• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
انسان اس کائنات میں اکیلے آتا ہے اور اپنی زندگی کے مقررہ دن گزار کر اس دنیا سے اکیلے ہی رخصت ہو جاتا ہے مگر اس آنے اور واپس جانے کے درمیانی عرصہ میں اپنے رشتہ داروں اور دوستوں کا ساتھ اسے زندگی اور معاشرے سے جوڑے رکھتا ہے۔ اگر اس Inter-connection کا لنک ایک لمحہ کیلئے ٹوٹ جائے تو شاید زندگی اپنی بدترین اور خوفناک شکل میں انسان کے سامنے کھڑی ہو جا ئے۔ سول سروس کی تربیت کے دوران ہمیں کچھ بہت ہی اچھے اور دلچسپ دوستوں کیساتھ تعلق اور صحبت کا شرف حاصل رہا ہے۔ ان میں سے چندایک کے مختصر خاکے قارئین کی نظر:
پاء جی :ٹریننگ کے پہلے دن جب زیرتربیت افسران کا باہمی تعارف بھی نہیں ہوا تھاپاء جی کو دیکھ کر اکثر لوگ سمجھے کہ شاید حکومت پاکستان نے کسی معاہدے کے تحت کسی افریقی ملک کے افسران کی تربیت بھی ہمارے ساتھ ہی رکھ دی ہے۔ یہ عقدہ البتہ تعارفی تقریب میں کھلا کہ جناب کا تعلق”غلام محمداباد“ سے ہے۔ ٹریننگ کے تمام عرصہ میں انٹرویو پینل کی Gender biasedپالیسی کوکوستے رہے۔ فرماتے تحریری امتحان میں تو ٹاپ کر گیا تھا مگر لپ اسٹک نہ لگانے کی وجہ سے انٹرویو کے نمبروں میں مار کھا گیا اور ایک لڑکی میرٹ میں اوپر آگئی۔ اسی لئے کہتے ہیں حسین ہونا ذہین ہونے سے بہتر ہے۔ پاء جی گھسُن(گھونسا) مارنے میں کافی مہارت رکھتے تھے۔ اگر کوئی افسر اپنے خیال میں محو ہے اور پیچھے اچانک کسی نے” وکھی“ میں گھسُن مارا تو وہ سمجھ جاتا کہ پاء جی آگئے ہیں ۔گھسُن مارنے کی جبلت پاء جی میں کہاں سے آئی یہ بات البتہDebateable رہی۔ پاء جی انتہائی خوش لباس اور خوش گفتار واقع ہوئے۔ انگریزی تو پنجابی میں بولتے البتہ اردو بولتے تو لگتا ڈانٹ رہے ہیں۔ لباس کے معاملے میں ریڈ اینڈ وائٹ کا کمبی نیشن (سفید پینٹ اور لال شرٹ) صاحب کا فیورٹ تھا۔ نکلے ہوئے پیٹ کے اوپر بیلٹ لگاتے تو لگتا جیسے دریا کو کوزے میں بند کردیا ہو۔ ایک دفعہ پاء جی کو سانپ نے ڈس لیا۔کافی بحث ہوئی سانپ بچا ہو گا کہ مر گیا ہو گا۔ دروغ بر گردن راوی۔ دیکھنے والے نے بتایا اگلے دن سانپ ڈسنے سے توبہ تائب ہوکر بے ہوشی کی حالت میں دیوار کے ساتھ پڑا تھا۔
باؤجی:خوش قسمتی یا بدقسمتی باؤ جی ہمارے روم میٹ تھے۔ ایک ساتھی کا خیال تھا باؤ جی بنیادی طور پر ایک دیسی آدمی تھے مگر ”ممی ڈیڈی“ لوگوں کے ساتھ رہ کر ان جیسا بننے کی کوشش کی۔ ممی ڈیڈی کاصحیح تَڑکا نہ لگنے سے تھوڑا ”کچے“ رہ گئے نتیجتاً ”کُلچہ“ بن گئے۔ موصوف انتہائی مہمان نواز ثابت ہوئے ۔ کئی دفعہ تو کمرہ مہمانوں سے بھر جاتا مگر مہمان کمرے میں اورصاحب کمرے کے باہر۔اُس وقت تک موبائل پرکال کرتے جب تک مہمان کمرے میں رہتے۔ کئی دفعہ تو دوستوں کو مہمانوں سے کہنا پڑتا آپ لوگ چلے جائیں کیونکہ صاحب کے موبائل کا بیلنس ختم ہونے والا ہے پھر کسی وقت آنا جب صاحب Easy Loadکرالیں ۔ زمانہ طالب علمی میں اسٹوڈنٹ پولیٹیکس میں بھرپور حصہ لیا۔ ایک دفعہ لڑائی کے دوران اپنی تنظیم کے لئے ڈنڈوں کی کُمک لے کر جار ہے تھے کہ مخالف گروپ کے لڑکے صاحب کی خوبصورت انگریزی بولنے کے باجود تمام ڈنڈے چھین کر لے گئے ۔ پھر انہی ڈنڈوں سے صاحب کے اپنے ساتھیوں کی خوب دھلائی ہوئی۔ انگریزی میں اتنی مہارت کہ سلام کا جواب بھی انگریزی میں ۔ ایک دفعہ میس پر دال کا "ڈونگا "لینے کے لئے اپنے ساتھی سے کافی دیر تک کہتے رہے" "Pulse Please۔ مگر سادہ لوح ساتھی دال دینے کے بجائے اپنی نبض پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ گیا۔ خوش لباس اتنے کہ رات کو بھی ٹائی لگا کر سوتے۔ ایک دفعہ رات کو 2بجے ہمیں اٹھایا، پوچھا خیریت تو ہے؟ کہنے لگے یار پرویز مشرف کا کیا بنے گا؟ ہم نے کہا بھائی سو جا وہ اگلے دس گیارہ سال کہیں نہیں جاتا۔ سچ کہتے ہیں قبولیت کی گھڑی کا کوئی پتہ نہیں ہوتا، اس لئے سوچ سمجھ کر بولنا چاہئے۔
میاں صاحب: فرماتے بچپن میں کافی اسمارٹ ہوتا تھا مگر خدا جھوٹ نہ بلوائے جب سے ہم نے دیکھا تین من دس کلو سے کم کبھی نہیں تھے۔ کوئی دوست پوچھتا کتنا وزن ہے؟ کہتے یہی کوئی” ہنڈرڈ پلس“۔کہتے منگنی کے موقع پر بھی یہی Trickاستعما ل کی۔ لڑکی والوں کو بتایا وزن ایک من کچھ کلو گرام۔ یہ اور بات یہ کچھ کلوگرام بعد میں 95کلو نکلے۔ انتہائی خوش خوراک اور اپنی صحت کے بارے میں بہت Conscious۔ رات گئے جب دوستوں کے ساتھ چائے کیلئے جانا تو تین چکن رول پراٹھوں کے بعد پیپسی ہمیشہ Diet ہی لیتے ۔طبیعت میں عاجزی اور انکساری کوٹ کوٹ کر بھرئی ہوئی۔ حتیٰ کہ نائب قاصد کو بھی سر کہہ کر مخاطب کرنا۔ فرماتے پتہ نہیں چلتا کسی وقت کسی سے بھی کام پڑ جائے ۔کہتے ویسٹ صرف 57انچ ہے اور 20میٹر کپڑے میںآ رام سے میرے دو سوٹ بن جاتے ہیں ۔ جب پریڈ کرتے تو لگتا جیسے کوئی روبوٹ خشک سیل پر چل رہا ہو۔ ایک دفعہ صاحب نے ہمیں فون کیا ۔کہنے لگے یار ایک بڑا سخت ملزم اقرارِ جرم نہیں کر رہا۔ہم نے پوچھا ”تھرڈ ڈگری“ کا استعمال کیا؟ کہا ضرورت ہی نہیں پڑی ۔بس اس کے اوپر اوندھے منہ گرا۔ ایسا لگا جیسے چڑی باز کے نیچے آگئی۔ بس پانچ منٹ سے پہلے اقرارِ جرم۔ کہنے لگے اب بس مصیبت یہ کہ تھانیدار بہت تنگ کرتے ہیں ۔صاحب ذرا تشریف لانا ملزم اقرارِ جرم نہیں کر رہا اور ضلع میں بھی ایسی دھاک کہ ملزم تھانیداروں کو سفارش کراتے کہ ”تھرڈ ڈگری“استعمال کر لو پر صاحب کو مت بلاؤ۔ پٹھانے خان کے گانوں سے شدید بغض رکھتے۔ ایک دفعہ بازار میں ریڈیو لینے گئے ۔قیمت پوچھی دکاندار نے بتایا دو ہزار روپے۔ کہنے لگے تین ہزار دے دوں گا مگر میرے ریڈیو پر پٹھانے خان نہیں آنا چاہئے۔
سائیں جی:سائیں جی پڑھنے لکھنے کے دلدادہ ۔ روزانہ تین اخبار منگوانے کا معمول ۔ ایک دفعہ دوستوں نے اچانک چھاپا مارا تو کیا دیکھتے ہیں، ضرورتِ رشتہ کے بے تحاشا اشتہارات۔ لڑکی کی عمر ، شکل ، تعلیم اور اس کے والدین کے منقولہ اور غیر منقولہ اثاثہ جات کے لحاظ سے باقاعدہ Catalogبنا رکھے ہیں ۔یہ عقدہ کھلا کہ اخبارات منگوانے کا مقصد کیا تھا۔صاحب سارا دن ہاسٹل ، پریڈ گراؤنڈ اور سامنے والی سڑک پر ایسے پھرتے جیسے ”بملہ کماری“ کی بے چین روح۔ انسٹرکٹر نے پریڈ سکھانے پر بڑا زور لگایا۔ آخر میں صاحب نے خود اقرارِ جرم کر ہی لیا، کہنے لگے Manufacturing Fault ہے۔ پریڈ کبھی ٹھیک نہیں ہوگی۔ پریڈ کے دوران ایسا لگتا جیسے کوئی عورت مردانہ چال چلنے کی کوشش کر رہی ہو۔ صاحب کو خداداد Presentation Skills حاصل تھیں۔ Presentationکے دوران ایسا لگتا جیسے Slide Showکمپیوٹر پر نہیں صاحب کے چہرے پر چل رہا ہو۔ چہرہ ایک منٹ میں اتنے رنگ بدلتا کہ گرگٹ کا ریکارڈ بھی پیچھے رہ جاتا۔ ایک دفعہ صاحب سے کسی نے پوچھا آپ کی ذات کیا ہے؟ بڑے فخر سے کہا بلوچ۔ جب پوچھا گیا کونسے بلوچ؟فرمایا سائیں حمید بلوچ۔ سوال کرنے والا اپنی کم مائیگی پر اپنا سا منہ بنا کر رہ گیا۔ اس کے بعد سنا کہ ہمارے کورس کے ایک اور بلو چ نے اخبار میں”تبدیلی ذات“ کا اشتہار دے کر” بلوچیت“ سے ہمیشہ کے لئے کنارہ کشی اختیار کر لی۔
گُڈوجی: جناب کایہ دعویٰ کہ وہ کورس میں سب سے کم عمر۔ مگر جسم کا حدود اربع کچھ متضاد کہانی سناتا تھا۔کچھ دوستوں سے سنا گڈو جی نے اپنی عمر بڑھنے کے خلاف عدالت سے Stay Orderلے رکھا ہے۔واللہ عالم۔ خربوزے کھانے کے بہت رسیا۔ ایک دفعہ تو تمام میس ممبرز کے رکھے گئے خربوزے کھانے کا چیلنج دے ڈالا تاہم ساتھی یہRisk لینے پر تیار نہ ہوئے۔ صاحب کی پہلی تعیناتی بلوچستان میں ہوئی۔ ایک رات ہمارے کمرے میں آئے،کافی پریشانی اور تھکے تھکے ۔ وجہ پوچھی تو بتایا یار بہت مصیبت ہے۔ایک تو بلوچستان بہت دور اور دوسرا وہاں پٹھان بھی۔ کہنے لگے والدہ نے بجپن میں پٹھانوں سے اتنا ڈرایا کہ یہ نہ کرو، وہ نہ کرو، پٹھان آئے گا پکڑ لے گا۔ کہتے یار کوئی اچھا مشورہ دو۔ ہم نے کہا بس ایک بات پلّے باندھ لو۔ رات کو گشت کرتے ہوئے اگر کوئی گولی ٹافی دے تو مت کھانا۔ ہو سکتا ہے اس میں کوئی نشہ آور چیز ہو۔
خان صاحب:لوگ جس طرح صبح صبح داڑھی شیو کرتے ہیں خان صاحب روزانہ اپنا سر شیو کرتے ۔ لڑائی کے دوران لوگ جو کام اپنے ہاتھوں سے لیتے ہیں خان صاحب وہ کام اپنے سر سے لیتے ۔ چونکہ ٹرائیبل ایریا سے تعلق ۔ کہتے اسلحہ چلانا تو ہمارے بائیں ہاتھ کا کھیل۔ جب تربیت کے اختتام پر فائرنگ ٹیسٹ میں فیل ہو گئے تو کہنے لگے یار ہم لوگ ٹرائیبل ایریا میں بڑا اسلحہ استعمال کرتا۔ یہ چھوٹا اسلحہ ہمارے ہاتھ نہیں چڑھتا۔ خان صاحب نسوار کی ایک پُڑیا کے صرف دو تین نوالے ہی کرتے ۔ دوستوں سے اکثر کہتے جب نسوار رکھ کر نہ بیٹھا ہوں تو چھڑ چھاڑ مت کیا کرو۔ مذہب پر گفتگو کے دوران ایک دفعہ کہنے لگے کہ ہمارا پشتون اغواء کار بھی جب بندہ اغواء کر کے جاتا تو راستے میں نماز کا وقت آجائے تو پہلے نماز پڑھتاہے پھر مغوی کوآگے لے جاتا ہے۔ حتیٰ کہ ہمارے ہاں کے”مون لائٹ“ سینما میں بھی ٹکٹ گھر سے پہلے مصلّے رکھے ہوتے ہیں۔ لوگ پہلے نماز پڑھتے پھر ٹکٹ گھر جاکر ٹکٹ لیتے ہیں۔
تازہ ترین