• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر: روبینہ خان ۔۔۔مانچسٹر
ایک شخص سے دوسرے شخص میں منتقل ہونے والے کوروناوائرس نے آج پوری دنیا کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے۔یہ وبا ہے اور ہر کوئی اس کے خوف کا شکار ہے، تاریخ گواہ ہے کہ انسان ان جان لیوا وباؤں سےلڑتا بھی رہا ہے اور مرتا بھی رہا ہےجس طرح گزشتہ آنے والی مصیبتوں اور وباؤں کا خاتمہ ہوا ، بہت جلد اس کا بھی خاتمہ ہو جائے گا،موجودہ دور معلومات کا دور ہے ،انٹرنیٹ نے آگاہی پیدا کرنے کا شاندار موقع دے رکھا ہے وہاں پر سوشل میڈیا میں وائرل ہونے والی ویڈیوز اور آڈیوز پریشانی کا باعث بھی بنتی رہتی ہیں، بہت سے مواقع پر لوگ مخمصے کا شکار نظر آتے ہیں،بہرحال ایک بات جو نظر آتی ہے وہ یہ ہے کہ سائنسدان ہوں سیاستدان ہوں یا معیشت دان کوئی بھی اس وبا سے نمٹنے کے لیے تیار نہیں ہے، سائنسدانوں کے پاس ایسا کوئی طریقہ نہیں کہ وہ وبا کے خلاف کوئی ویکسین جلد تیار کرسکیں،معیشت دانوں کے پاس معیشت کو بچانے کے لیے کوئی نسخہ موجود نہیں،غریب ملک نہیں جانتے کہ وہ اس وبا سے عوام کو کیسے بچائیں،لاک ڈاؤن کے ذریعے لوگوں کو گھر پر بٹھائیں تو کھانا کیسے فراہم کریں، بلاشبہ امیر ممالک میں رہنے والے اس ذہنی خلجان سے کسی حد تک بچے ہوئے ہیں،گھر بیٹھے تنخواہ مل رہی ہیں،یوکے میں رہنے والے تین مہینے کے لئے مورٹگیج فریز کروا سکتے ہیں تاہم یہ بات نہیں کہ یہاں پر کورونا وائرس کی وجہ سے ضروریات زندگی سستی اور وافر موجود ہیں ۔ یہاں پر انگلش سپر مارکیٹس میں روزمرہ کی تقریبا تمام اشیاءپر قیمتیں بڑھی ہیں البتہ ہمیشہ کی طرح ہماری’اپنی دکانوں‘ پر قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں اور یہ ہمارا رویہ نیا نہیں ہے خاص طور پر جب رمضان کا مبارک مہینہ آتا ہے تو تاجر حضرات چاندی نہیں سونا بناتے ہیں تاہم آج کل جو بتایا جارہا ہے وہ یہ کہ سپلائی کم ہے اور ڈیمانڈ بہت زیادہ ہےیوکے میں پھل اور سبزیوں کی آج کل قلت ہورہی ہے فارمرز کو 70،000 ورکرز کی ضرورت ہے یہ ورکرز پہلے بیرون ملک سے آکر یوکے کے کھیتوں میں کام کیا کرتے تھے اور اب سفری پابندیوں کی وجہ سے ایسا ممکن نہیں ہےیوکے میں سیب ،ناشپاتی ،بلوبری، بیری ،اور اسپریگس کی فصل ہوتی ہے اور اپریل سے اکتوبر تک ‏98 پرسنٹ اوورسیز مزدور پھلوں اور سبزیوں کو چننے کا کام کرتے تھے اس خبر کے بعد ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ ہفتے سرچ انجن میں ایک ہفتے کے اندر پچاس ہزار لوگوں نے فارمرز کی جاب کے لیے سرچ کیاکھیتوں میں بھی سماجی فاصلے کو ملحوظ خاطر رکھا جائے گاکورونا وائرس کے دور میں عجیب و غریب چیزیں سامنے آرہی ہیں نہ صرف یہ کہ برطانیہ میں اوورسیز لوگوں کا کنٹریبیوشن اور یہاں کے لوگوں کے سوشل روئیے بھی سامنے آرہے ہیں ۔پاکستان، انڈیا اور بنگلہ دیش میں مہینے کی گروسری میں آٹے کی خریداری ضروری جزو ہے،برطانیہ میں جب سپر مارکیٹ سے آٹا غائب ہوا تو اس کی وجہ یہ نہیں کہ فلورملز کے پاس آٹا نہیں ہے بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ سپر مارکیٹ اور شاپس میں چھوٹے بیگس میں صرف 4 فیصد آٹا فروخت ہوتا ہےجب کہ زیادہ تر آٹا بیکریز اور فوڈ مینوفیکچررز خریدتے ہیں اب اصل مسئلہ چھوٹے تھیلوں میں آٹے کی فراہمی ہے،کورونا وائرس کی وجہ سے لوگ گھروں میں تینوں وقت کھانا پکا رہے ہیں،اکثر لوگ جو روزمرہ زندگی کی مصروفیت کی وجہ سے کھانے کے لئے وقت نہیں نکال سکتے تھے اب وہ گھروں میں گھر کے پکے کھانے کھا رہے ہیں،انسانی تاریخ وبائوں کی زد میں رہی ہے، وبائیں مختلف عمروں اور جینڈرز کو نشانہ بناتی رہی ہیں ، کورونا وائرس کے کیسز عورتوں سے زائد مرد حضرات میں پائے جا رہے ہیں، سائنس کے پاس فی الحال شواہد موجود نہیں ہے لیکن خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ مرد حضرات کسی بھی بیماری کی صورت میں ڈاکٹر کے پاس جانے میں دیر کرتے ہیں دوسرے مرد ، عورتوں کے مقابلے میں سگریٹ نوشی زیادہ کرتے ہیں جس کی وجہ سے پھیپھڑے پہلے ہی کمزور ہوتے ہیں عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ یورپ اور امریکہ میں عورتیں مردوں کی طرح سگریٹ نوشی کرتی ہیں لیکن اعداد و شمار کے مطابق دنیا بھر کے مردوں کی ایک تہائی تعداد یعنی پینتیس فیصد سگریٹ پیتے ہیں جبکہ صرف چھ فیصد عورتیں سگریٹ نوشی کرتی ہیں اس کے علاوہ کچھ اور وجوہات بھی ہیں جو کہ بائیولوجی کے ساتھ ساتھ معاشرتی اقدار بھی ہیں عورتوں کا امیون سسٹم مردوں کے مقابلے میں زیادہ مضبوط ہوتا ہے اور اس کی وجہ دو ایکس کروموسومز بتائے جاتے ہیں جس کی وجہ سے وہ کسی بھی بیماری سے مقابلہ کی زیادہ صلاحیت رکھتی ہیں تا ہم اس فالتو کروموسومز کی وجہ سے اس کو جسمانی طور پر دوسری بیماریاں جلد ہوتی ہے جس میں پیٹ کی بیماریاں اور گٹھنوں کے درد کی بیماری شامل ہے۔قدرت کا نظام حیران کن ہے جہاں عورت اور مرد کا کام اور ظاہری ساخت کی وجہ سے، اپنا اپنا دائرہ کار ہوتا ہے، فطری طور پر عورتوں میں خدمت کا جذبہ ہوتا ہے،حالیہ اسٹیٹسٹک کے مطابق پوری دنیا میں مرد نرسوں کی تعداد 9 فی صد ہے جب کہ 91 فیصد عورتیں نرس ہوتی ہیں، 3.2 ملین عورتیں نرس ہیں جب کہ مرد نرسوں کی تعداد تین سو تیس ہزار ہے یہ تو اعدادوشمار ہیں ،2019 میں مس انگلینڈ کا سر پر تاج سے جانے والی 24 سالہ ڈاکٹر بھاشا نے چمکتی دمکتی روشنیوں کو خیرباد کہتے ہوئے ہسپتالوں کی دنیا میں لوٹنے کا فیصلہ کیا. ینگ ڈاکٹر نے کہا کہ وہ یوں تو چیرٹی کا کام کر رہی تھی لیکن ان کو تقریبات میں جانے کے لیے شاندار کپڑے ، میک اپ اور تاج سر پر سے سجا کر جانا پڑتا تھا اور کورونا وائرس کی اس دور میں اس کو یہ ٹھیک نہیں لگ رہا تھا لٰہذا وہ این ایچ ایس پر بوجھ کم کرنے کے لئے،ہسپتال میں اپنا کردار ادا کرنا چاہتی ہے ، دنیا بھر کے لوگ سماجی فاصلہ کر رہے ہیں اور لاک ڈائون کیے ہوئے ہیں لیکن ہسپتال کھلے ہیں، پوری دنیا کے ڈاکٹرز کو سلام ہے جو اپنی جانوں کو خطرے میں ڈال کر لوگوں کی خدمت کر رہے ہیں، امیر ترین لوگ عطیات دے رہے ہیں،سخاوت اور عبادت زندگیوں میں شامل ہو رہی ہے .فیملیز گھروں میں موجود ، گھر کے کونوں کھدروں کی صفائیوں میں مصروف ہیں جبکہ یہ احساس بھی ہے کہ گھروں میں بے شمار ایسی اشیاء ہیں جن کا استعمال نہیں کیا جاتا، ان کو کسی ضرورت مند کو دینا چاہیے .اس کے لیے بھی کرونا وائرس کی خاتمے کا انتظار کرنا پڑے گا ۔گھروں کے ساتھ دلوں کی صفائی کس قدر ضروری ہے،انسان کی حقیقت کیا ہے ، بے بسی کی حد کیا ہے، اس کا احساس بھی گہرا ہو رہا ہے تاہم امید کا دامن تھام کر ان لمحوں سے خود کو بہتر بنائے جانے کی کوشش جاری ہے۔
تازہ ترین