• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک طرف بے یار ومددگار عوام ہیں اور دوسری طرف استحصالی عناصر، پاکستانی عوام نے بھی کیا بخت پائی ہے کہ مہنگائی کے بعد اب کورونا کی آزمائش بھی آپہنچی ہے، یوں تو مغرب، عرب ودیگر ممالک بھی کورونا میں مبتلا ہیں لیکن وہی رونا کہ مذکورہ ترقی یافتہ ممالک اور ہمارا تقابل ہی کیا، ہم ہر شعبے میں اُن سے کوسوں پیچھے، یہاں تک کہ ہمارے بعد دنیا کے نقشے پر نمودار ہونے والے بھی ترقی میں ہم سے بہت آگے، لہٰذا اگر ان ممالک نے کورونا کیخلاف سخت اقدامات کئے ہیں تو وہ مستحکم نظام و اپنی معاشی پوزیشن کے سبب اس قابل ہیں کہ بہتر نتائج حاصل کرلیں، لیکن وائے افسوس کہ ہمیں تو حکمران طبقات نے ایسی ہر استطاعت سے ہی محروم کررکھا ہے۔ 

یہی وجہ ہے کہ ایک مقدمے کی سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد کو بھی کہنا پڑا ’’ حکومت کورونا وائرس سے کیا نمٹے گی، حکومت کیلئے تو آٹے چینی کا بڑا اسکینڈل کھڑا ہوگیا ہے، جب بڑے ہی ملک کا استحصال کریں تو پھرکیا ہوگا‘‘ ان دنوں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ چینی اور آٹا بحران پر آئی بی نے تحقیقات کی تھی اور 200 ارب روپے کرپشن سامنے آئی تھی جس کے بعد یہ انکوائری ایف آئی اے کو دیدی گئی اور 200 ارب روپے کی واردات 56 کروڑ کی سبسڈی میں تبدیل ہوگئی، اس طرح 199ارب روپے کی خالص رقم ملزمان کی جیبوں میں چلی گئی۔ 

اخباری رپورٹ کے مطابق مافیا کے پیدا کردہ اس بحران کی وجہ سے چینی کی قیمتوں میں ظالمانہ اضافہ ہوا اور گزشتہ 14 ماہ کے دوران صارفین نے تقریباً 85 ارب روپے اضافی ادا کئے ان میں سے تقریباً 76 ارب روپے چینی ملز مالکان کی جیبوں میں گئے۔ وقت کا نوحہ یہ ہے کہ اِس اسلامی جمہوریہ میں غریب عوام استحصالی عناصر کے پنجوں میں جکڑے ہوئے تھے کہ اب کورونا وائرس کے نام پر ہونے والے حکومتی اقدامات نے بھی اُنہی کا محاصرہ کرلیا ہے۔ 

کراچی میں مخیر حضرات نے بلاتفریق مستحق عوام تک راشن پہنچانے کیلئے اپنے دروازے کھول رکھے ہیں، لیکن ان کی رسائی براہ راست عوام تک نہیں ہے، بنابریں سیاسی و سماجی کارکن انکے پاس پہنچ جاتے ہیں اور امدادی سامان اپنے اپنے علاقوں میں لاکر سیاسی بنیادوں پر تقسیم کرتے ہیں، اس طرح کچھ لوگوں کے پاس تو ضرورت سے زیادہ راشن پہنچ جاتا ہے اور کوئی راشن کا انتظار ہی کرتا رہتا ہے۔

اکثر اراکین اسمبلی اور بلدیاتی نمائندے غائب ہیں یا پھر اگر کسی حد تک امدادی کاموں میں شامل ہیں تو ایک طرف اگر وہ سیاسی مفاد کو مدنظر رکھتے ہیں تو دوسری جانب وڈیو وغیرہ بنوا کر سفید پوش ضروت مندوں کی عزت نفس کو مجروح کرنے کا سبب بن رہے ہیں۔ افتخار عارف نے کہا تھا؎

رحمتِ سیدِ لولاک پہ کامل یقین

اُمتِ سیدِ لولاک سے خوف آتا ہے

لاک ڈائون سے یومیہ اجرت پر روزی کمانے والوں کو شدید مسائل کا سامنا ہے، پھر ایسے عوام جو اپنی گاڑی نہیں رکھتے اور جنہیں ناگزیر ضرورت کے تحت کہیں جانا ہوتا ہے منی بسیں وغیرہ نہ ہونے کی وجہ سے اگر کوئی رکشے والا انہیں مطلوبہ جگہ پر پہنچانے کیلئے تیار ہوجاتا ہے تو راستے میں ہی سواریوں کو اُتار لیا جاتا ہے، یوں رکشے والے کو تو خالی لوٹنا ہی پڑتا ہے کہ سواری بھی دور دراز سے پیدل سفر کرتے ہوئے گھر پہنچتی ہے۔ 

ناانصافی یہ ہے کہ جن کے پاس گاڑیاں ہیں وہ تو آجاسکتے ہیں لیکن یہ بجلی بھی اُن بیچاروں پر گرتی ہے جن کے پاس اپنی سواری نہیں ہوتی۔ ہم لاک ڈائون کے لئے تو بیرون ملک کی مثالیں لاتے نہیں تھکتے لیکن جس طرح ان ممالک میں اپنے عوام کی مدد وآسانی کیلئے اقدامات ہورہے ہیں، اُس طرح کے اقدامات یہ حکمران کیسے کرتے کہ اُنہوں نے مال بنانے کے ماسوا کوئی ہنر سیکھا ہی نہیں ہے۔ 

واقعہ یہ ہے کہ پاکستانی حکمران طبقات کی اہلیت اور نام نہاد عوام دوستی کو کورونا نے بیچ چوراہے پر بے نقاب کر دیا ہے۔ عہد ِ ستم کا تلخ سچ از بس یہی ہے کہ جس ملک کے حکمران طبقات جھوٹے ہوتے ہیں اُس ملک کا نقشہ یہی ہوتا ہے کہ غیر سرکاری اداروں کی جانب سے امداد کیلئے لوگ راتیں سڑکوں پر گزارنے کیلئے مجبور ہوجاتے ہیں ، راقم الحروف نے ایسا ہی منظر 15شعبان کی رات تین بجے کراچی میں مولوی تمیزالدین خان روڈ پر دیکھا۔

یہ وزیراعلیٰ سندھ کا راہ گزر اور پیپلزپارٹی کے باتونی شیر کے حلقے کیماڑی ٹائون میں واقع ہے، یہاں تاحدِ نظرقطاریں بنائے موجود ہزاروں خواتین، مرد اور بچے چونکہ قریب کی آبادیوں سے آئے تھے اس لئے ایک دوسرے کیلئے شناسا بھی تھے۔

بہت سارے ایسے ہوں گے جن کی ایک دوسرے کے سامنے سفید پوشی کا بھرم اب تک قائم رہا ہوگا لیکن اب وہ ایک دوسرے کے سامنے مجبور محض تھے۔ ساحر لدھیانوی نےشایدایسےہی بے بسوں کیلئے کہا ہوگا ؎

مفلسی حسِ لطافت کو مٹا دیتی ہے

بھوک آداب کے سانچوں میں نہیں ڈھل سکتی

تازہ ترین