آپ نے اکثر سنا ہوگا کہ رپورٹر ایک لفظ ’’ذرائع‘‘ بار بار استعمال کرتا ہے، یہ پسِ پردہ موجود وہ لوگ ہوتے ہیں جنہوں نے رپورٹر کو خبر یا وہ خفیہ معلومات دی ہوتی ہے۔ ایک معروف کالم نگار ذرائع کی جگہ ’’چڑیا‘‘ کا لفظ استعمال کرتے تھے تو حسبِ عادت ہم اپنے ’’موکل‘‘ پر انحصار کرتے ہیں۔
چند روز قبل فرصت کے لمحات ایک ایسی محفل میں گزارنے کو ملے جہاں ایک نہیں کئی موکل موجود تھے، ان میں چوہدری برادران سے متعلق گفتگو شروع ہوئی تو ایک موکل کا کہنا تھا کہ چوہدری برادران نے لاہور ہائیکورٹ میں نیب کو چیلنج کر دیا ہے اور پٹیشن میں موقف اختیار کیا ہے کہ ان کیخلاف تین کیس ہیں اور نیب انہیں طلب کر رہا ہے، اسلئے انکو بند ہو جانا چاہئے۔
پٹیشن جب جسٹس فاروق حیدر اور جسٹس سردار احمد نعیم پر مشتمل دو رکنی بنچ کے پاس آئی تو ہائیکورٹ بار کے صدر طاہر نصراللہ وڑائچ نے اعتراض اٹھایا کہ جسٹس فاروق حیدر نے کئی کیسوں میں چوہدری برادران کی نمائندگی کی ہے جس پر جسٹس فاروق حیدر نے اس کیس سے علیحدگی اختیار کرلی جبکہ جسٹس سردار احمد نعیم نے اسکی سماعت کیلئے پیر 11مئی کا دن مقرر کیا۔ دوسرے موکل نے دعویٰ کیا کہ اسکے پاس اس سارے کیس کا پسِ منظر ہے سو ہم نے ساری توجہ اس موکل کی جانب کر لی۔
اسکے بقول چوہدری برادران نے آمدن سے زائد اندرون و بیرون ملک جائیدادوں کے کیس کو ختم کرانے کیلئے ہائیکورٹ سے رجوع کیا ہے۔ مشرف دور میں نیب نے تشکیل کے بعد مختلف سیاستدانوں کے اثاثوں کی تحقیقات کیں تو چوہدری برادران کی پاکستان میں ہی نہیں بلکہ ہانگ کانگ، سنگاپور، دبئی اور اسپین میں بھی اچھی خاصی جائیدادوں کا انکشاف ہوا اور انہی معلومات کی بنیاد پر نیب نے چوہدری برادران کو طلب کر لیا۔ جب چوہدری برادران نے پرویز مشرف کے ہاتھ پر بیعت کی تو پرویز مشرف نے انہیں یقین دلایا کہ فائلوں میں کچھ بھی نہیں، آپ موجیں کریں۔
پرویز مشرف کے بعد چوہدری برادران نے زرداری صاحب کا اتحادی بن کر ’’ڈنگ ٹپایا‘‘، اسکے بعد میاں نواز شریف کی حکومت آئی تو صبر و شکر سے یہ پانچ سال بھی گزر گئے، اب تحریک انصاف کی حکومت بن گئی۔ 2018-19 میں نیب نے انہی کیسز پر چوہدری برادران کو طلب کیا جو جنرل پرویز مشرف کے دور میں بنے تھے اور آخری بار طلبی 2019ءکے اوائل میں ہوئی۔
اطلاعات یہ بھی ہیں کہ 14فروری کو چیئرمین نیب نے حکم دیا کہ بلاوجہ کیس کو مت لٹکایا جائے اگر کیس میں کچھ نہیں تو اسے بند کر دیں۔ اب دل دھڑکانے والی خبریں یہ بھی ہیں کہ نیب نے ایک بار پھر ان چار ممالک کو خطوط لکھے ہیں جن میں چوہدری برادران کی جائیداد سامنے آئی ہے اور اگر ان ممالک سے کوئی بھی دستاویز مل جاتی ہے تو نیب کو اس کیس میں متحرک ہونا پڑے گا۔
ایک دوسری خبر یہ بھی ہے کہ چیئرمین نیب جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کو نیب حکام نے ایک رپورٹ پیش کی ہے جسکے مطابق چوہدری برادران کو نیب کے کسی بھی دفتر سے نوٹس جاری نہیں کیا گیا اور نہ ہی انہیں بذریعہ ٹیلی فون بلایا گیا ہے۔ اب معلوم نہیں کورونا وائرس کے موجودہ حالات میں چوہدری برادران کو عدالت سے رجوع کرنے کا خیال کیوں آیا یا شاید چوہدری برادران کو یہ لگتا ہے کہ ان کو دبانے کیلئے یہ کیس کھولا گیا۔
اسی دوران ایک موکل نے چوہدری پرویز الٰہی سے جہانگیر ترین کی قربتوں کا پنڈورا باکس کھول دیا لیکن آغاز اسی نکتہ سے کیا کہ چوہدری برادران اس لئے عدالت گئے ہیں تاکہ نیب ان سے مت پوچھے۔ ہائیکورٹ سے رجوع کا بھی ایک پسِ منظر ہے۔
کیس تو آمدن سے زائد اثاثوں کا ہے، اگر نیب کے پاس اس حوالے سے دستاویزات موجود ہیں اور آنیوالے دنوں میں مزید آ جاتی ہیں تو چوہدری برادران کیلئے بڑی دقت ہو گی، دوسری طرف چوہدری برادران اور شریف خاندان میں اب قربتیں بڑھ رہی ہیں۔
اس موکل کے مطابق جہانگیر ترین کے چوہدری خاندان سے تعلقات بہت اچھے اور گہرے ہیں۔ دوسرے موکل کے مطابق عمران خان سیاست کے ساتھ ساتھ اب ریاستی داؤ پیچ بھی سمجھ چکے ہیں اس لئے انہوں نے شوگر کے بجائے اب کپاس اور گندم کی اجناس کی طرف فوکس کیا ہے تاکہ لوگوں کو روزگار ملے، ایکسپورٹ سے پاکستان کو فائدہ ہو۔ اگر ایسا ہو گیا تو وہ ہر سال سیزن میں جو اربوں روپے شوگر مل مافیا کی جیب میں جاتے ہیں، اس کا کیا بنے گا۔
مختصر یہ کہ اب ایک طرف نیب کو اس وقت روکنا بہت ضروری ہے کیونکہ نیب نے چینی اور آٹا اسکینڈل پر بھی کام شروع کر دیا ہے۔
اب یہ بقا کی جنگ ہے، 78شوگر ملوں کے مالکان کی اور اُن کے مدِمقابل وزیراعظم عمران خان اور نیب ہیں۔ موکل کا کہنا تھا کہ چوہدری برادران اس صورتحال میں سمجھتے ہیں کہ اگر ایسا ہوا تو سیاستدانوں کا بڑا نقصان ہوگا کیونکہ جہانگیر خان ترین کا اگر فرانزک آڈٹ مکمل ہو جاتا ہے تو اس میں بہت سارے شرفا کے نام آجائینگے اور یہ چیزیں تقریباً عمران خان کے سامنے آچکی ہیں اور اب انہوں نے فیصلہ لینا ہے، اسلئے وزیراعظم عمران خان کے راستے میں رکاوٹ ڈالنا بہت ضروری ہے۔
چونکہ چوہدری برادران کو نیب نے نوٹس نہیں دیا اور وہ بذاتِ خود عدالت سے رجوع کرکے حکومت پر دباؤ بڑھانا چاہتے ہیں تو اس کے بعد کی بات سمجھنے میں کوئی دشواری نہیں ہونی چاہئے۔