یہ کوئٹہ ریلوے اسٹیشن ہے۔ بلوچستان کا مصروف ترین ریلوے اسٹیشن مگر لاک ڈائون کے سبب خاموش ریل گاڑیاں اسٹیشن پر کھڑی ہیں۔ کوئی وِسل، کوئی مسافر کچھ بھی نہیں، دور دور تک صرف قلی ہیں۔ اُن کے کندھے سامان اُٹھانے کے انتظار میں بوجھل ہو چکے ہیں۔ چہرے اُترے ہوئے ہیں۔ ہفتوں سے اُنہوں نے کسی مسافر کی شکل نہیں دیکھی۔
وہ جنہیں دیکھ کر اُن کے جسموں میں بجلی کی رو دوڑنے لگتی تھی۔ یہی مسافر اُن کی زندگی تھے۔ یہی ان کا روزگار تھا۔ وہ اس وقت اپنے درمیان چھ فٹ کا فاصلہ رکھ کر پلیٹ فارم پر بیٹھے ہوئے ہیں۔ ان کے شہر کے ایم این اے، بلوچستان میں عمران خان کا نمائندۂ خصوصی، پی ٹی آئی کی نوجوان قیادت، ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم خان سوری اُن میں راشن اور چیکس تقسیم کررہے ہیں۔
کورونا کی وجہ سے پوری دنیا پریشان ہے مگر عمران خان لاک ڈائون کے سبب کہ میرے غریبوں کا کیا ہوگا۔ یقیناً انہیں پریشان ہونا چاہئے۔ بارہ ہزار روپے میں کوئی غریب فیملی کتنے ہفتے گزار سکتی ہے۔ غریب روز بروز غریب تر ہوتے جا رہے ہیں۔ وہ سوچتے ہیں کہ ہم کورونا سے بچ گئے تو ہمیں بھوک لے ڈوبے گی۔ لاک ڈائون اشرافیہ کی ضرورت ہے۔
اگر کورونا کے مریض بڑھ گئے تو وہ کہاں سے علاج کرائیں گے۔ پہلے امریکہ اور انگلینڈ چلے جاتے تھے۔ اب وہاں بھی موت کا راج ہے۔ بےشک اس وقت ضرورت ہے کہ صرف حکومت ہی نہیں، ہر شخص اپنی استطاعت کے مطابق غریبوں پر خرچ کرے۔ اشرافیہ اپنے گھروں میں ڈری ہوئی ہے۔
دن میں بیسیوں مرتبہ سینی ٹائیزر سے اپنے ہاتھ صاف کرتی ہے۔ کوئی غریب دروازے پر آجائے تو اُس کا استقبال صرف رکھوالی کے کتے کرتے ہیں۔ ایسے میں قاسم خان سوری بھی ہیں جنہوں نے پہلے اپنے بھائی بلال خان کے ذریعے راشن تقسیم کرایا اور پھر خود اسلام آباد چھوڑ کر کوئٹہ چلے گئے۔
جب لوگ تفتان بارڈر کے قرب و جوار سے بھاگ رہے تھے، قاسم سوری اسی سمت رواں دواں تھے۔ جہاز نہیں اڑ رہے تھے وہ اسلام آباد سے بائی روڈ کوئٹہ پہنچے۔ کوئٹہ کے سرداروں اور نوابوں کا بھی وہی حال تھا جو باقی اشرافیہ کا ہے۔ اس وقت اکیلا قاسم خان سوری شہر کے درمیان میں کھڑا تھا۔ صرف ذاتی طور پر ہی نہیں بلکہ جہاں جہاں بھی کوئی تعلق تھا وہاں وہاں فنڈریزنگ کی، تاکہ علاقے کے غریبوں کی بھرپور امداد ہو سکے۔
اس وقت تک وہ بےشمار افراد کو مالی مدد فراہم کر چکے ہیں اور راشن بھی۔ انہوں نے صرف یہ نہیں کیا کہ کوئی مانگنے آئے اس کی مدد کی جائے بلکہ علاقہ کے تمام غریب لوگوں کی ان کے گھروں میں امداد کی گئی۔ دہشت گردی کی وجہ سے شہید ہونے والے پولیس اہلکاروں اور عام لوگوں کی فیملیز کو بھی راشن اور رقوم فراہم کی گئیں۔
وہ تمام مزدور جن کا کام لاک ڈائون کی وجہ سے ختم ہو چکا تھا ان سب کی باقاعدہ فہرستیں مرتب کی گئیں اور ان کے گھروں میں ٹائیگر فورس کے ذریعے راشن پہنچایا گیا۔ اس ساری کارروائی میں سب سے زیادہ خطرہ اس بات کا تھا کہ کہیں کسی مستحق کے ہاتھوں کورونا وائرس تقسیم کرنے والوں میں نہ منتقل ہو جائے۔ جب سے کورونا کا سلسلہ شروع ہوا انہیں دو مرتبہ ٹیسٹ کرانا پڑا۔ الحمدللہ منفی آیا ہے۔
پہلی مرتبہ انہیں یورپ سے آئے ہوئے ایک مہمان کی وجہ سے اور دوسری مرتبہ کوئٹہ میں راشن کی تقسیم کے دوران کورونا کے کسی مریض کے سبب۔ اگر اسلام آباد آ گئے ہوتے تو تیسری مرتبہ اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کی وجہ سے بھی کرانا پڑ جاتا۔ اسد قیصر کے بقول انہیں قومی اسمبلی کے لفٹ مین سے ہاتھ ملانےکے سبب کورونا کا وائرس لگا۔ لفٹ والا واقعی کورونا کا مریض نکلا۔ قومی اسمبلی مکمل طور پر بند کرنا پڑ گئی۔
اس وقت کورونا ملک میں بڑی تیزی سے پھیل رہا ہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات شبلی فراز نے کہا ہے کہ مکمل لاک ڈائون کا فارمولا ناکام ہو گیا ہے۔ ہم مکمل لاک ڈائون کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ کہتے تو وہ ٹھیک ہیں مگر سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم یورپ کی طرح پاکستان میں کورونا پھیلنے کے متحمل ہو سکتے ہیں۔ صورتحال یہ ہے کہ 1مارچ کو پاکستان میں کورونا کے 5کیس تھے۔ 1ایریل کو 2291کیس تھے اور1مئی کو 17037تھے۔
اگر اسی تناسب سے کورونا بڑھتا چلا گیا تو کیا ہوگا۔ ایک سوال یہ بھی ہے کہ مکمل لاک دائون نہ کریں تو پھر کیا کریں؟۔ کورونا کیسے کنٹرول کیا جائے گا۔ عمران خان نے بل گیٹس سے بھی فون پر بات کی ہے۔ وہ اپنے ایک اخباری بیان میں کہہ چکا ہے کہ ’’پاکستان، بھارت اور اس جیسے دوسرے ملکوں میں کورونا کے کم کیسز سامنے آنا غیریقینی بات ہے۔
ان ممالک میں کم کیسز کی وجہ ٹیسٹ کی محدود صلاحیت اور لوگوں کا ٹیسٹ سے گریز ہو سکتی ہے۔ کچی آبادیوں میں وسیع پیمانے پر وبا کے پھیلائو کا خدشہ ہے‘‘۔
بےشک لاک ڈائون، معاشی پسماندگی اور غربت میں اضافہ کا سبب ہے مگر کوئی دوسرا حل ابھی تک انسانی ذہن نہیں سوچ سکا۔ عالمی ادارہ صحت نے بھی کہا ہے کہ ممالک آہستہ آہستہ اور احتیاط سے لاک ڈاؤن میں نرمی ضرور کریں مگر کورونا وائرس کے دوبارہ سر اٹھانے پر پابندیاں لگانے کے لئے تیار بھی رہیں۔
مجھے نہیں لگتا کہ لاک ڈائون میں کوئی نرمی کی جا سکےگی۔ اس وقت حکومت کو چاہئے کہ وہ اپنے ہر ایم این اے کو ہر وزیر کو کہے کہ قاسم خان سوری کی طرح وہ اپنے اپنے علاقوں میں غریب خاندانوں کی مدد کا سلسلہ شروع کریں۔ اپنے علاقہ کے مخیر حضرات سے فنڈ جمع کریں اور ضرورت مندوں تک پہنچائیں۔
اگر پاکستان کے تمام ایم این ایز اور ایم پی ایز قاسم سوری کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے کورونا کا مقابلہ شروع کریں تو پھر اس حکومت کو کورونا پر فتح مند ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔