• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تاریخ میں شاید ہی ایسادور آیا ہو جب کرہ ارض پر انسانوں کی چہل پہل رک گئی،کوورونا وبا نے دنیا کو ساکت ہی نہیں، نظام زندگی ہی بدل دیا ہے۔وائرس نے معیشت کو تباہ اور نظام صحت کی قلعی کھول دی ہے۔ غیرجاندارشے نے عوامی مقامات اوردفاتر کوخالی،سڑکوں اور گلیوں کو ویران، جب کہ اسپتالوں اور قبرستانوں کو آباد کردیا ہے۔انسان یہ سوچنے پر مجبور ہےکہ ہمیں اپنے طرز عمل،طرز زندگی،سماجی تانے بانے ،مذہبی روایات، رسومات اور میل ملاپ میں کس قدر تبدیلی اور جدت لانے کی ضرورت ہے ۔ 

نئی دنیا کے اس منظر نامے کو ”نیونارمل“ کا نام دیا گیا ہے۔جوانوں کے دل بہلانے کے نئے بہانے،معمرافراد کی تنہائیکورونا نے جہاں کمسنوں اور نوجوانوں کو سوشل میڈیا سے جوڑا ہے وہیں معمر افراد کی تنہائی میں مزید اضافہ کردیا ہے۔ بیماری سے بچانے کی کوشش میں معمرافراد کو قریب ترین افراد سے دوری پر مجبور کرنا، انہیں زندہ درگور کرنے کا سبب بن رہا ہے، سماجی فاصلوں سے پیدا خلا نے ایسے افراد کے ذہنی تناو میں مزید اضافہ کیا ہے، معمر والدین سے دوری کی یہ روش خدشہ ہے کہ ایسے رویوں کو ہی جنم نہ دیدے جو رشتوں کی زنجیر توڑ دیں۔

ویڈیو کانفرنسیں اورانٹرنیٹ ملاقاتیں وبا نے لوگوں کو گھروں اور تنہائی میں کام پرمجبور کردیا ہے۔ کاروباری اجلاس، بورڈ میٹنگز، درس و تدریس ہی نہیں، میل جول کا واحد محفوط طریقہ ڈیجیٹل انفرااسٹرکچر رہ گیا ہے۔ اب غمی ہو یا خوشی، مذہبی تقریب ہو یا سیاسی اجلاس، کنسرٹ ہو یا کوئی اور تفریح ہرتقریب سماجی رابطوں کی ویب سائٹس یا موبائل فونز کے سہارے ہے۔ کورونا نے سماج کو اس قدر تیزی سے ڈیجیٹل دور میں بدلا ہے کہ اس ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری کرنے والی کمپنیوں کی لاٹری نکل آئی ہے۔ ورچول ملاقاتیں اور اجلاس اب نیو نارمل ہیں۔صوتی اوربصری دور، ٹچ اسکرین قصہ پارینہ ٹچ اسکرین کا استعمال چند عشرے پہلے متعارف ہوا تھا۔ صارفین نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ اسے اس قدر اچھوت قرار دے دیا جا ئے گا۔ 

موبائل فونزہوں، اے ٹی ایم یا دیگر ٹچ اسکرینز، اب لوگوں کی کوشش ہے کہ ہر کام ایک آواز پر کیا جائے یا چہرے کی شناخت اور تاثرات سے ممکن بنایا جائے۔ فنگر پرنٹس لینے کی مشینیں وبا پھیلانے کا زریعہ ثابت ہونے کے سبب دفاتر میں حاضری کا یہ طریقہ بھی ماضی کا قصہ بن چکا ہے۔سحرانگیز موبائل فون ایپساب موبائل فون کے ایپس ہماری سماجی زندگی کی لڑیاں جوڑِیں گے۔ کئی ممالک میں ایسے ایپس تیار کرلیے گئے ہیں جو کورونا میں مبتلا افراد کا پتا چلا سکتے ہیں۔ یہی ٹیکنالوجی اب عالمی سطح پر متعارف کرانے کی کوشش ہے۔ ایپس کے صارفین کو یہ معلوم ہوسکے گا کہ اس ایپ کے کن صارفین کو کورونا لاحق ہوگیا ہے۔ ایسے افراد سے کب اور کہاں ملاقات ہوئی تھی یا کہاں ملاقات طے ہے۔

ٹیلی ہیلتھ کازمانہ، کلینک ہواپراناوبا نے جہاں نظام صحت کی ابتری واضح کی ہے وہیں لوگوں میں کلینکس اور اسپتال جانے کا خوف بھی پیدا کیا ہے۔ عام بیماریوں کے علاج کے لیے اسپتال جانے والے بھی فکر مند ہیں کہ کہیں کورونا ہی ساتھ نہ لے آئیں ۔بےروزگاروں کی فوج، لاقانونیت کےخدشات کورونا نے امریکا جیسے ترقی یافتہ ملک میں ڈھائی کروڑ افراد کو بےروزگار کیا ہے، یورپ، مشرق وسطی اور جنوب ایشیا سمیت ہر خطے میں کروڑوں افراد اپنی نوکریوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ اپنی استطاعت کے مطابق ہر ملک کی کوشش ہے کہ بیل آوٹ کے مصنوعی سہارے سے تباہ معیشت میں جان ڈالی جائے اور روزگار کے مواقع تیزی سے ختم ہونے سے روکے جائیں۔ نیونارمل میں کیا بےروزگاری بھی نارمل تصور کی جائے گی یا یہ لاقانونیت کو جنم دے گی جومعاشرے میں مزید بگاڑ کا سبب بنے گی، لوگ ایسے تلخ سوالات کےجواب چاہتے ہیں۔ 

کورونا نے جہاں لاکھوں افراد کا روزگار چھین لیا وہی کچھ ایسے شعبے ہیں جنہیں اس کی وجہ سے نئی زندگی ملی ہے۔ ہیلتھ کیئر،بائیو ٹیکنالوجی ، فارماسیٹیکلز کی صنعتوں کو دن دگنی رات چوگنی ترقی ملی ہے۔ امیزون ، گوگل،فیس بک اورزوم کی قسمت کا ستارہ چمک اٹھا ہے۔ آن لائن گیم سازی اب کھلا میدان ہے۔ تعلیمی اداروں کی بندش سے دنیا بھر میں770ملین طلبا گھر بیٹھ ہیں تو آن لائن ٹیچنگ پھل پھولنے لگی ہے۔کھیل کے میدان ویران، صحن آبادکورونا نے جہاں دیگر شعبہ ہائے زندگی کو بے رونق کیا ہے وہیں کحیلوں کےمیدان بھی ویران کردیے ہیں۔ اولمپکس جیسے بڑے مقابلے بھی ملتوی کرنا پڑے ہیں جب کہ کئی اہم مقابلے منسوخ ہوِئے۔ ہر کھلاڑی یا تو گھرمیں ورزش کرکے خود کو فٹ رکھنے کی جستجو میں ہے یا ای اسپورٹس کے زریعے دل بہلا رہا ہے اور ساتھیوں کو چیلنج دے کر بے لطف ہار جیت سے غم غلط کررہاہے۔ فٹنس برقرا رکھنے کے نت نئے طریقے تلاش کرنا ہی ایتھیلیٹس کی زندگی میں نئی روح پھونک سکتا ہے۔ 

یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ کووڈ19ہمارے صبر اور نظام کا امتحان لے رہا ہے لیکن نئی سمتوں کے تعین اور جدید حل پر انحصار کی طرف بھی لوٹا رہا ہے۔ دقیا نوسی نظام ،نام نہاد روایات،بے مقصد سرگرمیوں اور غیر ضروری امورسے جان چھڑانے کی طرف توجہ دلا رہا ہے۔ گلوبل ولیج کا تصور شاید حقیقی روپ دھار لے لیکن کرونا کے بعد کی دنیا اسمارٹ ٹیکنالوجی پر انحصار کرے گی جس کے استعمال کے فوائد کے ساتھ ان گنت نقصانات بھی ہیں۔ نیا منظر نامہ تیار کرتے ہوئے اس بات کا خیال رکھنا ہوگا کہ کہیں نیو نارمل کہیں زندگیوں کو ایب نارمل نہ کردے۔

تازہ ترین