اپنی جغرافیائی حیثیت اور گیم چینجر منصوبے سی پیک کے باعث بلوچستان اس وقت دنیا بھر کی نظروں میں ہے، بالخصوص شاہراہ ریشم کے توسیعی منصوبے سی پیک کے باعث اس کی اہمیت دنیا بھر میں محسوس کی جا رہی ہے۔ جسے بلاوجہ گیم چینجر منصوبہ نہیں کہا جا رہا۔ معدنیات سے مالا مال اس خطے کے وسائل تصرف میں لائے جائیں تو یقیناً ایک نہ ایک دن ختم ہو سکتے ہیں لیکن سی پیک ہمیشہ ہمیشہ کے لئے پاکستان کے معاشی استحکام کا ضامن رہے گا۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے اسی تناظر میں کوئٹہ میں ہیڈ کوارٹر سدرن کمانڈ کے دورے کے موقع پر کہا کہ ’’بلوچستان پاکستان کا مستقبل ہے جس کے امن کے لئے تعاون ہمارا فرض ہے، پُرامن بلوچستان کے لئے حکومت اور عوام کی مکمل مدد کریں گے‘‘ آرمی چیف کو پاک، افغان اور پاک ایران سرحدوں پر باڑ لگانے سمیت وبائی امراض سے لڑنےکے لئے سول انتظامیہ سے تعاون اور علاقے کی سماجی و معاشی ترقی کے اقدامات سے آگاہ کیا گیا۔ گیریژن قرنطینہ کے انتظامات و سہولیات کو سراہتے ہوئے انہوں نے افسروں اور جوانوں کی پیشہ ورانہ مہارت کی تعریف کی اور تمام افسروں کو دور دراز علاقوں تک پہنچنے کی ہدایت دی۔ یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں کہ 1973میں صوبہ بنائے جانے کے بعد بھی بلوچستان کے بعض لوگ وفاق کے رویّے کے شاکی رہے یہ الگ بات کہ ان کے مقاصد کچھ اور تھے پھر بھی وفاق نے بلوچستان کے تحفظات دور کرنے کے لئے اپنے تئیں ہر کاوش کی۔ خاص طور پر افواج پاکستان نے صوبے کے امن اور ترقی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور آج صورتحال مختلف ہے ، ورنہ مختلف پاکستان مخالف قوتوں کے دہشت گرد اسے زد پر لئے ہوئے تھے۔ سی پیک کے لئے قیامِ امن صرف حکومت اور فوج کے باہمی فیصلوں سے ممکن ہوا، جسے برقرار رکھنا لازم ہے، آرمی چیف کے اس سلسلے میں بیان سے امید ہے کہ وہ پاکستان کے ہر حصے کو دشمن سے محفوظ رکھیں گے اور پاکستان اپنے مقاصد ضرور حاصل کرے گا۔