• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

گھریلو، سوشل، نغماتی فلموں کے مایہ ناز ہدایت کار’’ایس سلیمان‘‘

پاکستان کی فلمی صنعت میں بے شمار ہدایت کار آئے،جنہوں نے بڑی قابل فخر فلموں سے اپنی صلاحیتوں کو منوایا۔ 1975ء میں ایک بہت ہی خُوب صورت فلم ’’زینت‘‘ ریلیز ہوئی تھی، جس میں نامور اداکارہ شبنم نے زینت کے یادگار رول میں اپنی المیہ اداکاری کا بے حد عمدہ اظہار کیا تھا۔ اس فلم کے بعض مناظر نے خواتین فلم بینوں کی آنکھوں میں لگے کاجل کو آنسوئوں سے بہا دیا۔ ایس سلیمان اس فلم کے ہدایت کار تھے، جنہوں نے ہمارے سماج میں بیٹی کی پیدائش کو بُرا سمجھنے والوں کو اس فلم میں آئینہ دکھایا کہ بیٹی زحمت نہیں، رحمت ہے۔ 

انہیں اس طرح کی معاشرتی، اصلاحی اور سماجی مسائل، رسم و رواج پر فلمیں بنانے کا جو فن آتا تھا، اس کی مثال ان کے ہم عصر ہدایت کار میں کم ملتی ہے۔ ایس سلیمان جن کا پورا نام سید سلیمان ہے، فلمی صنعت کے لوگ انہیں پیار سے ’’سلو بھائی‘‘ کے نام سے بھی جانتے ہیں۔ 29؍دسمبر 1938ء میں حیدرآباد دکن میں پیدا ہوئے۔ ان کے والدین کا تعلق بھی فنی دُنیا سے تھا۔ ان کے بڑے بھائی سنتوش کمار کو پاکستان کے پہلے سپر اسٹار ہونے کا اعزاز حاصل ہے، جب کہ بھابھی صبیحہ خانم کو پہلی سپر اسٹار فن کارہ کا اعزاز حاصل ہے۔ 

ان کے ایک اور بھائی درپن کے نام سے پاکستانی اسکرین کے پہلے ’’لیڈی کلر‘‘ اداکار کہلائے۔ بھابھی، نیر سلطانہ کو بھی فلمی دنیا میں لوگ ایک بہت بڑی اداکارہ کے نام سے جانتے ہیں۔ خود ان کی بیگم زریں المعروف پنا فلمی صنعت کی اپنے دور کی بہت بڑی کلاسیک رقاصہ اور اداکارہ رہیں۔ ان کے ایک چھوٹے بھائی منصور نے بھی چند فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے۔ اتنے سارے افراد پر مشتمل یہ پاکستان کا پہلا فلمی گھرانہ ہے۔ ایس سلیمان اس گھرانے کے سب سے سینئر فن کار ہیں، جنہوں نے اپنے کیریئر کا آغاز بہ طور چائلڈ اسٹار بھارتی فلم ’’میلہ‘‘ میں دلیپ کمار کے بچپن کا رول کیا۔ ایک اور بھارتی فلم ’’نائو‘‘ میں بھی انہوں نے چائلڈ رول کیا۔

پاکستان کے ابتدائی دور کی فلموں میں ان کے دو بھائی، سنتوش کمار اور درپن نے اداکاری کا جب آغاز کیا، تو وہ بھی اس صنعت سے بہ طور تدوین کار (ایڈیٹر) کے طور پر وابستہ ہوگئے۔ 1953ء میں بننے والی فلم ’’غلام‘‘ جس کے ہدایت کار انور کمال پاشا تھے، صبیحہ اور سنتوش اس کے مرکزی کرداروں میں تھے، اس فلم میں ایس سلیمان نے بہ طور اسسٹنٹ ایڈیٹر اپنے کیریئر کا آغاز کیا۔ معروف ہدایت کار اور ایڈیٹر الحامد کے وہ اسسٹنٹ ایڈیٹر تھے۔ انور کمال پاشا کے کیمپ میں بہ طور ایڈیٹر اور عمل کیمیائی کے شعبوں میں انہوں نے چند ایک فلمیں کرنے کے بعد معاون ہدایت کار کی حیثیت سے انور کمال پاشا کے ساتھ ’’سرفروش‘‘ ’’چن ماہی‘‘ اور ’’لیلیٰ مجنوں‘‘ نامی فلموں میں کام کیا۔ 

انور کمال کے بعد جعفر ملک کی فلم ’’باپ کا گناہ‘‘ میں وہ ان کے معاون ہدایت کار تھے۔ یہ فلم 1957ء میں ریلیز ہوئی تھی۔ 1959ء میں ان کے بھائی درپن نے اپنی ذاتی فلم ’’ساتھی‘‘ بنائی، جس کے ہدایت کار الحامد تھے۔ اس فلم میں پہلی بار ایس سلیمان کا نام بہ طور ایسوسی ایٹ ڈائریکٹر کے طور پر سامنے آیا۔ 1961ء میں وہ ہدایت کار کے طور پر پہلی بار فلم ’’گلفام‘‘ کے ٹائٹل پر آئے۔ ’’گلفام‘‘ ایک کاسٹیوم فلم تھی، جس کے فلم ساز درپن تھے۔ اس فلم میں ہدایت کاری کے ساتھ وہ اداکار درپن کے چھوٹے بھائی کے کردار میں بھی نظر آئے۔ 

اس فلم نے کراچی کے ریگل سنیما میں 27؍ہفتے چل کر سولو سلور جوبلی منائی تھی، جب کہ مجموعی طور پر یہ فلم 60؍ہفتے چلی اور شان دار گولڈ جوبلی منانے میں کام یاب ہوگئی۔ اسی فلم کے سیٹ پر اداکارہ پنا سے ایس سلیمان کی رغبت بڑھی اور پھر دونوں نے شادی کرلی۔ پنا نے ان کی بیگم بننے کے بعد فلمی دُنیا کو چھوڑ کر گھریلو زندگی کو ترجیح دی۔ ایک ایکشن کاسٹیوم فلم سے بہ طور ہدایت کار اپنے کیریئر کا آغاز کرنے والے اس مایہ ناز ہدایت کار نے بعد میں بڑی گھریلو، رومانٹک اور سماجی مسائل پر مبنی فلمیں بنائیں۔ ان کی ہدایت کاری میں بننے والی دوسری فلم ’’تانگے والا‘‘ میں تانگے چلانے والے غریب کوچوان کے مسائل کو اجاگر کیا گیا۔

درپن جو اس فلم کے پروڈیوسر تھے، انہوں نے ٹائٹل رول کیا، جب کہ شمیم آراء اس فلم کی ہیروئن تھیں۔ 1963ء میں ایس سلیمان نے ’’باجی‘‘ نامی ایک بہت ہی لاجواب فلم بنائی، جس میں پہلی بار ایک ایسی عورت کی کہانی کو فوکس کیا گیا، جس کے پاس دولت، عزت، خوش حالی سبھی کچھ ہے، لیکن بڑھتی ہوئی عمر کی وجہ سے وہ کنواری تھی۔ سبھی لوگ اسے باجی کہتے تھے، یہاں تک جسے اُس نے چاہا، تو ایک روز وہ بھی اسے جب ’’باجی‘‘ کہہ کر مخاطب کرتا ہے، تو وہ اس صدمے کی تاب نہ لاتے ہوئے وہ مر جاتی ہے۔ ایک نفسیاتی مسئلے پر مبنی اس سے خُوب صورت فلم اب تک نہیں بنی۔ فلم کے گانے بھی بے حد مقبول ہوئے، جن میں ’’دل کے افسانے‘‘ ’’چندا توری چاندنی‘‘ ’’سجن لاگے توری‘‘ ’’اب یہاں کوئی نہیں آئے گا‘‘ جیسے لازوال گیت موسیقار سلیم اقبال نے اس فلم کے لیے تخلیق کیے۔ اپنے پورے کیریئر میں ایس سلیمان نے صرف دو پنجابی فلمیں بنائیں۔ 

’’مہندی والے ہتھ‘‘ اور ’’یار دوست‘‘ فلم ’’مہندی والے ہتھ‘‘ میں پہلی اور آخری بار کسی پنجابی فلم میں اداکارہ زیبا نے کام کیا۔ وہ اس فلم کی ہیروئن تھیں۔ اس کہانی کا ری میک بعد میں ایونیو پکچرز نے’’نکئی جی ہاں‘‘ کے نام سے کیا، جو بہت کام یاب رہی، جب کہ ’’مہندی والے ہاتھ‘‘ فلاپ ہوگئی تھی۔ ایس سلیمان کی جب کوئی نئی فلم ریلیز ہوتی تھی، تو عوام بڑی تعداد میں اس کے استقبال کے لیے موجود ہوتی تھی۔ اُن میں کچھ فلمیں ناکام بھی ہوئیں اور کچھ بہت زیادہ کام یاب رہیں۔ 

انہوں نے محمد علی اور زیبا کو شروع میں اپنی فلموں میں مرکزی کردار سونپے، جن میں ’’لوری‘‘، ’’آگ‘‘، ’’جیسے جانتے نہیں‘‘، ’’بہاریں پھر نہیں آئیں گی‘‘، ’’ایک پھول ایک پتھر‘‘، ’’محبت‘‘، ’’الزام‘‘، ’’سبق‘‘، ’’محبت رنگ لائے گی‘‘، ’’تیری صورت میری آنکھیں‘‘ کے نام شامل ہیں۔ وحید مراد کو انہوں نے صرف اپنی ایک ہی فلم ’’بے وفا‘‘ میں شمیم آراء کے مقابل ہیرو کاسٹ کیا۔ اس کے بعد کسی اور فلم میں وہ انہیں کاسٹ نہ کر پائے۔ 1973ء میں اداکار ندیم کے ساتھ ان کی پہلی فلم ’’سوسائٹی‘‘ ریلیز ہوئی۔ اس کے اور ان کی کیمسٹری ندیم کے ساتھ بڑی حد تک میچ ہوگئی اور انہوں نے ندیم، شبنم کو ’’انتظار‘‘، ’’بھول‘‘، ’’مس ہیپی‘‘، ’’زینت‘‘، ’’اناڑی‘‘، ’’زنجیر‘‘ میں کاسٹ کیا ۔ ’’اناڑی‘‘ ان کے کیریئر کی سب سے زیادہ چلنے والی فلم ثابت ہوئی۔

اداکار شاہد کی فنی صلاحیتوں کو پہلی بار انہوں نے اپنی فلم ’’الزام‘‘ میں آزمایا۔ اس کے بعد بہاروں کی منزل، تیرا غم رہے سلامت، زینت، طلاق، میرے حضور، پیار کا وعدہ، اُف یہ بیویاں، ابھی تو میں جوان ہوں، نظرِ کرم، دل ایک کھلونا، ہائے یہ شوہر ،میں شاہد کو کاسٹ کیا۔ ’’ اُف یہ بیویاں‘‘ کا شمار بھی ان کی بلاک بسٹر فلم میں ہوتا ہے۔ اپنے دور کی سپر اسٹار بابرہ شریف اور ممتاز کی فنی صلاحیتوں کو سب سے پہلے ایس سلیمان نے فلم ’’بھول‘‘ اور ’’انتظار ‘‘ میں پیش کیا۔ 

ممتاز کے ساتھ شرارت، آگ اور زندگی میں بطور ہیروئن ان کی ڈائریکشن میں کام کیا، جب کہ بابرہ شریف نے انسانیت ، پیار کا وعدہ، پرنس، تیرے بنا کیا جینا اور لو اِن لندن میں بہ طور ہیروئن کام کیا۔ جاسوسی کے موضوع پر مبنی ان کی ایک سپر ہٹ فلم ’’منزل‘‘ جو 1981ء میں ریلیز ہوئی، اس فلم میں ممتاز اور بابرہ شریف دونوں بہ طور ہیروئنز آئیں۔ محمد علی اور وسیم عباس نے اس فلم میں ہیرو کے رول ادا کیے۔ ایس سلیمان کو پہلا نگار ایوارڈ فلم ’’آج اور کل‘‘ کے لیے دیا گیا۔ یہ فلم 1976ء میں ریلیز ہوئی تھی، جہیز کی فضول اور غیر اسلامی رسم کے خلاف اُن کی اس جرأت مندانہ فلم پر فلمی صنعت ہمیشہ فخر کرے گی ۔ اداکارہ شبنم ان کی نظر میں بہت بڑی اداکارہ رہیں، انہوں نے

اپنی فلموں میں اسے بڑے یادگار اور اہم رول کروائے۔ ان کی ذہنی ہم آہنگی شبنم سے اس قدر زیادہ تھی کہ ان کی شریک حیات پنا بیگم کی ازدواجی زندگی میں اس اہم آہنگی اور دوستی کی وجہ سے متاثر ہوئی ، وہ اپنی بعض فلموں میں جہاں شبنم کی ضرورت نہ بھی ہوتی، اس میں انہیں کاسٹ کرلیتے، جس کی مثال ’’زنجیر‘‘ سے دی جاسکتی ہے۔ کلب ڈانسز کے اس کردار میں شبنم زنجیر میں کاسٹ تھیں۔ اداکارہ نِشو سے انہوں نے اپنی فلم آج اور کل میں اس قدر عمدہ کام لیا کہ وہ فلم نِشو کے کیریئر کی ایک یادگار اور سب سے زیادہ چلنے والی فلم ثابت ہوئی۔ اداکار شاہد سے انہوؒں نے اپنی فلم ’’اُف یہ بیویاں‘‘ اور ’’ابھی تو میں جوان ہوں‘‘ میں مزاحیہ اسٹائل کی اداکاری کروائی، جسے فلم بینوں نے بے حد سراہا ۔ ایس سلیمان کے اسکول آف ڈائریکشن سے بہت سے لوگ مستعفی ہوئے، جن میں محمد جاوید فاضل نے سب سے زیادہ شہرت پائی اور بھی ہدایت کار جنہوں نے اپنے اُستاد ایس سلیمان کا نام روشن کیا۔ 

آج کے ایک اور نامور ہدایت کار سید نور نے بھی اپنے فلمی کیریئر کا آغاز 1971ء میں ریلیز ہونے والی ان کی فلم تیری صورت میری آنکھیں سے کیا۔ اس فلم میں وہ ایس سلیمان کے معاون ہدایت کار تھے ، لیکن شاہ جی ہدایت کاری کے شعبے کو چھوڑ کر بہ طور کہانی نویس مشہور ہوگئے۔ بعد میں ’’جیوا‘‘ جیسی سپر ہٹ فلم میں ان کے کریڈٹ پر بہ طور ہدایت کار سامنے آئی۔ ایس سلیمان کی زیادہ تر فلموں کے عکاس علی جان ہوا کرتے تھے، جب کہ ایڈیٹر کے طور پر خداداد مرزا المعروف کے ڈی مرزا ہوا کرتے تھے۔ یہ دونوں شخصیت اور سلو بھائی آج بھی بقید حیات ہیں۔ سلو بھائی آج کل صاحب فراش ہیں۔ ان کی بیماری کی اطلاعات سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پر روزانہ آرہی ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ پاکستان کی فلمی صنعت کے اس لیجنڈ معمر ہدایت کار کو اللہ تعالیٰ اپنی سلامتی میں رکھیں۔

جب اردو فلموں کی میکنگ کم ہوگئی اور علاقائی فلمیں زیادہ تر بننے لگیں، تو وہ ڈائریکشن کے شعبے سے کنارہ کش ہوکر رہ گئے۔ انہوں نے بہ طور فلم ساز ایک پنجابی فلم بھی بنائی، جس کے فلاپ ہونے کے بعد دوبارہ فلم سازی نہ کی، جب کہ کچھ عرصے کے بعد ٹی وی پر انہوں نے بہ طور ہدایت کار کام شروع کیا۔ 2004ء میں انہوں نے عبداللہ کادوانی، سلمان نینی تال والا اور ہمایوں سعید کی ذاتی ڈراما سیریل انا کی ڈائریکشن دیں، جسے ملک بھر میں بے حد پسند کیا گیا۔ اس کے بعد ان کی ڈائریکشن میں 2006ء میں ’’کچھ دل نے کہا‘‘ ٹی وی سے پیش کیا گیا۔ 

بہ طور ہدایت کار ان کی آخری ریلیز شدہ فلم ویری گڈ دنیا ویری بیڈ لوگ تھی، جو 1998ء میں ریلیز ہوئی، اس فلم میں اداکار شان نے تاریخیں دینے کے بعد بہت پریشان کیا اور وہ شوٹنگ پر بھی بہت لیٹ آتے تھے۔ یہ بات ایس سلیمان کے لیے ناقابل برداشت تھی۔ انہوں نے ابتدا کی چند مناظر کی شوٹنگیں کرکے اس فلم کو چھوڑ دیا۔ ایس سلیمان کا دور پاکستان کی فلمی دور کا ایک کام یاب اور سنہرے دور کے حوالے سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

 ایس سلیمان کی ٹاپ ٹین فلمیں !!

’’اُف یہ بیویاں، آج اور کل، اناڑی، منزل، گلفام، آگ، سبق، زینت، انتظار، ابھی تو میں جوان ہوں۔

تازہ ترین
تازہ ترین