کراچی (ٹی وی رپورٹ) وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی اسد عمر نے کہا ہے کہ 18 ویں ترمیم میں کچھ خامیاں نظر آئی ہیں، 18 ویں ترمیم صحیح سمت کی طرف قدم تھا لیکن ابھی بھی نامکمل ہے کیونکہ صوبائی حکومتوں تک تو اختیارات پہنچ گئے تاہم مقامی حکومتوں کو اختیارات نہیں ملے، جب تک وفاق اور صوبے ساتھ ملکرکام نہیں کرینگے تو معاملات حل نہیں ہونگے۔
ہم کوئی اختیار صوبوں سےنہیں لینا چاہتے اورنہ ہی یہ اختیارات کی جنگ کا سلسلہ ہے بلکہ ہم ملکر کام کرنا چاہتے ہیں، 18 ویں ترمیم میں کچھ خامیاں نظرآئی ہیں،ہمیں حالیہ دو ماہ میں ہمیں تجربہ بھی حاصل ہوگیا ہے، تمام سیاسی جماعتیں اس پر بیٹھ کر بات کرسکتی ہیں۔
18 ویں ترمیم کے بعد ملک کو آگے لے جانے کیلئے مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) کا سیکرٹریٹ بننا تھا لیکن پچھلی دونوں حکومتوں نے نہیں بنایا تاہم اب کابینہ نے سیکرٹریٹ بنانے کا فیصلہ کرلیا ہے،نیب آرڈیننس پر دومیٹنگ ہوچکی ہیں جس میں اپوزیشن کے ارکان بھی شامل تھے ۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے جیو کے پروگرام ’نیا پاکستان‘ میں میزبان شہزاد اقبال سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔
دوسری جانب پیپلزپارٹی شیری رحمان جیو نیوز سےگفتگو کرتے ہوئے کہا کہ نیب آرڈیننس پرحکومت اوراپوزیشن کی کوئی بات چیت نہیں چل رہی۔ جبکہ اسد عمر کا کہنا ہے کہ شیری رحمٰن کو شاید مکمل معلومات نہیں ملیں، اگر وہ مشاورت کریں گی تو انہیں پتا چل جائے گا۔
اسد عمر نے نیا پاکستان میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اٹھاوریں ترمیم کافیصلہ درست تھا اختیار اسلام آباد سے نکل کرنچلی سطح تک پہنچا ہے البتہ میں ذاتی طورپرسمجھتا ہوں کہ اٹھاوریں ترمیم ابھی بھی ادھوری ہے کیونکہ اختیاراور اقتدار صوبائی حکومت تک تو پہنچ گیا لیکن مقامی حکومتیں اب بھی فعال نہیں ہیں اوراس حوالے سے ہم نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے۔
صنعتوں کو ریلیف دینا صوبائی حکومتوں کا کام ہے لیکن صنعتی طبقہ وفاق سے ریلیف مانگ رہا ہے ۔اسی طرح صحت کا محکمہ بھی صوبائی حکومتوں کی زیرنگرانی کام کرتا ہے لیکن کچھ شعبوں میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کامل کرکام کرنا ضروری ہوتا ہے ۔صوبائی حکومتیں تعاو ن کررہی ہیں مستقبل میں بھی خلاکو مزید پُرکرنے کی کوشش کرینگے ۔صوبوں کے حقوق نہیں لینا چاہتے۔
اٹھارہویں ترمیم کے بعد کونسل آف کا من انٹرسٹ کا مرکزی کردار ہے ماضی کی دونوں حکومتوں نے اسکا کوئی سیکرٹریٹ نہیں بنایا ۔ہماری کابینہ نے فیصلہ کیا ہے کونسل آف کامن انٹرسٹ کاجلدسیکرٹریٹ بنے گا تاکہ ملک میں ہم آہنگی کی فضا قائم ہوسکے ،یہ ہر گزاختیارات کی جنگ نہیں ہے ۔
نیب آرڈیننس پر دومیٹنگ ہوچکی ہیں جس میں اپوزیشن کے ارکان بھی شامل تھے ۔نیب آرڈیننس لیپس کرچکا ہے کیونکہ متعدد افراد کی اس حوالے سے آبزرویش آئی تھیں ممکن ہے آغاز میں آرڈیننس کیا جائے لیکن اسے پارلیمان میں لے کر جائینگے۔
آرڈیننس قانون اسی وقت بنتا ہے جب وہ پارلیمان سے منظور ہوتا ہے ہمیں اپوزیشن کے ساتھ بیٹھ کر اس کا کوئی نہ کوئی حل نکالنا ہوگا ۔فواد چوہدری زیرک سیاست دان ہیں وہ پاکستان کی سیاست کو سمجھتے ہیں اور ہماری جماعت میں ان کاشمار ذہین لوگوں میں ہوتا ہے۔ سینئر تجزیہ کار سہیل وڑایچ کے کالم ’ٹارزن کی واپسی‘کے سوال پراسد عمرکا کہنا تھا کہ ہرگزایسی کوئی بات نہیں کہ میں نے کسی سیاست دان کو کنارے لگایا ہے میں عمران خان کی ٹیم کا حصہ ہوں شاید سہیل وڑایچ نے میرے بارے میں کچھ زیادہ لکھ دیا ہے ۔
رہنما نون لیگ عطا تارڑ کا کہنا تھا کہ جب فروری میں آٹے اور چینی بحران سے متعلق رپورٹ تیارکی گئی تو وزیراعظم نے اسے مسترد رکردیا اورنہ و ہ رپورٹ جاری کی گئی ۔انہیں وہ رپورٹ عوام کے سامنے لانا چاہئے تھا ۔ 24مارچ کوآنے والی رپورٹ بھی پہلے میڈیا نے جاری کی اور اسکے بعد حکومت نے رپورٹ کااعتراف کیا ۔واجد ضیا کے بارے میں ہمارے تحفظات برقرار ہیں۔
جہانگیر ترین اور خسرو بختیار کو کروڑوں روپے کی سبسڈی دی گئی۔ اس رپورٹ کے بعد کسی فارنز ک کی ضرورت نہیں تھی ہمارا خیال ہے کہ اس رپورٹ کے منظر عام پر آنے کے بعد بھی کسی کو سزا نہیں ہوگی ۔جہانگیرترین کے بھائی ابھی تک اپنے عہدے پر براجمان ہیں ۔خسروبخیار کو ایکنامکس افیئرز کی وزارت دے دی گئی ۔
حکومت رپورٹ پر ہٹ دھرمی سے کام لے رہی ہے ۔کمیشن میں کوئی نئی بات نہیں ہے ہماری جماعت کے کسی شخص کا چینی کے بحران سے کوئی تعلق نہیں رہا ۔وزیراعظم ای سی سی کو چیئر کرتے ہیں اورعثمان بزدار پنجاب کے فیصلے کرتے ہیں واجد ضیانے ان کیخلاف کچھ نہیں لکھا ۔ایک سوال کے جواب میں وفاقی وزیر نے مزید کہا کہ شیری رحمان کو شاید مکمل معلومات نہیں ملیں، اگر وہ مشاورت کریں گی تو انہیں پتا چل جائیگا۔
دریں اثناء اٹھارویں ترمیم اور نیب آرڈیننس سے متعلق اسد عمر کے بیان پر ردعمل دیتے ہوئے پیپلزپارٹی کی رہنما شیری رحمان نے کہا کہ نیب آرڈیننس پرحکومت اوراپوزیشن کی کوئی بات چیت نہیں چل رہی،چیئرمین سینیٹ، اسپیکر قومی اسمبلی سے3مہینےسےکوئی رابطہ نہیں، اٹھارویں ترمیم کو واپس لینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔
اس حوالے سے اپوزیشن سے نہ کوئی بات ہوئی اور نہ ہوسکتی ہے، اٹھارویں ترمیم وفاق کی زنجیر ہے،اٹھارویں ترمیم پوری پارلیمنٹ کا وقار ہے، مشکل حالات میں ملک کو تقسیم کرنے کی بات کیوں ہورہی ہے،اٹھارویں ترمیم کا اپوزیشن کے ہوتےہوئے کوئی ایک لفظ تبدیل نہیں کرسکتا۔