اللہ خیر کرے ۔ 2008ء کے عام انتخابات سے قبل بے نظیر بھٹو کو شہید کر دیا گیا۔ مقصد انتخابی معرکے کو ملتوی کرانا تھا یا نہیں پاکستان اہم ترین سیاسی رہنما سے محروم ہو گیا ۔ چند ہفتوں کے التواء کے بعد انتخابات ہو گئے اور شہید کی جماعت نے حکومت بنالی ۔جس نے پانچ سال مزے کئے مگر ان کے قتل کے مقدمے کا فیصلہ پہلے ہی مرحلے یعنی ٹرائل کورٹ میں لٹکا رہا ۔ معلوم نہیں کتنے ماہ یا سال اس کے اختتام پذیر ہونے میں لگیں گے ۔ اب جونہی نئے انتخابات کا اعلان ہوا ہے اہم سیاسی رہنماؤں کے بارے میں سیکیورٹی خطرات کھل کر سامنے آ گئے ہیں ۔ دہشت گرد یا وہ عناصر جنھیں مختلف لیڈروں سے اپنا اپنا بدلہ لینا ہے اس تاک میں ہیں کہ ان پر کب حملہ کریں ۔ بے نظیر بھٹو نے جب پچھلے انتخابات سے کچھ ہفتے قبل آنے کا فیصلہ کیا تو بہت سے باخبر حضرات اور سیکیورٹی کے اداروں نے یہ وارننگ دی تھی کہ وہ دہشت گردی کا شکار ہو سکتی ہیں پھر ایسا ہی ہوا۔اکتوبر 2007ء میں وہ واپس وطن لوٹیں تو کراچی میں ان کے جلوس پر حملہ کیا گیا جس میں وہ تو بال بال بچ گئیں مگر ان کے سینکڑوں حامی شہید ہوگئے۔ بالآخر انہیں 27دسمبر 2007ء کو راولپنڈی کے لیاقت باغ میں شہید کر دیا گیا ۔ بے نظیر بھٹو نڈر لیڈر تھیں اور خطرات مول لینے سے نہیں گھبراتی تھیں۔ تاہم ان کی سیکیورٹی میں کچھ کمی رہ گئی جس کی وجہ سے وہ دہشت گردوں کا شکار ہو گئیں۔
ان کے فرزند بلاول نے کافی عقل مندی دکھائی ہے ۔ نئے انتخابات سے چند ہفتے قبل جو یقیناً ہرسیاسی جماعت کے لئے بہت ہی اہم ہیں ملک سے باہر چلے گئے ہیں ۔ اس وقت ان کی پاکستان سے غیر حاضری کی بہت سے وجوہات ہیں جن میں ایک سیکیورٹی خدشات ہیں ۔اس کے علاوہ ان کے اپنے والد صدر آصف علی زرداری اور ان کی بہن فریال تالپور سے کچھ مبینہ اختلافات ہیں ۔ حسب معمول پیپلزپارٹی نے ان کو بے بنیاد قراردیا ہے انہیں ایسا کرنا بھی چاہئے ۔ تاہم اس بات کا جواب اس جماعت میں کسی کے پاس نہیں کہ کون سے سنجیدہ اور خطرناک محرکات ہیں جنہوں نے بلاول کو ملک سے باہر جانے پر مجبور کیا جبکہ پیپلزپارٹی کو اپنی تاریخ میں سب سے بڑے بحران کا سامنا ہے اس وجہ سے کہ اس کے پاس کوئی ایک بھی مرکزی رہنما نہیں جو اس کی انتخابی مہم چلا سکے ۔ آصف زرداری تو اب ایوان صدر سے باہر نکلنے سے رہے کیونکہ وہ اپنے سرکاری منصب کی وجہ سے انتخابی مہم نہیں چلا سکتے ۔اگر انہوں نے ایسا کیا تو الیکشن کمیشن ایک دم حرکت میں آجائے گا اور انہیں کافی پیچیدگیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ۔ اس کے علاوہ عدالت عظمی اور لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے بھی موجود ہیں جو انہیں کسی ایک سیاسی جماعت کی حمایت کرنے سے سختی سے منع کرتے ہیں ۔ پیپلزپارٹی کے امیدوار اپنے اپنے حلقوں میں تو انتخابی مہم بڑے بھر پور انداز میں چلا لیں گے مگر قومی یا صوبائی سطح پر ان کے پاس کوئی بھی لیڈر نہیں جو کراؤڈ پلر ہو ۔ ہر انتخابات میں ہر سیاسی جماعت کے جلسے اس کے امیدواروں کی جیت میں اہم کردار ادا کرتے ہیں کیونکہ ان اجتماعات سے قومی اور صوبائی سطح پر ایک تاثر ابھرتا ہے کہ یہ سیاسی قوت کتنے پانی میں ہے ۔ ایسے وقت میں جب پیپلزپارٹی اپنی بدترین کارکردگی کی وجہ سے بہت ہی بد دل ہے اور اس کے رہنما اور کارکن مایوسی کا شکار ہیں اسے قومی سطح پر بھر پور انتخابی مہم کی اشد ضرورت ہے۔ اگر بلاول واپس وطن بھی آگئے اور الیکشن مہم چلانے بھی لگے تو بھی سیکیورٹی کی وجہ سے ان کا رول محدود ہی رہے گا ۔ کیونکہ وہ کھل کر انتخابی مہم نہیں چلا سکیں گے ۔
انتخابات کا اعلان کیا ہوا کہ اپنے اپنے وقت کے بڑے بڑے طرم خان برساتی کیڑے مکوڑوں کی طرح بیرون ملک اپنی موج مستی کو خیر باد کر کے واپس پاکستان سدھارے ۔ سابق وزیراعلیٰ سندھ ڈاکٹر ارباب غلام ر حیم جن کا بیرون ملک رہنا انتہائی مجبوری تھی کیونکہ پیپلزپارٹی ان کے پیچھے پڑی ہوئی تھی وہ بھی واپس لوٹ آئے ہیں۔ تاہم ان رہنماؤں میں سب سے اہم سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف ہیں بے چارے اب بھی اس خام خیالی میں مبتلا ہیں کہ وہ بڑے مقبول عوامی لیڈر ہیں ۔ ان کی سیاست اور انتخابی چانسزپر بات بعد میں ہو گی پہلے ذکر ہو جائے ان سخت خطرات کا جو ان کی جان کو ہیں ۔ ان کا پاکستان میں موجود ہونا ملکی خزانے اور سیکیورٹی اداروں جن کی ذمہ داریاں پہلے ہی کچھ کم نہیں پر بہت بڑا بوجھ ہے ۔ انہیں اپنا سابقہ منصب خصوصاً آرمی چیف کوپیش نظر رکھتے ہوئے ملک سے باہر ہی رہنا چاہئے تھا۔ انہوں نے خواہ مخواہ مختلف اداروں کو امتحان میں ڈال دیا ہے۔ ان کے آنے سے قبل تحریک طالبان پاکستان ان کو اڑانے کی دھمکی دے چکی ہے ۔ مرحوم نواب اکبر بگٹی کے ایک فرزند باربار اعلان کر چکے ہیں کہ وہ پرویز مشرف کو قتل کرنے والے کو اربوں روپے کا نقد انعام دیں گے ۔ اس کے علاوہ لال مسجد اسلام آباد میں شہید ہونے والوں کے وارثین اور دوسرے بے شمار افراد موجود ہیں جو سابق صدر کو ہٹ کرنا چاہتے ہیں ۔ ان کے دوست اور خیر خواہ بہت ہی کم ہیں جبکہ دشمن لامحدود ۔ ان تمام خطرات کے باوجود انہوں نے واپس آکر پھر کمانڈو بننے کی کوشش کی ہے جو سوائے بے وقوفی کے کچھ نہیں ۔انہیں ابھی تک احساس ہی نہیں ہوا کہ انہوں نے 12 اکتوبر1999 کو ملک کا آئین توڑا اور جمہوری حکومت کو برطرف کر کے مارشل لا لگایا اور پھر دوبارہ 3 نومبر 2007 کو آئین سبوتاژکیا ۔ سپریم کورٹ ان کے کئی اقدامات کو غیر آئینی قرار دے چکی ہے ۔ جن کے تحت وہ بڑی مشکل میں پھنس سکتے ہیں ۔ سیکیورٹی خدشات کی وجہ سے وہ شاید ہی کسی قسم کی کوئی انتخابی مہم چلا سکیں۔ ان کا زیادہ انحصار بند کمرے کی سیاست پر ہی ہو گا ۔ ان کی جماعت صرف ایک کوچوان پارٹی ہے جسے انتخابات میں کچھ بھی ملنے کا امکان نہیں ہے۔ شاید وہ مانگے تانگے کی ایک سیٹ اپنے لئے حاصل کرسکیں ۔جتنی جلدی وہ اپنے ذہن سے اپنی مقبولیت کاخمار نکال لیں اتنا ہی ان کے اپنے لئے اچھا ہو گا ۔ علاوہ ازیں انہیں بہت سے فوجداری مقدمات کا بھی سامنا ہے جن میں سب سے اہم بے نظیر بھٹو اور نواب اکبر بگٹی کے قتل کے کیسز ہیں ۔ تاہم ان کی وطن واپسی بھی اسی سیاسی سلسلے کی کڑی ہے جس کے تحت پاکستان تحریک انصاف کو پروموٹ کیا گیا اور بہت سے فصلی بٹیروں کو اس میں شامل ہونے کا حکم دیا گیا اور جس کے تحت شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہر القادری کینیڈا سے واپس آئے اور اپنے جوہر دکھاتے رہے۔ پھر یہ ڈرامہ ایسا فلاپ ہوا کہ اب کوئی اس کا ذکر بھی کرنے کو تیار نہیں ۔ڈاکٹر قادری اور پرویز مشرف کوئی سیاسی معرکہ تو نہیں مارسکیں گے مگر آئندہ حکومت کے لئے مشکلات پیدا ضرور کر یں گے اور ایسے حالات پیش کرنے کی کوشش کریں گے کہ ملک ایک بار پھر اپنے جمہوری سفر سے ڈی ریل ہو جائے ۔