے سنجیدہ اصلاحات درکار ہیں ، یا اس حوالے سے پارلیمانی دستور سازی ہو ۔ 

ایک ایسے وقت جب کورونا وائرس کی ہلاکت خٰز وبا نے ملک کو جکڑ رکھا ہے سرکاری طریقہ کار اور قانونی عمل انفرادی آزادیوں کو معطل کر نے کی اجازت دیتا ہے ۔ 

آخر میں آنکھوں پر پٹی اور پھائوڑے کے بعد تیسری مشابہت کہ گیند عدالت کے کورٹ میں ہے ۔ 

تازہ ترین