• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جو احباب فیس بُک سے فیضیاب ہوتے ہیں وہ کسی اور کو جانتے ہوں یا نہ جانتے ہوں، مونا میر سے یا ان کے نام سے ضرور واقف ہوں گے۔ کون سی صبح ایسی نہیں ہوتی تھی کہ کمپیوٹر کھولیں اور سامنے مونا میر کے کھلائے ہوئے شگوفے نہ مہک رہے ہوں۔ دنیا کے نقشے پر وہاں پرلے پار امریکی ریاست ٹیکساس میں بیٹھی مونا میر ہم سب کے تبصروں کے جواب میں اپنے کلمات ضرور رقم کرتی تھیں اور ان سب میں گزرے ہوئے زمانوں کے سکون اور قرار کے قصیدے اور پرانی یادوں میں ڈوبے ہوئے تاثرات لکھے ہوتے تھے، ہمیشہ اور ہر بار انگریز ی کے بڑے حروف میں۔ یہی اُن کے پیغامات کی پہچان تھی۔ پچھلے ہفتے ایک صبح ایسی آئی کہ فیس بُک کھولی گئی تو اس میں مونا میر کا کوئی تبصرہ نہیں تھا۔ وہ رات کے دوران اسی نیند کی حالت میں خاموشی سے سدھار گئیں۔ ان کے خاندان کے بچے بتاتے ہیں کہ وہ موت سے ذرا بھی خائف نہیں تھیں اور بس ایک ہی آرزو تھی کہ سوتے ہوئے چپ چاپ دنیا سے اُٹھ جائیں۔ مونا میر، جن کا اصل نام میمونہ سلطانہ تھا، کسی کی خالہ تھیں، کسی کی آپا، کسی کی باجی اور کسی کی نانی ماں، انہوں نے سب سے اور سب نے ان سے کوئی نہ کوئی رشتہ جوڑ رکھا تھا۔

مونا میر اودھ کے علاقے سیتا پور میں ہمارے دور کے بڑے شاعر ریاض خیر آبادی کے گھرانے میں پیدا ہوئی تھیں۔ ان کے نانا سید قبول احمد نے ان کی کردار سازی کی تھی۔ وہ ریاض خیر آبادی کے چچا زاد بھائی تھے اور نواسی کو اُنہوں نے اول دن سے امورِ خانہ داری سے الگ رکھا اور سارا دھیان ان کی تعلیم پر دیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ وہ اردو اور فارسی کی ماہر ہوئیں، دیوانِ حافظ کی عاشق تھیں، شیکسپئر سے لگاؤ تھا، غالب کو حفظ کر رکھا تھا، کلاسیکی عربی پڑھی اور دینیات کا مطالعہ کیا، ہندو اور زرتشت عقیدے کی الہامی کتابیں پڑھیں اور پختہ عمر میں ایک کتاب لکھی: ذکرِ محمدﷺ ویدوں اور پرانوں میں۔

مونا میر کو باغبانی کا بہت شوق تھا۔ ہارمونیم بجاتی تھیں۔ ابھی انتقال سے دو تین دن پہلے میں نے اپنی لکھی ہوئی بچوں کی ایک نظم کا متن فیس بُک پر لگایا اور لکھا کہ اس کے بول مشہور پشتو طرز کی بنیاد پر لکھے گئے ہیں۔ ذرا دیر بعد مونا میر کا پیغام آیا کہ انہوں نے یہ نغمہ اسی پشتو طرز کے ساتھ گنگنا کر پڑھا، بڑا لطف آیا۔ پرانے گانوں سے بہت لگاؤ تھا، سچ تو یہ ہے کہ پرانی زندگی کے رکھ رکھاؤ، سلیقہ مندی اور طور طریقوں کا ذکر کبھی بہت ہی خوش ہو کر اور کبھی بہت دکھی دل سے کرتی تھیں۔ کئی عقیدوں کا مطالعہ کر چکی تھیں اور کہا کرتی تھیں کہ یہ سب ایک ہی لڑی میں پروئے ہوئے ہیں۔ مذہبی منافقت سے اُنہیں چڑ تھی۔

آزادی کے بعد انہیں ہندوستان میں اپنا خاندان اور روایتی طرز زندگی چھوڑ کر پاکستان آنا پڑا مگر وہ گزرے ہوئے دن ان کے ذہن سے ایک روز بھی محو نہیں ہوئے۔ نئے پاکستان میں وہ سندھ یونیورسٹی کی طالب علموں کی یونین کی پہلی خاتون سیکرٹری منتخب ہوئیں۔ ان کی نواسیوں ساچا تالپور اور عالیہ تالپوری نے لکھا ہے کہ ہمارے خاندان کے زیادہ تر افراد کی طرح انہوں نے تنہا رہ کر سرگرم زندگی گزاری اور سختیاں بھی جھیلیں۔ پھر انہوں نے سندھ ہی کے میر تالپور سے شادی کی۔ ٹیکساس کی ذکیہ صدیقی نے بتایا کہ دونوں میاں بیوی وہاں کے سینئر گولڈن کلب کے ممبر تھے اور ہر مہینے کلب کے جلسے میں پابندی سے آتے تھے۔ دونوں کلب کی پکنک پر بھی جاتے تھے اور بہت لطف اندوز ہوا کرتے تھے۔ پھر میر صاحب بیمار رہنے لگے اور انتقال کر گئے۔ اس کے بعد مونا میر نے بھی کلب آنا بند کردیا۔ ذکیہ صدیقی کا کہنا ہے کہ انہیں اردو زبان سے بہت لگاؤ تھا اور ایک بار لندن کی اردو کانفرنس میں بھی گئی تھیں اور یہ کہ مونا میر کے پاس علم کی بہتات تھی، وہ ہر ایک سے کسی بھی موضوع پر دیر تک باتیں کرتی تھیں۔ ان کی باتوں میں ہمیشہ اودھ اور لکھنؤ کی بچھڑی ہوئی تہذیب کا دکھ نظر آتا تھا۔ مرحوم شوہر کا تعلق سندھ سے تھا جن کی سیاسی فکر سے وہ بھی متاثر تھیں۔

میں ان کی علم دوستی کا بہت قائل ہوں۔ میری تصنیف ’کتابیں اپنے آباء کی‘ شائع ہوئی اور اس پر تبصرہ ہوا تو بچوں کی طرح مچل گئیں کہ مجھے یہ کتاب کیسے ملے گی۔ میں نے لاہور میں اپنے پبلشر سے کہا کہ ساڑھے پانچ سو صفحوں کی یہ بھاری بھرکم کتاب امریکہ بھیجنے پر تو بہت خرچ آئے گا۔ پبلشر نے کہا کہ مونا میر کی خاطر ہمیں ڈاک خرچ کی پروا نہیں۔ کتاب انہیں ملی تو کھل اُٹھیں اور فوراً ہی پڑھنا شروع کردی۔

کبھی پرانے کھانوں، لباس، ضیافتوں، تیوہاروں اور رسموں کی بات ہوتی تو اس میں ایسے ایسے خوش گوار اضافے کرتیں کہ جی خوش ہو جاتا۔ خود کبھی نہیں بتایا لیکن ان کی نواسی نے لکھا ہے کہ بےنظیر بھٹو نے ان کی نانی سے پوچھا کہ کیا وہ اپنا پہلا الیکشن جیت کر وزیراعظم بن جائیں گی؟ اس پر مونا میر نے کہا کہ ہاں، مگر بعد میں بڑی مشکلیں ہوں گی۔ نواسی لکھتی ہے کہ ان کے حلقۂ احباب میں شاعر، مصنف، ڈراما نویس، صوفی گلوکار، مزاح نگار، اور سرگرم سیاست دانوں کا مجمع تھا اور میں ان کی گود میں بیٹھی ان لوگوں کی باتیں سنا کرتی تھی اور کچھ بھی سمجھ میں نہیں آتا تھا۔

یوں مونا میر، ہماری میمونہ سلطانہ گزرے وقتوں کی درخشاں یادیں لئے آج کی دنیا کے بکھیڑوں سے آزاد ہوئیں۔ کچھ بھی ہو، ہمیں یاد رہیں گی۔ ٹیکساس کے شاہد صدیقی بتاتے ہیں کہ انہیں مونا میر کا جو آخری پیغام ملا وہ یہ تھا کہ ’’ تمام بادشاہت ا ﷲ ہی کی ہے اور وہ ہی سُپر طاقت اور واحد القہار ہے، موجودہ حالات یہ ہی ثابت کرتے ہیں‘‘۔

(مونا میر جنوری 1938میں سیتا پور میں پیدا ہوئیں اور اپریل 2020کو ہیوسٹن، امریکہ میں وفات پائی)

تازہ ترین