مسجد الحرام اور مسجد نبوی ﷺمیں رمضان المبارک کے پہلے جمعے کے موقعے پرفرزندان اسلام نے نماز سے قبل خانہ کعبہ کا طواف کیا- جمعرات اور جمعہ کی شب خانہ کعبہ کے اطراف حفاظتی رکاوٹیں ہٹا دی گئی تھیں- نماز ادا کرنے والوں میں دونوں مقدس مساجد کی انتظامیہ کےارکان، سیکیورٹی اہلکار اور کارکنان شریک ہوئے-مسجد الحرام مکہ مکرمہ میں جمعہ کا خطبہ امام و خطیب حرم شیخ ڈاکٹر سعود الشریم نےدیا- انہوں نے رمضان المبارک کی اہمیت، فضیلت اور عالم اسلام میں اس کے مقام و رتبے پر روشنی ڈالی-دوسری جانب مسجد نبوی میں رمضان کا پہلا جمعہ شدید حفاظتی اقدامات کے ماحول میں ادا کیا گیا-مساجد میں جمعہ اور فرض نمازوں کی پابندی کے فیصلے کے بعد پہلی بار مسجد نبوی میں جمعہ کی نماز ادا کی گئی-
اس پابندی سے مسجد الحرام اور مسجد نبوی مستثنی رکھی گئی ہیں- مسجد نبوی میں گزشتہ برسوں کے مقابلے میں اس سال افطار دستر خوان نہیں لگایا جارہا ہے، اس کے بجائے مدینہ منورہ گورنریٹ کی نگرانی میں رمضان راشن ضرورت مند خاندانوں میں تقسیم کیا جارہا ہے، خادم حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبد العزیز نے دنیا کے 18 ممالک میں کم وبیش 10 لاکھ روزہ داروں کو افطار کرانے کے لیے مختص بجٹ میں اضافے کی منظوری دیدی ہے، امسال اس مد میں مختص رقم کو بڑھا کر 50 لاکھ ریال کردیا گیا ہے۔
منصوبے کے تحت 18ممالک کے سعودی سفارتخانوں اور اسلامی مراکز کی نگرانی میں مستحقین کو غذائی پیکٹ تقسیم کیے جائیں گے، دوسری جانب آب زم زم پروجیکٹ کا سیل پوائنٹ جو کورونا وائرس کی وجہ سے 16 مارچ 2020 کو عارضی طور پر بند کردیا گیاتھا، زم زم پروجیکٹ اور نیشنل کے واٹر درمیان معاہدہ ہوگیا ہے، کورونا سے احتیاطی تدابیر کے تحت مملکت میں آب زم زم گھروں میں فراہم کرنے کا آغاز کیاجارہا ہے۔سربراہ پروجیکٹ کمیٹی شیخ ڈاکٹر عبدالرحمان السدیس نے آب زم زم منصوبے کا افتتاح کیا۔ گھروں میں آب زم زم پہنچانے کا آغاز مکہ مکرمہ سے کیا گیا ہے۔ بعد ازاں منصوبے کو ملک گیر سطح پر وسعت دی جائے گی ۔
رمضان المبارک کی آمد کے موقع پہ خادم حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے سعودی عوام، تارکین وطن اور امت مسلمہ کے نام مبارکباد کا پیغام جاری کیا ہے، جسے قائم مقام وزیر اطلاعات و نشریات ڈاکٹر ماجد القصبی نے ریڈیو اور ٹی وی پر یہ پیغام پڑھ کر سنایا جس میں شاہ سلمان نے کہا کہ آزمائش کی گھڑی میں ہمیں ٹھوس جدوجہد جاری رکھنا ہوگی اور حفاظتی اقدامات کی پابندی کرتے رہنا ہوگی۔امسال رمضان کا مہینہ ایسے حالات میں آرہا ہے جبکہ دنیا بھر کے انسان تاریخ کے نہایت مشکل، نازک اور خطرناک بحران سے گزر رہے ہیں ۔
نیا کورونا وائرس پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہے حالانکہ انسانیت نواز تنظیمیں اور دنیا بھر کے ممالک اس کو پھیلنے سے روکنے کے لیے حفاظتی اقدامات کا اہتمام کررہے ہیں- خادم حرمین شریفین نے کہا کہ مساجد میں تراویح اور نماز باجماعت ادا نہ کرنے پرہمیں دکھ ہے۔ ہم زائرین کی خدمت اور میزبانی کو اپنے لیے باعث فخر سرمایہ سمجھتے ہیں۔
ہم حج، عمرہ اور زیارت پر آنے والوں کی خدمت اور ان کے آرام و راحت کا اہتمام کرتے رہے ہیں اور آئندہ بھی کرتے رہیں گے۔ کورونا وائرس کو پھیلنے سے روکنے کے لیے ،حفاظتی اقدامات سعودی عوام، مقیم غیرملکیوں اور دنیا بھر کے انسانوں کی صحت و سلامتی کی خاطر کیے گئے ہیں انہوں نے کہا کہ سعودی عرب کورونا کی وبا سے ہونے والے اقتصادی نقصانات کی تخفیف میں اپنا حصہ ملکی و عالمی ہر سطح پر ڈال رہا ہے۔
لاک ڈاؤن کے ساتھ ساتھ روزہ داروں کی سہولت کے لیے سعودی وزارت بلدیات و دیہی امورنے رمضان کے دوران سہ پہر تین بجے سے صبح تین بجے تک مزید دکانیں کھولنے کی اجازت دی ہے-آئسکریم، مشروبات پیش کرنے والی دکانیں، کافی شاپ، تازہ جوس فراہم کرنے والی دکانیں، مٹھائیاں، چاکلیٹ اور ریٹیل میں فروخت کرنے والی دکانیں شامل ہیں-یاد رہے کہ سعودی حکومت نے جن ریستورانوں اور نئی دکانوں کو کرفیو کے دوران کاروبار کی اجازت دی ہےاس کا تعلق ہوم ڈلیوری سروس سے ہے- اس مرتبہ مملکت کے مختلف شہروں میں سماجی دوری کی وجہ سے رمضان گزشتہ برسوں سے مختلف ہے،کورونا بحران کی وجہ سے نہ صرف یہ کہ مشرق و مغرب کے ممالک بلکہ مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ ریاض،جدہ اور دیگر شہروں کا منظر نامہ بدلا ہوا ہے-
سعودی میڈیا نے لکھا ہے کہ رمضان کے دوران مکہ مکرمہ میں کچھ ایسے رواج اور رسمیں دیکھنے میں آتی تھیں جن کا اس سال کوئی نام و نشان نہیں- رمضان کے رسم و رواج کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ اہل مکہ کی پہچان ہیں-کنگ عبدالعزیز اکیڈمی کے تحت مکہ مکرمہ ہسٹوریل سینٹر کے ڈائریکٹر ڈاکٹر فواز الدھاس نے بتایا کہ دنیا کے دیگر ملکوں کی طرح ہمارے یہاں بھی کورونا کی وبا ڈیرہ ڈالے ہوئے ہے- سعودی شہری وبا کو پھیلنے سے روکنے کے لیے صحت حکام کی مقرر کردہ پابندیوں کا احترام کر رہے ہیں-انہوں نے کہا کہ ہمیں احساس ہے کہ کورونا عالمی وبا ہے۔
اس سے نمٹنے کی ذمہ داری حکومت ہی کی نہیں بلکہ اس سرزمین پر آباد ہر انسان کی ہے-الدھاس کا کہنا تھا کہ کورونا کو پھیلنے سے روکنے کے لیے تمام شہری اور مقیم غیرملکی گھروں میں رہیں- وبا سے بچنے کی خاطر قیادت کے احکام کی تعمیل میں سب لوگ گھروں میں ہیں اور مساجد کا رخ نہیں کر رہے ہیں-الدھاس نے بتایا کہ اہل مکہ کی عادت تھی کہ وہ رمضان میں خاندان کے بزرگ کے یہاں جمع ہوتے- ایک رسم یہ تھی کہ اہل مکہ رمضان بھر رت جگے کرتے، جہاں انفرادی، خاندانی اور ملکی مسائل پر گفت و شنید ہوتی۔
ایک رواج یہ تھا کہ مکہ مکرمہ کے تمام محلوں بلکہ ہر گھر میں رنگ برنگے شمع دان سجائے جاتے- رواں سال ان رسموں میں سے کوئی ایک بھی نہیں کی جا رہی ہے-دوسری طرف سعودی وزارت صحت کےترجمان العبد العالی نے کہا ہے کہ نئے کورونا وائرس سےمتاثرین میں 25 فیصد سعودی اور 75 فیصد غیرملکی ہیں-وزارت صحت کے ترجمان نے ایک پریس بریفنگ میں کورونا صورتحال کے حوالے سے بتایا کہ آئندہ مرحلے میں کورونا وائرس سے صحت یاب ہونے والوں کی تعداد میں حوصلہ بخش اضافہ ہوگا- اس کی بدولت اللہ کے فضل و کرم سے ہم اس وباء سے نجات پا جائیں گے۔
سعودی حکام کی مختلف 17 اہم اداروں پہ مشتمل انسداد کورونا کمیٹی کی سفارش پر سعودی عرب میں کرونا کی وبا پھیلنے سے روکنے کے جہاں دیگر اقدامات کیے گئے وہیں غیرملکی لیبر کو بھی اس بیماری سے بچانے اور لیبر کیمپوں میں روکنے کے لیے موثر اقدامات کیے گئے ہیں۔ سعودی حکومت کی طرف سے لیبرکی رہائش گاہوں کی ذمہ دار کمیٹی کی طرف سے صنعتی علاقوں میں غیرملکی لیبر کو ان کی قیام گاہوں سے نکال کر سرکاری اسکولوں کی عمارتوں میں منتقل کردیاگیا تاکہ ان میں سماجی دوری پیدا کرکے کرونا کی وبا کی روک تھام موثر بنایا جاسکے۔
لیبر کی رہائش سے متعلق امور پر نظر رکھنے والی کمیٹی کے چیئرمین جمعان الزھرانی نے عرب میڈیا کو بتایا ہے کہ صنعتی اور ٹیکنیکل شہروں کے لیے قائم کردہ اتھارٹی نے 29 ہزار غیرملکی ملازمین کے لیے معقول رہائش گاہوں کا فوری بندو بست کیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ 4000 غیرملکی ملازمین کو جدہ کے 45 اسکولوں میں رکھا گیا۔ حکام کی جانب سے ان اسکولوں میں باقاعدگی کے ساتھ معائنہ کیا جاتا ہے اور اب تک 300 بار ان کی دیکھ بھال کے لیے حکام دورے کرچکے ہیں۔اسی طرح دمام، ریاض اور دیگر شہروں میں بھی اسی طرح کے انتظامات کئے گئے ہیں۔
حکومت کی طرف سے ہر فیکٹری اور کو اپنے ملازمین کو بنیادی حفاظتی ضروریات کے لیے 48 گھنٹے کے لیے اندر تمام وسائل مہیا کرنے کی تاکید کی گئی یے۔ ان میں سے بیشتر نے مثبت جواب دیا مگر بعض نے اس پہ عمل درآمد نہیں کیا۔ بیشتر کمپنیوں نے اپنے ملازمین کے لیے کارخانے سے باہر قیام گاہیں قائم کیں اور ان کی صحت کی حفاظت کے لیے انظامات کئے گئے ہیں۔