• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج شروع کرتے ہیں شرافت بلکہ شرفا یعنی شہباز سے جس کی ’’اسٹیبلشمنٹی‘‘ پر خاصی لے دے ہوئی۔ اس پر مجھے تھوڑی حیرت ہے کیونکہ ’’قائدِ عوام‘‘ ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر سیون سٹار نظریاتی نواز شریف، گزشتہ کل سے لے کر آج اور آنے والے کل تک کون یہ دعویٰ کر سکتا ہے یا کر سکے گا کہ وہ ہر قسم کے سیاسی و غیرسیاسی وینٹی لیٹرز سے ماورا تھا، ہے اور ہوگا صرف پاکستان نہیں پوری دنیا میں اسٹیبلشمنٹ زمینی حقائق کی ماں ہے اور پاور پلے کی زندہ حقیقت۔ فرق ہے کہ کہیں اس کا رول ذرا رف اور کہیں انتہائی ری فائنڈ ہوتا ہے اور یہ کوئی عجوبہ نہیں کیونکہ اگر کائنات سے لے کر گھروں تک میں بھی ایک ’’اسٹیبلشمنٹ‘‘ ضروری ہے تو اس کھیل میں کیوں نہیں؟ آپ اسے ’’ڈیپ سٹیٹ‘‘ کہیں یا ’’خلائی مخلوق‘‘ جیسی اصطلاح استعمال کریں لیکن یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو کسی نہ کسی شکل میں ہمیشہ موجود ہوتی ہے اور آئندہ بھی موجود رہے گی، اس کی شکل اور رویوں کی تبدیلی اک علیحدہ بات ہے کیونکہ ’’ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں‘‘

اصولاً تو شہباز شریف کو اس دیانتداری اور حقیقت نگاری پر داد ملنی چاہئے تھی لیکن ہم تو وہ لوگ ہیں جو سرعام یہ کہنے سے بھی نہیں چوکتے کہ....دعا کرو کہ سگنل دیکھ کر ٹریفک رک جائے اور ٹیچر کو دیکھ کر طالب علم کی گردن جھک جائے حالانکہ ایسی باتوں کا تعلق دعائوں سے نہیں، ادائوں اور اچھی بری عادتوں کے ساتھ ہوتا ہے لیکن یہاں تو ’’ہم الٹے، یار الٹا، بات الٹی‘‘ والی بات ہے۔ یہ سب دعا نہیں، تربیت کا کیس ہے کہ نام نہاد صالحین اور پڑھے لکھے بھی ٹریفک سگنل کی سنتے نہیں اور طلبہ اپنے اساتذہ کو دیکھ کر گردن جھکانے کے بجائے اساتذہ کے گریبان پکڑتے ہیں اور اگر ذرا سیاسی ہوں تو گریبان پھاڑنے تک سے باز نہیں آتے۔ دعا کی قبولیت کے پیچھے بھی کسی نہ کسی شکل میں کسی نہ کسی قسم کا میرٹ ہونا ضروری ہے کہ رازق پرندوں کو بھی رزق دیتا ہے لیکن ان کے گھونسلوں میں نہیں پہنچاتا ہے۔

میں جو سر بہ سجدہ ہوا کبھی تو زمیں سے آنے لگی صدا

ترا دل تو ہے صنم آشنا تجھے کیا ملے گا نماز میں

لیکن ہماری تو دنیا ہی نرالی ہے اور شاید اسی لئے ’’ترقی پذیر‘‘ دنیا کہلاتی ہے ورنہ بندہ پوچھے کہ جو دعائیں مانگتے ہی نہیں، وہ کیسے ٹریفک سگنلز کے آداب سیکھ جاتے ہیں اور وہ بھی اس سطح پر کہ نصف شب کا وقت ہو، آگے پیچھے دائیں بائیں دور دور تک کسی گاڑی کا نام و نشان تک نہ ہو لیکن ڈرائیور سرخ بتی دیکھ کر گاڑی روک لے۔ تربیت اور تعلیم تو ہمیں بھی یہی دی گئی اور صدیوں پہلے دی گئی کہ دعائوں کے ساتھ خندقوں کی کھدائی بھی انتہائی ضروری ہے لیکن .....لیکن کے بعد میرے پر جلتے ہیں بہرحال بات چلی تھی شہباز شریف کی حقیقت بیانی سے کہ عوام اور ووٹ کی عزت اپنی جگہ لیکن اسٹیبلشمنٹ کی بھی تو اک اپنی جگہ ہے کہ نہیں؟ نہیں تو یہ ایسا ہی ہے جیسے کبوتر بلی کو دیکھ کر آنکھیں موند لے۔

قارئین کو یاد ہو گا کہ کچھ عرصہ پہلے تک میرا فیورٹ ترین تکیہ کلام یہ تھا کہ اگر ووٹ کی عزت کے ضیاء الحقی پاسبانوں کو نادیدہ ڈنڈے کا ڈر نہ ہوتا تو یہ لوگ پاکستان کو ’’پاکستان ہائوزنگ (ہائوسنگ غلط ہے) سوسائٹی ڈیکلیئر کر کے اس کو پلاٹوں کی شکل میں بیچ دیتے۔ آخری بات یہ کہ اسٹیبلشمنٹ ہے کس کی؟ اسرائیل کی ہے؟ بھارت کی ہے؟ یا پھر اپنی؟ ’’اپنی‘‘ ہے تو اسے اپنی سمجھو کہ لگاموں کے بغیر گھوڑے بےسمت ہوتے ہیں۔ گھروں میں بھی بچے کتنے ہی ہوں، ان کی پرواز اور اڑان جیسی بھی ہو، وہ جتنے بھی ’’آزاد‘‘ ہو جائیں....بوڑھے ماں باپ یا دادا دادی کی شکل میں بھی اک اسٹیبلشمنٹ ضرور ہوتی ہے۔ یہاں مجھے بلونت سنگھ کا اک فسانہ یاد آ رہا ہے جس کا مرکزی کردار اک ایسا منہ زور اتھرا جوان ہے جس کی طاقت اور دہشت دور دور تک پھیلی ہوتی ہے۔ دوسری طرف اس کا بوڑھا باپ ہے جو اتنا بیمار کمزور ہے کہ بستر سے اٹھ نہیں سکتا لیکن جب اسے اپنے تند خو تن آور بیٹے کی کوئی شکایت ملتی ہے تو وہ اسے اشارے سے بلاتا اور جھکنے کا اشارہ کرتا ہے تاکہ اس کے منہ پر دو چار چپت رسید کر کے، کمزور سی آواز میں، سرگوشی کے انداز میں اسے سرزنش کرتے ہوئے وارننگ دے سکے کہ خبردار! آئندہ ایسی شکایت نہ آئے۔

بات بہت ہی علامتی قسم کی ہے، افسانہ بھی شاید بلونت سنگھ کا نہ ہو اور شاید میں ٹھیک سے بتا بھی نہیں پا رہا لیکن حقیقت یہی ہے کہ پاکستان ہو یا امریکستان ....اسٹیبلشمنٹ ہر جگہ ہوتی ہے اور سیاست دان، سیاست دان ہوتا ہے جسے دولتیاں جھاڑنے کے بجائے کچھ اور سوچنا چاہئے۔ سچ تو یہ کہ ’’اسٹیبلشمنٹ‘‘ تو سلاطین اور مطلق العنان بادشاہوں کے زمانوں میں بھی ہوا کرتی تھی۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)

تازہ ترین