سپریم کورٹ میں کورونا وائرس سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر اسرار احمد کی باتیں آج سچ ثابت ہو رہی ہیں، انہوں نے 20 سال پہلے آج کے حالات بتا دیے تھے۔
چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد نے سپریم کورٹ میں کورونا وائرس سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی۔
دوران سماعت انہوں نے کہا کہ ہمارے ملک کا ایک حصہ ہم سے چلا گیا کچھ حصوں میں آگ لگی ہے۔ اگر ہم زکوٰۃ، صدقات اور فطرانہ کھا جائیں گے تو پھر کیا ہو گا، ہم کس طرف جا رہے ہیں؟
چیف جسٹس گلزار احمد نے سیکرٹری صحت سے سوال کیا کہ کیا آپ حاجی کیمپ کے قرنطینہ سینٹر گئے تھے؟ جواب میں انہوں نے کہا کہ جی میں وہاں گیا تھا، وہاں بیڈز اور پانی موجود تھا لیکن بجلی نہیں تھی۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ حاجی کیمپ کو قرنطینہ سینٹر کس نے بنایا؟جس کے جواب میں سیکرٹری صحت نے کہا کہ حاجی کیمپ کو قرنطینہ سینٹر این ڈی ایم اے نے بنایا تھا۔
سماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے کہا کہ این ڈی ایم اے کی رپورٹ آئی ہے لیکن اُن کا کوئی نمائندہ عدالت میں موجود نہیں ہے۔
سپریم کورٹ کی جانب سے این ڈی ایم اے کے حکام کی عدم موجودگی پر برہمی کا اظہار کیا گیا۔ چیف جسٹس نے سوال کیا کہ ڈسٹرکٹ ایڈمنسٹریشن کی طرف سے کون آیا ہے؟
ڈپٹی کمشنر اسلام آباد حمزہ شفقات سپریم کورٹ میں پیش ہو ئے، چیف جسٹس نے اُن سے سوال کیا کہ حاجی کیمپ کو قرنطینہ مرکز کس نے بنایا؟ جواب میں انہوں نے کہا کہ این ڈی ایم اے نے بنایا تھا ہم نے صرف مسافروں کو دو مرتبہ کھانا دیا تھا۔
چیف جسٹس گلزار احمد نے ڈی سی اسلام آباد پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے دفتر میں بیٹھ کر قرنطینہ مرکز بنا دیا، کوئی سہولیات مہیا ہی نہیں کیں، آپ لوگ کر کیا رہے ہیں؟
چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ کیا سارے ادارے ایسے ہی کام کر رہے ہیں؟ آپ لوگ اربوں روپے خرچ کر رہے ہیں لیکن کسی کو معلوم نہیں کہ ہو کیا رہا ہے؟کسی چیز میں شفافیت نظر نہیں آ رہی، کورونا اخراجات کا آڈٹ کروایا جائے گا تو پتہ چلے گا اصل میں ہوا کیا ہے۔
چیف جسٹس گلزار احمد سیکریٹری صحت پر شدید برہم ہوئے اور کہا کہ وائرس کی دنیا کے مختلف ممالک میں مختلف شکلیں ہیں ، امریکی اور یورپی کورونا وائرس زیادہ خطرناک ہے، وہاں اس خطرناک وائرس سے ہزاروں اموات ہو رہی ہیں۔
چیف جسٹس گلزار احمدنے کہا کہ آپ امریکا سے ہمارا موازنہ کیوں کررہے ہیں،یہ بالکل نہ کریں۔
دوران سماعت جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ کوئی صوبہ پالیسی کے ساتھ نہیں آیا۔ آپ نے مساجد کھول دیں ،تاجر کہہ رہے ہیں آپ نمازیں پڑھائیں ہمیں بھوکا مار دیں ۔ انہوں نے کہا کہ آپ کے معیار الگ الگ ہیں،جس شعبہ سے ڈرتے ہیں اسے کھول دیتے ہیں۔
جسٹس سجادعلی شاہ نے کہا کہ کسی جگہ پر ریگیولیشنز پرعملدر امد نہیں ہو رہا، حکومت نے مارکیٹس بند کرکے مساجد کھول دیں، پورے ملک میں ابتر حالت ہے۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ اسلام آباد میں کتنے شاپنگ مالز ہیں؟ ان میں کتنی دکانیں کرائے پر ہیں؟کتنے ملازمین کام کرتے ہیں؟ شاپنگ مالزمیں سامان کی تقسیم سے کتنے لوگ وابستہ ہیں؟
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ شاپنگ مالز سے وابستہ تمام کام رک گیا ہے۔
انہوںنے مزید کہا کہ سندھ حکومت پالیسی بنانے کی بجائے صنعتیں کھولنے کی اجازت دے رہی ہے، سمجھ نہیں آرہا ملک میں کیا ہورہا ہے۔لگتا ہے وفاق اور صوبائی حکومتیں عوام کے خلاف سازش کر رہی ہیں، ملک میں مکمل طور پر استحصال ہورہا ہے۔
سیکرٹری صحت نے بتایا کہ روزانہ 10 ہزار افراد کے کورونا ٹیسٹ ہو رہے ہیں، جن میں سے ایک ہزار افراد میں کورونا پازیٹو آرہا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کوئی یکساں حکمت عملی نہیں ہے، ایک وزیر کچھ کہہ رہا ہوتا ہے تو دوسرا کچھ کہتا ہے۔ انہوںنے کہا کہ ایک صوبائی وزیر کہتا ہے وزیراعظم کے خلاف پرچہ درج کرائیں گے ، یعنی صوبائی وزیر کا دماغ بالکل آوٹ ہے،دماغ پر کیا چیز چڑھ گئی یہ پتہ نہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ وفاقی حکومت کی پالیسی صرف 25 کلومیٹر تک محدود ہے۔
دوران سماعت ایڈوکیٹ جنرل پنجاب نے کہا کہ صوبائی حکومتوں نے تمام کاروباری مصروفیات روک دیںہیں۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ صوبوں کو ایسے کاروبار روکنے کا کوئی اختیار نہیں جو مرکز کو ٹیکس دیتے ہیں۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ایسا کرنے کے لیے مرکز کی اجازت ضروری تھی، کیا پنجاب نے مرکز سے ایسی کوئی اجازت لی؟ اگر اجازت نہیں لی گئی تو صوبوں کے ایسے تمام اقدامات غیر آئینی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومتیں صرف وہ کام رکوا سکتی ہیں جو ان کے دائرہ اختیار میں آتے ہوں۔
اٹارنی جنرل خالد جاویدنے اس پر کہا کہیہ معاملہ مرکز اور صوبوں کے درمیان تناؤ کا نہیں ہےبلکہ اس معاملے پر مرکز اور صوبے مل بیٹھ کر فیصلے کر رہے ہیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ نیشنل کوارڈینیشن کمیٹی میں اتفاق رائے سے فیصلے ہو رہے ہیں،صورتحال میں سب تعاون کر کے چل رہے ہیں۔ یہ انتظامی معاملہ ہے اسے سیاستدانوں پر چھوڑ دیا جائے، سیاسی قیادت اس حوالے سے فیصلے کر رہی ہے۔
سماعت کے دوران جسٹس قاضی امین نے کہا کہ کیا عدالت یہ نہیں پوچھ سکتی کہ صورتحال خراب کیوں ہو رہی ہے؟ اس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ عدالت اس بارے میں ضرور پوچھ سکتی ہے۔
جسٹس قاضی امین نے مزید کہا کہ ہم آئینی سوالات پوچھتے رہیں گے چاہے باہر بیٹھے لوگ جو مرضی سوچتے رہیں۔انہوں نے کہا کہ
پرسوں پنجاب میں سب سے زیادہ اموات ہوئیں۔