ایک طویل کٹھن اور صبر آزما جدوجہد کے بعد جب 1970میں بلوچستان کو صوبے کا درجہ ملا تو عام بلوچستانی کا یہ خیال تھا کہ اب سب دکھ درد دور ہوں گے اور ماضی کی زیادتیوں کا ازالہ ہوگا لیکن کیا ہوا، کیوں ہوا اور اس 50سال پر محیط عرصے میں کس وفاقی حکومت کا رویہ ہمدردانہ یا کس کا قبضہ گیری والا رہا۔ 70کی دہائی میں جب پیپلز پارٹی نے اقتدار سنبھالا تو ملک بڑے مسائل سے دوچار تھا۔ جلد ہی صوبے میں مزاحمتی تحریک شروع ہو گئی۔ تاہم پیپلز پارٹی لیڈر شپ نے بلوچستان میں تعلیم کو فوکس کیا۔ ایک دور اندیش لیڈر کی حیثیت سے ذوالفقار علی بھٹو کو تعلیم کی اہمیت کا پتا تھا۔ انہوں نے بلوچستان کے دور افتادہ علاقوں میں ہائی اسکول اور انٹر کالجز بنوائے۔ پھر آمریت کا دور شروع ہوتا ہے لیکن اس دور کا تعلیم کے میدان میں کوئی قابلِ ذکر کارنامہ نظر سے نہیں گزرا۔ آمریت کے دن ختم ہوئے اور کہنے کو جمہوری حکومتوں نے اپنا سفر شروع کیا۔ آج اگر آپ عام بلوچستانی سے مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کی حکومتوں کے بارے میں رائے لیں تو ہر ایک یہ کہے گا کہ پیپلز پارٹی بلوچستان کی زیادہ ہمدرد رہی ہے جبکہ مسلم لیگ نون نے وفاقی جماعت کے بجائے ایک بڑے صوبے پر زیادہ سے زیادہ توجہ دی اور ہمیشہ بلوچستان میں نیم حکیم کے ذریعے حکومت کی ہے۔ پیپلزپارٹی کے دور میں این ایف سی ایوارڈ ہوا اور اس میں بلوچستان کا حصہ بڑھانے کا تاریخی فیصلہ کیا گیا۔ آغازِ حقوقِ بلوچستان کا تمام تر کریڈٹ بھی پیپلز پارٹی کو جاتا ہے۔ اگر بطور صوبہ بلوچستان کو کبھی مالی نقصان ہوا ہے تو وہ دور مسلم لیگ نون کی حکومت کا تھا جس نے بلوچستان کی غربت، محرومیوں، پسماندگی کے باوجود اسے ساتھ لے کر چلنے والی نظر سے کبھی نہیں دیکھا بلکہ سی پیک جیسا گیم چینجر منصوبہ، جس کا بلوچستان کے بغیر تصور ہی ناممکن ہے ،اس کے منصوبوں سے بلوچستان کو بلیک آوٹ کرنے کا کریڈٹ بھی مسلم لیگ نون نے اپنے نام کرایا ہے۔ بلوچستان کے زمینی حقائق سے بےخبر حکیموں نے ہمیشہ اسلام آباد میں بیٹھ کر خط و کتابت کے ذریعے یہاں کے ہر مرض کا علاج کرنے کی کوشش کی ہے اور ان حکیموں سے جب کبھی بالمشافہ ملاقات ہوتی ہے تو انکی باتیں سن کر آپ کو ہنسی آتی ہے۔ یہ ایسی بات کرتے ہیں جیسے وہ مریض کے اہلِ خانہ میں سے ہوں۔ یہیں سے مریض اور حکیم کے درمیان دوری اور ایک خلا جنم لیتا ہے اور یوں ایک دوسرے پر شک کا اظہار ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ ان حکیموں کو یا تو یہ معلوم نہیں یا یہ دانستہ طور پرمرض کا علاج نہیں کرنا چاہتے ہیں حالانکہ مرض کا علاج بہت آسان اور شافی ہے۔ بلوچستان میں جنرل ریٹائرڈ ناصر خان جنجوعہ جیسے عوامی نفسیات کے ماہر جنرل کو جب کمانڈر سدرن کمانڈ کوئٹہ لگایاگیاتو انہوں نے ایک بہترین عوامی کردار ادا کیا اور عوام میں ایسے گھل ملے کہ آج بھی بلوچستان کے لوگ ان کو یاد کرتے ہیں لیکن پھر ایسا سلسلہ بھی تھم سا گیا ہے۔ تاہم تعلیمی اسکالرشپس اور تعلیم پر توجہ دینے میں سابق آئی جی ایف سی اور موجودہ کمانڈنٹ کمانڈ اینڈ اسٹاف کالج میجر جنرل ندیم احمد انجم کی تعلیم کی فروغ کیلئے خدمات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے کہ ان کے دور میں ایف سی نے بلوچستان كکے سینکڑوں طلبا و طالبات كکو اسکالر شپ بھی دی ہیں اور عوامی رابطہ بھی قائم رکھا۔ بلوچستان میں پسماندگی کا خاتمہ تعلیم کو عام کیے بغیر ممکن نہیں ہے آپ کو سن کر شاید حیرت ہو کہ باقی اضلاع تو دور صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں سرکاری تو کجا ایسا کوئی پرائیویٹ اسکول یا کالج نہیں کہ جس پر والدین کو مکمل اعتماد ہو۔ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے صوبے کی تعلیمی پسماندگی کے پیشِ نظر بلوچستان کے اسکولوں کے بچوں اور بچیوں کو دیگر صوبوں کے بچوں اور بچیوں کے ساتھ اعلیٰ ترین تعلیمی اداروں میں سرکاری خرچ پر تعلیم کی سہولت فراہم کی۔ اس سہولت سے دوریاں بھی کچھ کم ہوئیں اور انہیں باہم میل جول سے ایک دوسرے سے سیکھنے اور پرکھنے کا موقع ملا۔ وزیراعظم پروگرام برائے ہونہار طالبعلم بلوچستان ایک انتہائی قابلِ ستائش اقدام تھا۔ جس کے تحت بلوچستان کے ہر ضلع سے کلاس ششم کا امتحان پاس کرنے والے چار طلبااور ایک طالبہ کو مقابلے کا امتحان پاس کرنے کے بعد حکومتی اخراجات پر ملک بھر کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں داخلہ دیا جاتا تھا اور یوں ہر سال بلوچستان کے دور دراز اضلاع سے 150طلبا و طالبات کو ملک کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں وفاقی حکومت کے خرچے پر تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کا سلسلہ شروع کیا گیا جن کے کلاس ہفتم سے لے کر ایف ایس سی تک کے تمام اخراجات وفاقی حکومت کے ذمے تھے جس کے تحت پانچ سال میں 750طلبا و طالبات کو بھیجا گیا، پروگرام کے تحت وفاقی حکومت نے ناصرف تمام تعلیمی اخراجات کا ذمہ لیا بلکہ انکو جہاز کے سالانہ دو ریٹرن ٹکٹ اور 15سو روپے ماہانہ پاکٹ منی بھی دی جاتی تھی۔ میاں نواز شریف اقتدار میں آئے تو اسے مزید وسعت دینے کے بجائے اس پروگرام کو نہ صرف بند کیا بلکہ جاری پروگرام کے اخراجات بھی کم کردیے۔ یوں وفاق اور بلوچستان میں مزید ہونہار سفارت کاروں کی سفارت کاری ایک خود پسند سوچ نے ختم کردی۔ یوں بلوچستان پھر تعلیمی پسماندگی کی جانب کھسکنے لگا۔ آج اگر آپ سروے کریں تو معلوم ہوگا کہ بلوچستان کے 99فیصد طلبا مقابلے کے امتحانات میں شرکت کے لیے لاہور کا انتخاب کرتے ہیں۔ ایسا کیوں ہے۔ غالباً اس لیے کہ یہاں کوئی تعلیمی ادارہ اس معیار کا نہیں ہے۔ ہمارے حکمرانوں نے تعلیم کو کبھی سنجیدگی سے لیا ہی نہیں اور جس نے کچھ کوشش کی اسے آگے بڑھانے کے بجائے ختم کر دیا گیا اور بلوچستان میں سالانہ 150اعلیٰ ترین سفارت کاروں کیلئے وفاقی حکومت کے پاس سالانہ 18کروڑ روپے بھی نہیں ہیں۔