• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج کل نیب ترمیمی آرڈیننس کی مجوزہ تیاری کے حوالے سے مختلف بازگشت کا سلسلہ جاری ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ دودھ کی رکھوالی پہ پہلے صرف بلے کو بٹھایا گیا تھا، اب تو دودھ کی تقسیم و تحلیل پر بھی لگا دیا گیا۔ عجب ستم ظریفی ہے جس کی مثال شاید ہی دنیا کے کسی کونے میں ملے کہ حکومتِ وقت کے نیب زدہ ممبران کو ہی نیب قوانین میں ترمیم کا ٹاسک سونپ دیا گیا ہے، سونے پہ سہاگا، مختلف ذرائع سے موصول ہونے والی چہ مگوئیوں کے مطابق یہ نیب زدہ اہلکارنیب لاہور کے ہاتھوں شکار ہوئے، عوامی نمائندوں کے ہاں بیٹھک کننداں ہوتے رہے تاکہ ممکنہ طور پر اس مرتبہ کوئی ایسا شاہکار تشکیل دیا جا سکے جو برسر اقتدار پارٹی کے ساتھ ساتھ اتحادیوں اور اپوزیشن کو بھی بہ آسانی ہضم ہو سکے۔ بظاہر تو اصل مقصد ’’ہاضمے‘‘ کا ہے کہ ماضی میں دی جانیوالی سبسڈیوں کے کھربوں روپے بھی اچھی طرح ہضم ہو سکیں اور آئندہ کیلئے بھی بلا پوچھ گچھ راہ ہموار ہو سکے۔ اقوم متحدہ کی 2004ء میں ہونیوالی تاریخی قانون سازی کی رو سے پاکستان بھی UNCAC کے تحت انسدادِ بدعنوانی کے اقدامات سرانجام دے رہا ہے، علاوہ ازیں 2011ء میں سوئٹزر لینڈ نے اہم قانون سازی کرکے بدعنوانی کے خلاف بند باندھا جس کے ثمرات آج اس ملک کی ترقی و خوشحالی کی صورت میں دیدنی ہیں۔ پاکستان میں 1999ء میں احتساب قانون کے نام سے معرض وجود میں آنے والے ادارے کی صورت میں ایک نظام احتساب رائج ہوا، ابتداء میں اعلی حکام اس کا شکار ہوئے، لیکن پھر مقتدر حلقوں کی جانب سے نیب کو آرم ٹوسٹنگ (arm twisting) کے طور پر بھی استعمال کیا جانے لگا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ ہر دور میں حکومت وقت اپوزیشن کے خلاف کڑے احتساب کا نعرہ لگاتی رہی اور نیب کو اس میں دھکیلتی رہی لیکن ہر مرتبہ حاصل حصول صفر بٹا صفر کے مصداق عوام کا اعتماد احتساب اداروں پہ کم سے کم تر ہونا شروع ہو گیا۔ دوسری طرف این آر او کی داستانیں بھی الگ راگ الاپتی رہی ہیں،1988ء جنرل ضیاء الحق کے دور حکمرانی میں پاکستان پر مجموعی بیرونی قرض کا حجم کل 13ارب ڈالر تھا بعد ازاں اگلے دس سالہ جمہوری دور میں 1999ء تک بیرونی قرض کو گویا ٹائر لگ گئے اور یہ 39ارب ڈالر تک جا پہنچا۔ 1999ء تا 2008ء کے ’خاکی دور‘ میں مجموعی طور پر 40.6ارب ڈالر کا اضافہ ہوا تاہم بعداسی قرض کو ایک مرتبہ پھر پر ہی جیسے لگ گئے اور اگلے 10سالہ جمہوری دور 2008تا 2018ء 40ارب سے 96ارب ڈالر تک پہنچ جاتا ہے۔ ہم جمہوریت کے لاکھ فضائل بیان کریں لیکن زمینی حقائق ہمیشہ کوئی اور ہی تصویر پیش کرتے رہے ہیں۔ یہ تو بیرونی قرضوں کی داستان (عبرت) تھی اب ذرا اندرونی قرضوں کی ستم ظریفیاں بھی نوٹ فرما لیں۔ 2008ء تک پاکستان پر اندرونی قرضوں کی مد میں 6کھرب (ٹریلین) ڈالر قابل ادا تھا جبکہ صرف 5سالہ دور 2013تک یہ 15کھرب ڈالر تک پہنچ گیا، اسی سال حکومت کیا بدلی قرض کی رت ہی بدل گئی۔ 2013تا 2018ء اگلا دورِ جمہوریت اندرونی قرض کو 15سے 30ٹریلین ڈالر تک لے گیا۔ سڑکوں کے جال بچھانے والے قرض کے ایسے جال میں ملک کو جکڑ گئے کہ خدا کی پناہ! جمہوریت میں بلاشبہ اپنا ایک مخصوص حسن پوشیدہ ہے لیکن صرف اس صورت کہ جمہوریت حسین بھی ہو اور بے راہ روی کی شکار بھی نہ ہو، علاوہ ازیں جمہوریت کی پاکدامنی بھی مثالی ہو لیکن بدقسمتی سے اگر یہ تمام ’داغ‘ جمہوریت میں رچ بس چکے ہوں تو اس نظام سے گندہ کوئی نظام نہیں۔ موجودہ حکومت نے پہلے آرڈیننس کا اجرا جن مخصوص طبقات کی پروٹیکشن کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا تھا انہوں نے گزشتہ 4ماہ کے دوران ملک کو ترقیوں و کامرانیوں کے جتنے زینے چڑھا دیا وہ کوئی پوشیدہ بات نہیں۔ پوچھ لیں ان بیورو کریٹس، ان عوامی نمائندوں یا اس بزنس مین طبقہ سے کہ انہوں نے نیب سے محفوظ ہو کر کیا شاہکار تخلیق کئے جن سے ملک کی اکانومی میں بہتری آئی؟ اگرچہ معزز عدالتوں میں کرپشن کیسز سے ضمانتوں کی صورت جان خلاصی کیلئے آنے والوں کی لمبی لائنیں لگ گئیں اور چند ایک تو آرڈیننس کی چھتری تلے پتلی گلی سے راہ فرار حاصل کرنے میں کامیاب بھی ٹھہرے۔ جبکہ دیگر فی الحال اس انتظار میں بیٹھے ہیں کہ کب نیا آرڈیننس آئے اور نیب کو اس کے نوکیلے دانت اور پنجوں سے محروم کرے، جن کی مدد سے وہ ہڑپ کیا ہوا بہت کچھ نکلوا سکتا ہے۔وقت حاضر میں ترک حکومت کا سب سے اہم و کلیدی عمل ان کی بہترین گورننس ہے، ملائیشیا کے معروف رہنما مہاتیر محمد کا یہ قول آج بھی ذہن میں گردش کر رہا ہے جسکے مطابق ’’اگر حکمران کرپٹ نہ ہوں تو کرپشن کبھی نہیں پھلتی پھولتی‘‘ لیکن روز افزوں بگڑتی ملکی اکانومی سمجھ سے بالاتر ہے۔ بطور سیاسی طفل مکتب، موجودہ حکومت کی وہ مجبوری بھی میری سمجھ سے تاحال بالاتر ہے جس کی وجہ سے آرڈیننسوں کی لائن لگائی جا رہی ہے اور ہر مرتبہ نیب کو کمزور سے کمزور تر کرنے کی سعی کارفرما ہے۔ ماضی میں جو احتساب سے مبرا سمجھے جاتے تھے آج کی نیب میں قید و بند رہنے کی صعوبتیں تک برداشت کر چکے۔ کم و بیش ہر میگا کرپشن کیس کی تحقیقات برق رفتاری سے جاری ہیں بلکہ اکثریت کے چالان بھی داخل عدالت کئے جا چکے لیکن پھر بھی اب کس بات کا رونا ہے۔ وہ وزیراعظم جو کبھی سر عام یہ وارننگ دیتا دکھاتی دیتا تھا کہ اسے کسی کرپٹ سے مصلحت کی نصیحت سے گریز کیا جائے وہ احتساب کے معاملے میں اس نہج پر آ پہنچے گا، سمجھ سے بالاتر ہے۔ ملائیشیا اور ترکی سے روابط بڑھانے والا، ان کے نظام پاکستان میں نافذ العمل کرنے کی خواہش رکھنے والا آج نیب زدوں سے نیب آرڈیننس بنوانے کا خواہشمند ہے، کیوں؟

تازہ ترین