کراچی (ٹی وی رپورٹ)سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے اٹھارہویں ترمیم تبدیل نہیں ہوسکتی کیونکہ یہ آئین کا حصہ بن چکی ہے، تبدیلی کے لئے علیحدہ سے بل لانا ہوگا ،نیب کو بھگتا ہے جانتا ہوں اس میں کیا خرابیاں ہیں۔
وفاقی وزیر بحری امور علی زیدی نے کہا کہ اسمارٹ لاک ڈاؤن دنیا بھر میں ہورہا ہے ہم بھی وہی چاہتے ہیں ، سندھ حکومت مثالیں باہر کی دیتی ہے یہ چاہتے ہیں یہاں لوگ بھوکے مرجائیں ، فیکٹری والے کہتے ہیں پیسے لے کر فیکٹریاں کھولنے دی جارہی ہیں ۔
صوبائی وزیر تعلیم سعید غنی نے کہا کہ ہماری خواہش رہی ہے کہ کورونا ایشو پر باہمی مشاورت سے ہر فیصلہ ہو جو بھی پالیسی بنے اس میں ساتھ چلیں ، ہمارے کسی اہلکار نے پیسے لئے ہیں تو فوری آگاہ کیا جائے ہم سخت کارروائی کریں گے ۔
تینوں رہنما جیوکے پروگرام’’ نیا پاکستان‘‘ میں گفتگو کررہے تھے ۔ پروگرام میں سابق چیئرمین پی سی بی عارف علی عباسی اور سابق ٹیسٹ کرکٹر باسط علی نے بھی گفتگو کی ۔
عارف علی عباسی نے کہا کہ جسٹس قیوم رپورٹ کی اہمیت نہیں جبکہ باسط علی نے کہاکہ مجھ پر لگایا گیا الزام بالکل جھوٹ ہے۔
وفاقی وزیر بحری امور علی زیدی نے کہا کہ آئین آسمانی صحیفہ نہیں ، کسی بھی وقت ترمیم کیا جاسکتا ہے ، یہ 18 ویں ترمیم پر لمبی لمبی پریس کانفرنس کررہے ہیں ،ہم اسمارٹ لاک ڈاؤن چاہتے ہیں جو دنیا بھر میں ہورہا ہے۔
سندھ حکومت مثالیں باہر ممالک کی دیتی ہے جیسے امریکا اور یورپ مگر ان کو انفراسٹرکچر ہیلتھ دیکھا ہے کہاں ہے جبکہ ہمارے ہیلتھ انفراسٹرکچر کا انہوں نے کیا حال کیا ہوا ہے مگر یہ چاہتے ہیں سخت لاک ڈاؤن یعنی لوگ بھوکے مرجائیں کچھ تو عقل کی بات کریں جہاں کھول سکتے ہیں وہاں پر نرمی کردیں۔
سندھ میں انہوں نے فیکٹریاں کھول دیں فیکٹری والے کہتے ہیں جی یہ پیسے مانگتے ہیں اور فیکٹری کھول دیتے ہیں سائیٹ ایریا اور کورنگی انڈسٹری ایریا کی کئی فیکٹریاں اس کی مثالیں ہیں ۔
اٹھارہویں ترمیم کے بعد کنٹرول تو لیں نہ تعلیم ان کے پاس ،صحت ان کے پاس، پولیس ان کے پاس ،لوکل باڈیز ، اندرون شہر کا انفراسٹرکچر ڈیولپمنٹ ان کے پاس اور پھر بھی رورہے ہیں ۔ مجھے یہ اپنی کارکردگی تو بتادیں ۔
علی زیدی کا شہزاد اقبال سے کہنا تھا کہ وہ کراچی آئیں یا فون کریں اور سائیٹ ایسوسی ایشن اور کاٹی ایسوسی ایشن کے رہنماؤں سے الگ ملاقات کرکے ان سے پوچھ لیں وہ آپ کو بتادیں گے ۔
صوبائی وزیر تعلیم سعید غنی نے کہا کہ ہم وفاق کوکورونا وائرس پھیلانے کا ذمہ دار قرار دے رہے ہیں،شروع سے ہی ہماری خواہش رہی ہے کہ کورونا ایشو پر باہمی مشاورت سے ہر فیصلہ ہو جو بھی پالیسی بنے اس میں ساتھ چلیں۔
26 فروری کو جب کورونا کا پہلا کیس کراچی میں رپورٹ ہوا تو ہم نے وفاق حکومت سے کہا کہ ایئرپورٹ کا کنٹرول ان کے پاس ہے وہ آنے والے مسافروں کی مکمل اسکریننگ کریں یا ہوسکے تو فلائٹس روک دیں مگر ایسا کچھ بھی نہ کیا گیا۔
جس کے بعد مجبوراً سندھ حکومت نے ایئرپورٹ پر اپنے لوگوں کو تعینات کیا جنہوں نے پراپر اسکریننگ کا آغاز کیا ، تقریباً چار لاکھ کے قریب لوگ پاکستان دیگر ممالک سے آئے یہ وہ مسافر تھے جن کی پراپر اسکریننگ نہیں کی گئی اور نہ ہی ان کا ڈیٹا لیا گیا یہی وجہ ہے کہ ہم وفاق کوکورونا وائرس پھیلانے کا ذمہ دار قرار دے رہے ہیں ۔
علی زیدی کے لگائے گئے پیسوں کے الزام پر سعید غنی نے کہا ایمپلائمنٹ فیڈریشن آف پاکستان کے صدر مجھ سے کہتے ہیں ہمارے پاس کوئی شکایت نہیں ہے جبکہ میں ان کو کہہ چکا تھا کہ اگر ان کے پاس ایسی کوئی شکایت ہو کہ ہمارے کسی اہلکار نے پیسے لئے ہیں تو فوری آگاہ کیا جائے۔
اگر ہم پیسے لے کر فیکٹریاں کھلواتے تو مالکان کو یہ نہیں کہتے کہ وہ انڈر ٹیکنگ لکھ کر دیں جبکہ سب سے زیادہ سخت ایس او پیز بھی ہمارے ہی ہیں ۔
میں علی زیدی سے کہتا ہوں کہ وہ مجھے اس کا نام بتائیں جس نے یہ کہا ہے اور جس نے پیسے لئے ہیں وہ اس کا نام بھی بتادیں میں خود آکر ٹی وی پر معافی مانگوں گا اور اس کے خلاف سخت ترین کارروائی بھی کریں گے ۔
پروگرام میں ایک موقع پر اس وقت ماحول تلخ ہوگیا جب سعید غنی نے کہا کہ اگر پوچھنا ہی ہے تو پھر کے پی ٹی کے چیئرمین کو بھی بلا کر پوچھ لیجئے گا جس پر علی زیدی نے کہا بالکل آپ بلالیں اور مجھے بھی بتائیں کہ میں نے کیا کیا ہے۔
بعد ازاں انہوں نے شہزاد اقبال سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ میں نے پروگرام سے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ مجھے ایسے لوگوں کے ساتھ گفتگومیں نہ بٹھائیں جو ڈرگس کی اسمگلنگ میں ملوث ہوں ۔
شہزاد اقبال کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ دونوں مہمانوں کو آن لائن لینے کا مقصد یہی تھا کہ اگر کوئی اختلاف ہے تو اس پر بات کی جاسکے کیونکہ جب آپ لوگ نیشنل ایکشن کمانڈ اینڈ سینٹر میں بیٹھتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ بڑا اچھا وہاں پر ایک اتحادہے مکمل ہم آہنگی کے ساتھ فیصلے ہورہے ہیں اختلاف رائے کے باوجود ایک کورآرڈی نیشن ، کمیونیکشن نظر آرہی تھی لیکن جو ماحول اس وقت ہے اس کے بعد پتہ نہیں یہ کورآرڈی نیشن ، کمیونیکشن کس حد تک جاری رہتی ہے ۔
مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان میں اس وقت جو بحث ہورہی ہے وہی بحث پوری دنیا میں ہورہی ہے حتیٰ کہ ترقی یافتہ ممالک میں بھی یہی بحث ہورہی ہے کہ کورونا وائرس کی وجہ سے جو لاک ڈاؤن ہوا ہے وہ کتنا عرصہ جاری رہ سکتا ہے ۔ لاک ڈاؤن سے تنگ آئے لوگ امریکا میں اسلحہ لے کر سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔
صدر ٹرمپ چاہتے ہیں کہ لاک ڈاؤن میں نرمی ہو مگر وہ ریاستیں جہاں ان کے مخالفین کی حکومت ہے وہ چاہتی ہیں کہ لاک ڈاؤن میں نرمی نہ کیا جائے جس کی وجہ سے ان ریاستوں میں لوگ بطور احتجاج باہر نکل آئے ہیں اور کاروبار کھولنے کا مطالبہ کررہے ہیں ۔