کرہ ارض پر جب سے زندگی کو وجود اور نشان ملا، تبھی سے قدرتی آفات کے ظہور پذیر ہونے کا عمل بھی شروع ہوا۔ تاہم ان آفات کی اشکال اور نوعیت مختلف جہتوں میں مختلف ادوار میں سامنے آتی رہیں۔ کبھی یہ آندھی، طوفان، زلزلہ، موسلادھار بارش، قحط، سیلاب، خشک سالی کی صورت اور کبھی مہلک وباء اور بیماریوں کی شکل میں۔ دُنیا کی تاریخ کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ وباء کی صورت میں برپا ہونے والی آفات میں کرہ ارض پر موجود حیات کو سب سے زیادہ نقصان جس بیماری نے پہنچایا، وہ تھی طاعون کی بیماری جسے انگریزی میں پلیگ یا بلیک ڈیتھ کہا جاتا ہے۔
طبی ماہرین کے مطابق یہ بیماری چوہوں سے انسان میں منتقل ہوتی ہے ،چوں کہ یہ وبائی بیماری ہے، لہٰذا اس کا پھیلائو شدت اور سُرعت سے ہوتا ہے۔ ایک زمانے میں اس وباء نے مشرق وسطیٰ ہندوستان اور چین میں 7کروڑ افراد کو لقمہ اجل بنا دیا تھا۔ اِن دنوں کورونا کی وباء نے ساری دُنیا پر موت کے سائے مسلط کر رکھے ہیں۔ 200سے زائد ممالک اس کی ہلاکت خیز تباہ کاریوں کی لپیٹ میں ہیں۔
اس وباء نے متاثرہ ممالک کی سماجیایات، اقتصادیات اور سیاسیات غرض یہ کہ سب کچھ درہم برہم کرکے رکھ دیا ہے۔ کم و بیش ساری دُنیا اس بیماری کے زیر اثر لاک ڈائون، کرفیو اور سماجی فاصلوں کے حصار میں سانس لے رہی ہے۔ کسی بھی عہد کے غیر معمولی حالات و واقعات جن سے تبدیلی یا بگاڑ واقع ہو، ان کے اثرات کا عکس متاثرہ سماج کے شاعروں، ادیبوں، تخلیق کاروں اور تمثیل نگاروں کی تخلیقات میں بھی ضرور نمایاں ہوتا ہے، ایک زمانے میں جب ’’ٹی بی‘‘ کی تشخیص ہوئی، تو اسے نہایت موذی اور ہلاکت خیز مرض خیال کیا گیا۔ ایک عام آدمی اس کے نام سے بھی خائف نظر آتا تھا، جہاں اس مرض پر مضامین لکھے گئے، وہاں کہانیوں اور افسانوں میں بھی اس مرض پر بات کی گئی۔ فلم تخلیق کاروں نے بھی اس مرض کو اپنی کہانیوں کا ’’جُزو‘‘ بنایا۔ ہدایت کار منشی دل نے اپنی سوشل تصویر ’’حسرت‘‘ میں کہانی کے سیکنڈ ہیرو ’’یوسف خان‘‘ کو ایک ’’ٹی بی‘‘ زدہ شخص کے روپ میں پیش کیا۔ 1969ء کی نغمہ بہار فلم ’’دل میرا دھڑکن تیری‘‘ جسے ایم اے رشید نے ڈائریکٹ کیا تھا۔
فلم کا ہیرو وحید مراد، اپنی ماں کی خواہش کے آگے سر تسلیم خم کرتے ہوئے اپنی حقیقی محبت شمیم آراء کو چھوڑ کر بادل نخواستہ ایک مغرب زدہ لڑکی رانی سے شادی کرلیتا ہے۔ بیوی کی عدم توجہی اور حقیقی محبت سے محرومی کا دکھ اُسے تپ دق (ٹی بی) کا مریض بنا دیتا ہے اور پھر اس کی حقیقی محبت مسیحا کا روپ دھارکر اس کی دن رات نگہداشت کرتی ہے ،جس کے نتیجے میں وہ صحت یاب ہوکر ایک خوش گوار اور صحت مند زندگی کی شاہ راہ پر آکھڑا ہوتا ہے۔ ’’دل میرا دھڑکن تیری‘‘بنیادی طور پر ایک رومانٹک میوزیکل مووی تھی، لیکن رائٹر نے خپوب صورتی سے (تپ دق) کو کہانی کا جزوی طور پر حصہ بنایا۔ وحید مراد نے (ٹی بی) سے متاثرہ جوان کے رول کو بڑی حد تک اوریجنل انداز میں نبھایا۔ اس فلم نے باکس آفس پر شان دار کام یابی حاصل کی اور 1968ء کی چند نمایاں فلموں محل، صاعقہ سپر گرل اور بہن بھائی کی صف میں کھڑی نظر آئی۔
1979ء میں ہدایت کار نذر شباب نے بہن بھائی کے عنوان سے ایک متاثر کن گھریلو ڈراما مووی تخلیق کی۔ فلم کا بنیادی خیال منہ بولے ’’بہن بھائی‘‘ کی لازوال محبت اور بھائی کی بے مثل ایثار پر مشتمل تھا، جس میں ایک بھائی محمد علی اپنی منہ بولی بہن رانی اور اس کی ننھی بیٹی کی زندگیوں میں خوشیاں لانے کے لیے دن رات محنت مزدوری کرتا ہے، یہاں تک کے کام کی بہتات کے سبب ’’ٹی بی’’ جیسے مرض کا شکار ہوکر بالآخر موت کی آغوش میں چلا جاتا ہے۔ ہمہ جہت فن کار محمد علی نے اس کردار کو کمالِ فن کے ساتھ نبھا کر شائقین فلم کی خوب داد اور ہمدردیاں سمیٹیں۔
یہاں ہم نے ایسی دو فلموں کا ذکر کیا کہ جنہیں ’’تپ دق‘‘ مرض کو جزوی طور پر کہانی کا حصہ بنایا گیا، لیکن پہلی مثال ’’دل میرا دھڑکن تیری‘‘ میں مریض کی تمثیل نبھانے والا کردار ’’تپ دق‘‘ کو شکست دے کر اس لیے صحت یاب ہوگیا کہ اُسے پراپر علاج اور بھرپور نگہداشت ملی، جب کہ دوسری مثال ’’بہن بھائی‘‘ کا تمثیل گر مریض تپ دق کے ہاتھوں موت کی آغوش میں اس لیے چلا گیا کہ اُسے علاج میسر نہیں آسکا۔
ان دو مختلف صورتوں سے یہ پیغام ملا کہ مریض کو اگر مناسب علاج اور پُوری نگہداشت ملے، تو ٹی بی سے چھٹکارا ممکن ہے۔ ورنہ مخالف صورت حال میں یہ مرض ہلاکت خیز ہے۔ ہدایت کار ایس سلیمان نے 1981ء میں ایک ہلکی پھلکی رومانٹک مووی ’’دل ایک کھلونا‘‘ بنائی تھی، جس کے مرکزی کردار شاہد اور سنگیتا نے ادا کیے تھے، جب کہ فلم کا سیکنڈ پیئر حنیف اور روحی بانو پر مشتمل تھا۔ کہانی کے مطابق جب حنیف کو اس کی محبت ’’روحی بانو‘‘ سے دور کر دیا جاتا ہے، تو وہ جذباتی اقدام کرتے ہوئے خود کشی کرلیتا ہے اور روحی بانو اس کی جدائی کے دُکھ میں ’’تپ دق‘‘ کا شکار ہو جاتی ہے، اس تمثیل میں بھی مریضہ چوں کہ علاج سے دور رہتی ہے، لہٰذا بالآخر اس کا انجام بھی موت ہوتا ہے۔
ان چند مثالوں میں ہم نے کچھ ایسی فلموں کا ذکر کیا کہ جنہیں تپ دق (ٹی بی) کو جزوی طور پر کہانی کا حصہ بنایا گیا۔ ہدایت کار خواجہ خورشید انور نے 1967ء میں بہت معیاری دل کش اور قابل دید فلم ’’ہمراز‘‘تخلیق کی تھی، جس میں کہانی کی ہیروئن ’’شمیم آراء‘‘ کو ’’دمہ‘‘ یعنی سانس کی مریضہ دکھایا گیا ہے۔ دمے کی مریضہ کی اس تمثیل کو شمیم آراء نے جس اسلوب اور تاثر سے نبھایا، اس نے شمیم آرا کے فنی قد کاٹھ کو بلند ترین کرنے میں کلیدی کام کیا۔ آپ ’’ہمراز‘‘ فلم کا فقط وہ کلاسیک سونگ دیکھ لیجیے جس میں شمیم آرا ء ایک ویران سنسان مکڑی کے جالوں میں ڈھکی ہوئی حویلی کے ہال میں تن تنہا اپنی سال گرہ منا رہی ہیں۔’’کہاں ہو تم سہیلیوں جواب دو‘‘ اس گیت کے دوران ان کی سانسوں کا بے ترتیب ہو جانا، اس سچویشن میں ان کی پرفارمنس کو کبھی نہیں بھلایا جاسکے گا۔
سرطان (کینسر) لالی وڈ کی متعدد فلموں کا موضوع بنا اور متعدد یادگار فلمیں تخلیق ہوئیں۔ اس موضوع پر پہلی موثر اور معیاری اور کام یاب فلم شباب کیرانوی کی ’’انسانیت‘‘ 1967ء میں ریلیز ہوئی تھی، جس میں اجمل (وحید مراد) ڈاکٹری کی اعلیٰ تعلیم کے لیے بیرون ملک جاتے ہوئے اپنی محبوبہ نور جہاں (زیبا) سے یہ وعدہ کرکے رخصت ہوتا ہے کہ واپسی پر وہ اسے اپنی شریک حیات بنا لے گا، لیکن ہوتا یُوں ہے کہ اجمل کی واپسی سے قبل ہی نورجہاں کے والدین اس کی شادی جہانگیر نامی نوجوان (طارق عزیز) سے کر دیتے ہیں۔ نور جہاں (زیبا)مشرقی قدروں کا پاس رکھتے ہوئے اسے نوشتہ تقدیر مان کر قبول کرلیتی ہے،لیکن سہاگ کی شب اس پر یہ انکشاف ہوتا ہے کہ اس کا شریک زندگی، جہانگیر کینسر کا مریض ہے۔ نورجہاں کو دہلا کر رکھ دیتا ہے۔ ڈاکٹر اجمل کی بیرون ملک سے واپسی تمام حالات سے آگاہی اور جہانگیر کے کینسر کے علاج میں خود کو وقف کر دینا، ایک دل چسپ ڈراما مووی تھی۔
’’ انسانیت‘‘ ،جس میں طارق عزیز نے کینسر کے مریض کا کردار محنت سے نبھایا، وہیں وحید مراد نے ایک فرض شناس ڈاکٹر کے روپ میں حقیقت سے قریب تر پرفارمنس دی، جب کہ ’’زیبا‘‘ نے وفا شعار بیوی کی تمثیل سے پُورا انصاف کیا۔ 1974ء میں اقبال اختر نے ’’پھول میرے گلشن کا‘‘ میں ایک کینسر زدہ کمسن بچے کو کہانی میں مرکزیت دی۔ کہانی کے مطابق ایک ہنستا بستا گھرانہ جس کی تمام خوشیاں اور رونقیں ننھے پھول نامی بچے سے مشروط ہیں، لیکن ایک مرحلے پر ڈاکٹر کا یہ انکشاف کہ ’’پھول‘‘ کو کینسر ہے۔
گھر کے مکینوں پر بجلی بن کر گرتاہے۔ پھر پورا منظہ نامہ آہوں اور سسکیوں میں ڈوب جاتا ہے۔اس صورتِ حال میں کینسر زدہ پھول کی پیٹ کے درد میں تڑپنے کی پرفارمنس، تو دوسری جانب سے محمد علی اور زیبا کا ننھے پھول کی اذیت دیکھ کر بے بس، پریشان اور اشک بار ہونا، اس فلم کا بہت ہی متاثر کن حصہ تھا، جس کے سبب یہ خُوب صورت فلم ہر خاص و عام سے پسندیدگی کی سند پاگئی اور باکس آفس پر گولڈن جوبلی ہٹ بزنس کیا۔
جن دنوں ’’پھول میرے گلشن کا‘‘ باکس آفس پر دھوم مچا رہی تھی، انہی دِنوں شباب کیرانوی نے ’’میرا نام ہے محبت‘‘ کا آغاز کردیا۔ یہ ایک میوزیکل لو اسٹوری مووی تھی، لیکن سیکنڈ ہاف میں کہانی اس وقت بڑا ڈرامائی موڑ لیتی ہے، جب بابرہ شریف کے چیک اپ کے بعد ڈاکٹر غلام محی الدین کو یہ بتاتا ہے کہ تمہاری بیوی کو کینسر ہے۔ بلاشبہ بابرہ شریف نے کینسر زدہ مریضہ کے رول کو بڑے سلیقے اور مہارت سے نبھایا۔ زندگی سے رفتہ رفتہ دور جاتی ایک خُوب صورت لڑکی جو اپنی دانست میں اپنے کینسر زدہ ہونے کا راز اپنے پیارے شوہر سے چھپائے ہوئے ہے۔
دوسری جانب غلام محی الیدن جو یہ سمجھ رہا ہے کہ اس کی بیوی کو اپنے کینسر زدہ ہونے اک علم نہیں۔ وہ اُسے کبھی نہیں بتائے گا۔ اس سچویشن میں دونوں کا ایک دوسرے کے سامنے آنا… اور ایک دوسرے کو جھوٹی تسلیاں دینا… یہ منظر ’’میرا نام ہے محبت‘‘ کو ’’امر‘‘ کرگیا۔ میرا نام ہے محبت 1975ء میں منظر عام آئی اور شان دار گولڈن جوبلی سے ہمکنار ہوئی۔ ’’میرا نام ہے محبت‘‘ کی کام یابی کا نشہ شباب کیرانوی پر کچھ اس طرح طاری ہوا کہ 1977ء میں انہوں نے اسی کینسر فارمولے کو لےکر ’’میرا نام ہے محبت‘‘ ہی کی کہانی کو معمولی ردوبدل کے ساتھ ’’محبت ایک کہانی‘‘ کے عنوان سے پیش کردیا۔ تاہم اس بار وہ کسی بڑی کام یابی کی لذت سے محروم رہے۔ 1980ء میں ایک بار پھر شباب کیرانوی نے ’’میرا نام ہے محبت‘‘ کے فارمولے کو کچھ تبدیلیوں کے ساتھ ’’دامن‘‘ کا نام دیا۔ اس بار پھر کینسر زدہ مریضہ بابرہ شریف تھیں اور ان کے ہیرو تھے، آصف رضا میر…لیکن اس بار شباب کیرانوی کو باکس آفس پر مکمل ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔
1977ء میں پاکستانی باکس آفس کے سب سے کام یاب فلم میکر پرویز ملک نے سلمیٰ کنول کے ناول چپکے سے بہار آئے‘‘ سے ماخوذ ایک دل گداز اور پراپر فلم ’’مہمان‘‘ بنائی ،جس میں کہانی کی ہیروئن بابرہ شریف کو برین ٹیومر ہوتا ہے۔ 1978ء میں ایس اے حافظ کی ریلیز سوشل مووی ’’بارات‘‘ میں غلام محی الدین ایک بلڈ کینسر پیشنٹ کے روپ میں نظر آئے۔ یُوں کینسر یا سرطان بہت سے لالی وڈ فلمز کا موضوع رہا۔ تاہم 1997ء میں بریلئینٹ فلم میکر سید نور نے ’’سنگم‘‘ بناکر سب کو چونکا دیا۔
ان کی کہانی کے مطابق فلم کے ہیرو شان ایک ایسی عجیب اور پراسرار بیماری میں مبتلا دکھایا گیا ہے کہ اس کا دیگر انسانوں سے سوشل ڈسٹینس یا سماجی فاصلہ بھی ناگزیر ہے اور اُسے ایک شیشے کے کمرے میں سب سے الگ تھلک رکھا جاتا ہے۔ گویا قرنطینہ میں رکھا جاتا ہے ۔ شان کے دادا آغا طالش اس شیشے کے گھر میں اُسے دنیا کی ہر آسائش فراہم کرتے ہیں، لیکن اپنے پیاروں سے ایک جد فاصل ہے، محبوبہ سے جدائی کا احساس اُسے انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور کردیتا ہے اور وہ اپنی آئسولیشن یعنی قید تنہائی ختم کرنے کے لیے اس شیشے کے کمرے کو چکناچور کر دیتاہے، لیکن اسی پوائنٹ سے اس کی سانسوں کی الٹی گنتی شروع ہو جاتی ہے۔
یقیناً یہ تمام تفصیل پڑھ کر آپ ضرور سوچیں گے کہ 1997ء میں مصنف نے شان کو جس مرض میں مبتلا دکھایا، کیا وہ کورونا تھا؟ اگر کورونا نہیں بھی تھا، تو اس کی علامات اور اس سے جڑی احتیاطی تدابیر کورونا کی علامات اور احتیاط سے مشابہہ ضرور تھیں،کیوں کہ جب کوئی کہانی کار اپنے زمانہ ماضی کی بات کرتا ہے، تو اس میں عہد رفتہ کی حقیقتیں پیوست ہوتی ہیں اور حال پر قلم اُٹھاتا ہے تو عصرِ جاری کے مشاہدات حالات، واقعات اور کردار، کہانی کے قالب میں ڈھل جاتے ہیں۔ اور جب وہ فکشن تخلیق کرتا ہے ، تو اس کا قلم آنے والے وقتوں کے واقعات، آفات، ایجادات کو بیان کرتا ہے، لیکن اکثر آنے والے وقتوں میں ان کا فکشن جیتی جاگتی حقیقتوں کا روپ دھار لیتا ہے۔