فلموں میں ایک ہی شکل کے دو انسانوں کا ایک ہی فریم میں موجود نظر آنا، یقیناً کسی وقت میں ایک ناظر کے لیے یہ نہایت حیران کن بات ہوتی تھی، لیکن اب ٹیکنالوجی اس قدر ترقی کرچکی ہے کہ یہ عمل ثانوی سا ہوکر رہ گیا ہے، لیکن ڈبل رول کا فارمولا دنیا بھر کی فیچر فلموں میں آج بھی نافذ العمل ہے۔ گو کہ ڈبل رول تکنیک سے تھیٹر کا عنصر تو وقت کے ساتھ ساتھ کم ہوتا گیا، لیکن دل چسپی کا عنصر ہنوز برقرار ہے۔ پاکستان میں پہلی ڈبل رول فلم ہدایت کار امین ملک کی ’’پنجرہ‘‘ 1981ء تھی، جس میں امین ملک نے خود ہی ڈبل رول پلے کیا تھا، جب کہ خواتین فن کارائوں میں سب سے پہلے لیجنڈری فن کارہ صبیحہ خانم کو پاکستانی فلم میں ڈبل رول پلے کرنے کا اعزاز حاصل ہوا۔
فلم تھی ہدایت کار این۔ای اختر کی ’’مسکراہٹ‘‘، لیکن صبیحہ خانم کی ڈبل رول پر مبنی بہترین پرفارمنس کی حامل فلم ’’پاک دامن‘‘ 1969ء کو قرار دے سکتے ہیں کہ جس میں انہوں نے ایک رول شریف خاتون خانہ کا ادا کیا، تو دوسرا رول ایک جرائم پیشہ گینگ کی لیڈی باس کا نبھایا۔ ہدایت کار حسن طارق نے لیڈی باس کے گیٹ اپ پر خاص توجہ صرف کرتے ہوئے صبیحہ خانم کو رنگین کونٹیکٹ لینسز استعمال کروائے۔
دوم ان کی وِگ اور ملبوسات بھی مغربی طرز کا تھے ۔ ان تمام چیزوں سے مل کر صبیحہ خانم کے اس کردار کا لُک بہت ہی متاثرکن بنا دیا۔ پلس ان کی یادگار پرفارمنس نے ان کے اس کردار کو ناقابل فراموش اہمیت کا حامل کردیا۔ اس کے برعکس ان کا دوسرا کردار ایک سمٹی ہوئی، سہمی ہوئی خاتون کا تھا۔ مونا لیزا کی مسکراہٹ والی ’’دبیا خانم‘‘ وہ دوسری خاتون فن کارہ تھیں، جنہیں ڈبل رول کرنے کا موقع ملا۔ فلم تھی ہدایت کار شباب کیرانوی کی ’’آئینہ‘‘ 1966ء یہ دو ہم شکل جڑواں بہنوں کی کہانی تھی۔ سلور اسکرین کی مایہ ناز فن کارہ شمیم آرا نے 1967ء کی ریلیز ہدایت کار خواجہ خورشید انور کی آرٹسٹک تخلیق ’’ہمراز‘‘ میں پہلی بار ڈبل رول پلے کیا۔
یہ ڈبل رول بھی دو جڑواں بہنوں کی تمثیل پر مبنی تھا، بالخصوص دمے کی مریضہ شمیم آرا نے جو کارکردگی پیش کی، اس کے لیے اتنا ہی لکھ دینا کافی ہے کہ پاکستان میں جب بھی خواتین فنکارائوں کی ڈبل رول پرفارمنس کا ذکر ہوگا تو ’’ہمراز‘‘ کی شمیم آرا کا ذکر ان میں نمایاں اور ناگزیر ہوگا۔ شمیم آرا نے دوسری بار 1968ء کی ریلیز ’’صاعقہ‘‘ میں بھی ڈبل رول پلے کیا۔ یہ ماں اور بیٹی کے کرداروں پر مبنی ڈبل رول تھا۔ پاکستانی سنیما کی حسین ترین باصلاحیت ، شائستہ اور پروقار فن کارہ دیبا بیگم نے ہدایت کار ایس۔ایم یوسف کی ’’سہاگن‘‘ ہدایت کار لقمان کی ’’پرچھائیں‘‘ اور ہدایت کار ایس۔ٹی زیدی کی ’’چوری چوری‘‘میں دہرے کردار ادا کیے۔خُوب صورت فن کارہ آسیہ مرحومہ نے پہلی بار 1971ء میں ہدایت کار رنگیلا کی سپرہٹ پلاٹینم جوبلی تخلیق ’’دل اور دنیا‘‘ میں ڈبل رول پلے کیا۔
ہدایت کار ایس۔ٹی زیدی کی ’’بے ایمان‘‘ میں آسیہ دو ہم شکل جڑواں بہنوں کے روپ میں اپنی تمام تر توانائیوں کے ساتھ پرفارم کرتی نظر آئیں۔ ہدایت کار ایم۔اے رشید کی گولڈن جوبلی فلم ، نوکر ’’تم سلامت رہو‘‘ 1974ء میں ایک طرف محمد علی کی محبوبہ تھیں تو دوسری جانب وحید مراد کی محبوبہ! محمد علی کی محبوبہ کا کردار تو مختصر تھا، لیکن دوسرا شازیہ نامی کردار کی ادائیگی میں آسیہ نے اپنی بہترین صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا۔ 1976ء کی ریلیز ہدایت کار حیدر چوہدری کی پنجابی تخلیق ’’شوکن میلے دی‘‘ میں وہ قوی خان کی بیوی کے مختصر اور بیٹی کے مفصل ٹائٹل رول میں جلوہ گر ہوئیں اور شان دار کارکردگی دکھائی۔ رانی بیگم نے متعدد بار ڈبل رول ادا کیے، جن میں ’’ناگ منی‘‘ 1978ء ’’اک گناہ اور سہی‘‘ 1975ء ’’ناگ اور ناگن‘‘ 1976ء ’’پرکھ‘‘ 1978ء اور ’’ترانہ‘‘ 1979ء شامل ہیں۔ رانی بیگم نے ہر بار اپنے دہرے کرداروں میں اپنے فن کے بہترین مظاہر پیش کیے، فلم ’’ناگ منی‘‘ ،’’اک گناہ اور سہی‘‘ بھی کچھ کم نہیں تھی، لیکن ’’ناگ منی‘‘ کو کسی نہ کسی اعتبار سے تھوڑی بہت برتری ضرور حاصل ہے۔
ہدایت کار حسن طارق کی فلم ’’سیتا مریم مارگریٹ‘‘ میں بھی رانی نے اپنا ڈبل رول عمدگی سے نبھایا۔ پاکستانی سینما کی مقبول ہیروئن ’’شبنم‘‘ نے ہدایت کار آفاقی کی ’’آبرو‘‘ 1974ء ہدایت کار اختر یوسف کی ’’ساون آیا تم نہیں آئے‘‘ اورایس سلیمان کی ’’زینت‘‘ 1975ء میں ڈبل رول پرفارمنس دیں اور اب ذکر اُس مایہ ناز وراسٹائل فن کارہ کا کہ جن کے حصے میں بہ طور ہیروئن سب سے زیادہ ڈبل رول کی حامل فلمیں آئیں۔ جی ہاں! بابرہ شریف، جنہیں سب سے پہلے نذرشباب کی شان دار ڈراما مووی ’’شبانہ‘‘ 1976 میں دو ہم شکل جڑواں بہنوں کے رُوپ میں پیش کیا گیا۔1977ء کی ریلیز حسن عسکری کی معرکۃ الآرا تخلیق ’’سلاخیں‘‘ میں بابرہ ہم شکل ماں اور بیٹی کے ڈبل رول میں جلوہ گر ہوئیں۔
علاوہ ازیں ہدایت کار ظفر شباب کی ’’بیٹی‘‘ہدایت کارہ شمیم آرا کی ’’مس ہانگ کانگ‘‘ اور ’’مس سنگاپور‘‘، ہدایت کار شباب کیرانوی کی ’’لاجواب‘‘ اور ہدایت کار ایس سلیمان کی ’’تیرے بنا کیا جینا‘‘ میں بھی بابرہ شریف نے دُہرے رول بڑی محنت، کام یابی اور جاں فشانی سے ادا کیے۔ خُوب صورت اور کام یاب فن کارہ ’’ممتاز‘‘ نے ہدایت کار اقبال یوسف کی ’’جینے کی راہ‘‘ ہدایت کار اقبال اختر کی ’’شرمیلی‘‘ 1978ء اور ہدایت کار نذر شباب کی ’’خوشبو‘‘ 1979ء میں ڈبل رول ادا کیے۔ رنگین فلموں کی شہزادی ’’نِشو‘‘ نے دو فلموں ’’کبڑا عاشق‘‘ 1973ء اور دل کے داغ 1978ء میں ڈبل رول ادا کیے۔