کورونا وائرس کی وبا کے باعث دنیا بھر میں لوگوں کے معمولات زندگی بری طرح متاثر ہیں۔رمضان المبارک کا بابرکت مہینہ شروع ہوچکا ہے، دنیا بھر میں مسلمان اپنے رب کی رضا کے لیے اس فرض عبادت کو خشوع و خضوع سے ادا کرتے ہیں۔اس سال کورونا وائرس کی وجہ سے دنیا کے زیادہ تر ممالک میں لاک ڈاون اور ایمرجنسی کے حالات ہیں جس کی وجہ سے ان حالات کا اثر یقیناً مسلمان کمیونٹی پر ضرور پڑا ہے، کیونکہ دیگر مذاہب کی عبادت گاہوںکی طرح مساجد میں تالا لگادیا گیا اور اعلان کیا گیا کہ مساجد میں نماز نہیں ہو گی ،اپنے اپنے گھروں میں نمازیں ادا کریں ۔
یورپی ممالک میں مقیم مسلم کمیونٹی اس ماہ صیام میں سخت تذبذب کا شکار نظر آ رہی ہے کیونکہ مساجد میں جانے کی اجازت نہیں اور نہ ہی کسی کو سحری کھانے کے بعد باہر پارک یا میدانوں میں جانے کی اجازت ہے ۔ یہ لاک ڈاون اور ایمرجنسی کے حالات پیدا کرنے کی اصل وجہ یہی ہے کہ کسی طریقے سے کورونا وائرس کو پھیلنے سے روکا جائے اور دنیا اس میں کامیاب بھی ہوئی ہے کیونکہ اسپین میں اس وقت متاثرین کے اندراج اور شرح اموات میں پچاس فیصد سے بھی کمی آئی ہے اور اس کی وجہ لاک ڈاون اور ایمرجنسی ہی ہے ،کیونکہ ابھی تک کوئی بھی ملک کورونا وائرس کی ویکسین ایجاد نہیں کر سکا ، اس کاعلاج نا ممکن ہونے کی وجہ سے لاک ڈاون اور ایمرجنسی ہی واحد حل تصور کیا گیا ۔
ہسپانوی حکومت نے مختلف زبانوں میں ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر اعلان کیا ہے کہ کوئی شخص سحری کے وقت باہر نہیں نکلے گا ، مسلم کمیونٹی اس سال ماہ صیام میں بھی اپنے گھروں میں ہی نمازادا کرے گی ، نماز فجر سے لے کر تراویح تک گھروں میں ہی رہنے کی تلقین کی گئی ہے ، حالانکہ کورونا وائرس کی تباہ کاریوں سے پہلے اسپین میں مقیم مسلم کمیونٹی کی زیادہ تعداد کی وجہ سے نماز تراویح کے لئے کھلے میدان ، پارک یا اسکول کےگراونڈز مہیا کئے جاتے تھے کیونکہ ہسپانوی انتظامیہ چاہتی تھی کہ مسلم کمیونٹی سر عام اور کھلے میدانوں میں اپنے رسم و رواج اور اسلامی شعار کے مطابق عبادت کر سکیں، اس موقعے پر مقامی انتظامیہ اور سیکیورٹی ادارے بھی مسلمانوں کی حفاظت کا بندوبست کرتے تھے اور جب تک عبادت ختم نہ ہو جاتی تب تک وہ پہرہ دیتے تھے ۔
اس وقت اسپین میں مقیم پاکستانی اور دوسرے اسلامی ممالک سے تعلق رکھنے والی کمیونٹیز گھروں میں رہ کر ہی روزے رکھ رہی ہے اور اسی طرح نماز عید کے لئے بھی فی الحال اجازت نہیں دی گئی کیونکہ نماز عید میں رش ہوتا ہے اور ساتھ ساتھ کھڑے ہونے کی وجہ سے مقامی کمیونٹی کو پریشانی ہے کہ اس طرح کورونا وائرس مزید پھیلنے کا اندیشہ ہے ۔ا سپین میں روز مرہ کی اشیاء خریدنے کے لئے تھوڑی سہولت دی گئی ہے لیکن جب آپ باہر نکلتے ہیں تو آپ کے پاس باہر نکلنے کی وجہ ضرور ہونی چاہیئے کیونکہ اگر آپ انتظامیہ کو پوچھنے پر مطمعین نہیں کر سکے تو آپ کو بھاری جرمانہ ادا کرنا پڑے گا جو تین سو سے لے کر تیس ہزار یورو تک بھی ہے ۔
اس حوالے سے پاکستانی سفارت خانوں اور قونصل خانوں نے بھی اپنی کمیونٹی کو بتایا ہے کہ رمضان المبارک میں ہم نے کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا۔ اس ضمن میں قونصلیٹ جنرل آف پاکستان بارسلونا میں ایک سیمینار بھی ہوا جس میں پاکستانی کمیونٹی کو اسپین میں وفات پا جانے والوں کی میتوں کو پاکستان پہنچانے کے لئے اسپیشل فلائٹس کے اجراء اور دوسرے معاملات کے بارے میں آگاہی دی گئی ، قونصل جنرل بارسلونا عمران علی چوہدری نے اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے کمیونٹی کے سوالوں کے جواب بھی دیئے اور انہیں بتایا کہ ہم کس طرح پاکستانی میتوں کو وطن عزیز بھیجیں گے ۔
قونصل خانہ بارسلونا میں مختلف تنظیموں اور پاکستانی بزنس کمیونٹی نے ضرورت مند پاکستانیوں کے لئے راشن بھی کثیر تعداد میں رکھا ہوا ہے ،جو قونصل جنرل بارسلونا کی ٹیم پاکستانیوں کے گھروں تک پہنچاتی ہے ۔اسی طرح پاکستانیوں کے مختلف سیکٹرز جن میں بزنس سیکٹر ، پاکستان ٹیکسی سیکٹر اور دوسرے شعبے شامل ہیں نے مل کر ضرورت مند پاکستانیوں کے گھروں میں رمضان پیکج راشن پہنچایا ہے تاکہ لوگ باہر نہ نکلیں اور گھروں میں ہی رہ کر روزے رکھیں اور افطار کا اہتمام بھی اپنے اپنے گھروں میں کریں۔
قونصل جنرل بارسلونا عمران علی چوہدری نے پاکستانی کمیونٹی سے کہا ہے کہ وہ ہسپانوی قانون کا احترام کریں ، اس وقت ہسپانوی باشندے ہزاروں کی تعداد میں وفات پا چکے ہیں اس کے باوجود مقامی انتظامیہ ہماری سہولت کے لئے ہر اقدام کر رہی ہے ہمیں بھی چاہیئے کہ ہم مقامی انتظامیہ کے اعلانات کو غور سے سنیں اور اُن کا احترام کریں کیونکہ اس میں ہم سب کی بچت ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اگر کسی کو کوئی مسئلہ ہو تو قونصل خانے کے دروازے سب کے لئے بلا امتیاز کھلے ہیں ۔