محمد اکرم خان
ایڈیٹر، جنگ فورم، کراچی
یوٹیلیٹز کی مد میں حکومت کی طرف سے انڈسٹریز کو خاطر خواہ ریلیف نہیں مل سکا،ٹیکسٹائل ایکسپورٹ انڈسٹری سے منسلک تمام الائیڈ انڈسٹری کو بھی کام کرنے کی اجازت دی جائے۔
الائیڈ انڈسٹری لاک ڈائون کے دوران کام کرنے کے لیے حکومت کی طرف سے عائد قواعد و ضوابط پر عمل کرنے اور حلف نامے جمع کروانے کے لیے تیار ہے انڈسٹریز میں کام کے دوران تمام حفاظتی تدابیر پر عمل درآمد یقینی بنایا جائے گا،ٹرن اوور ٹیکس رواں سال اور اگلے 2سالوں کے لیے ختم کیا جائے، فعال ٹیکس فہرست میں شامل ٹیکس دہندگان کے لیے تمام ودہولڈنگ ٹیکس ختم کیا جائے،16 فیصد اور 20فیصد ٹیرف اسٹرکچر کو یکساں ہی رکھا جائے۔حکومت کو ذیلی اجزاء، اجزاء اور تیار اشیاء کی درآمد کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے، ایس آر او / شیڈول وی کا خاتمہ کیا جائے۔3فیصد اور11فیصد سلیبوں پر اے سی ڈی اور آر ڈی ہٹائی جائے
محمد سلیمان چاؤلہ
صنعتوں کے فروغ میں سب سے بڑی رکاوٹ بڑھتی ہوئی پیداواری لاگت ہے،حکومتی پالیسیاں انڈسٹری کی مخالف رہی ہیں،بجلی کی قیمتوں میں بھی 25 سے 30 فی صد کمی لائی جائے۔
پالیسی ریٹ 7فیصد پر لایا جائے بجلی، گیس اور پانی کے نرخوں میں 50فیصد تک کمی کی جائے،پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کوبھی 50فیصد تک کم کیا جائے،سیلز ٹیکس، انکم ٹیکس، ودہولڈنگ ٹیکس اور فیڈرل ایکسائز ٹیکس کو موجودہ شرح سے آدھا کیا جائے، معیشت کو دستاویزی شکل دینے کے لیے آسان اور قابل عمل پالیسی وضع کی جائیں،غیر رجسٹرڈ افراد کو مال کی فروخت پر 3فیصد اضافی ٹیکس کو واپس لیا جائے،سیلز ٹیکس کی شرح کو 17فیصد سے کم کرکے سنگل ڈیجٹ پر لایا جائے، ٹیکس دہندگان کا آڈٹ3سالوں میں ایک بار سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے ۔ کمشنرز کے بےجااختیارات واپس لیے جائیں
شیخ عمر ریحان
کورونا وائرس کی وبا نے دنیا بھر کے کاروبار کو خطرے سے دوچار کردیا ہے۔ دنیا کی مضبوط معیشتیں زوال پذیر دکھائی دے رہی ہیں۔ ایسے میں ترقی پذیر، کم ترقی یافتہ اور غربت کا شکار ممالک پر تو گویا قیامت ہی ٹوٹ پڑتی دکھائی دے رہی ہے ۔ پاکستان کا شمار بھی ترقی پذیر معیشتوں میں کیا جاتا ہے۔ بیرونی امداد اور قرضوں پر چلنے والی معیشت کے مستقبل کو لے کر بے شمار خدشات جنم لے رہے ہیں۔ کاروباری طبقے کی نظریں حکومتی ریلیف، اقدامات پر ہیں جو ابھی تک اس حوالے سے ناکافی دکھائی دیتے ہیں۔نیا بجٹ جون کے پہلے ہفتے میں متوقع ہے۔ کاروباری طبقے کی نگاہیں آنے والے بجٹ پر مرکوز ہیں، صنعت کا شعبہ پاکستانی معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہے۔ صنعتوں کو بچانے اور سہارا دینے ، حکومت بجٹ میں کیا پالیسی اپنائے، کون سے ضروری اقدامات کرے، یہ جاننے کے لیے ’’کرونا اثر، پاکستانی صنعت اور نیا بجٹ‘‘ کے موضوع پر ایک ٹیلی فونک جنگ فورم کا انعقاد کیا گیا۔ فورم میں کورنگی ایسوسی ایشن آف ٹریڈ اینڈ انڈسٹری کے صدر شیخ عمر ریحان اور سائٹ ایسوسی ایشن آف انڈسٹریز کے صدر محمد سلیمان چائولہ نے اظہارِ خیال کیا، فورم کی رپورٹ پیشِ خدمت ہے۔
شیخ عمر ریحان
صدر، کورنگی ایسوسی ایشن آف ٹریڈ اینڈ انڈسٹری
شیخ عمر ریحان نے کرونا وائرس کے پھیلاؤ کی روک تھام کے لیے وفاق باالخصوص سندھ حکومت کے اقدامات کو سراہا ہے مگر ساتھ ہی حکومت کی توجہ ملک میںجاری سنگین معاشی بحران اور کرونا لاک ڈاؤن سے صنعتوں پر پڑنے والے بدترین اثرات کی جانب مبذول کرواتے ہوئے کہا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان اور ان کی معاشی ٹیم نے کورونا وائرس جیسے عالمی بحران کا مقابلہ کرنے کے لیے صحت اور معیشت دونوں محاذوں پر قابل تعریف حکمت عملی اپنائی ہے معاشی استحکام کا واحد راستہ صنعتوں کا فروغ جس کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بڑھتی ہوئی پیداواری لاگت ہے ۔
شیخ عمر ریحان کا کہنا تھا کہ کرونا جیسی وبا سے نمٹنا آسان نہیں اس کے لیے ہمیں مل جل کر ملک و قوم کو کام کرنا ہوگا اور عوام کی زندگیوں کو محفوظ بنانا ہوگا کیونکہ لگ ایسا رہا ہے کہ کچھ عرصے زندگی کرونا کے ساتھ ہی گزرنے والی ہے یعنی ہمیں اس کی موجودگی کو مدنظر رکھتے ہوئے آئندہ کی حکمت عملی وضع کرنا ہوگا ۔ کرونا نے تجارت وصنعت کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے ۔حکومت نے 2ماہ سے زائد عرصے لاک ڈاؤن کیا اور اب اسمارٹ لاک ڈاؤن کے تحت نرمی کی ہے ۔ حکومت نے ایس اوپیز کے ساتھ کاروباروصنعتوں کو بتدریج کھولنے کی اجازت دی ہے لیکن حکومت کو صنعتوں کو دوبارہ معمول کے مطابق پیداواری سرگرمیاں بحال کرنے میں مدد کرنا ہوگی۔ سب سے پہلے صنعتوں کی پیداواری لاگت میں کمی کے اقدامات کیے جائیں اور ٹیکسوں میں کمی کرتے ہوئے یوٹیلیٹی چارجز کو مناسب حد تک کم کیا جائے باالخصوص بجلی و گیس کے نرخوں میں نمایاں کمی کی جائے کیونکہ عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمت تاریخ کی نچلی سطح پر دیکھی گئیں لہٰذا حکومت پاکستان کو بھی دیگر ملکوں کی طرح تیل کی کم ہوتی قیمتوں کے فوائد عوام تک پہنچانے چاہیے۔
کروناوبا کی وجہ سے صرف امریکا میں ایک اندازے کے مطابق ڈیڑھ کروڑ لوگ بے روزگار ہوچکے ہیں۔موجودہ صورت حال میں ملک میں بے روزگاری کو کیسے روکاجائے اس پر بہت زیادہ سوچ بچار کے بعد کام کرنے کی ضرورت ہے ورنہ بے روزگاری کا نہ تھمنے والا سیلاب امڈ آئے گا جس کو سنبھالنا ممکن نہیں ہوگا تاہم اس کا واحد حل صنعتوں کو فروغ دینے میں ہے ۔ حکومت صنعتکاروں، اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مشاورت کرے اورکروناوباکے اثرات کو مدنظر رکھ کر پالیسیاں مرتب کی جائیں تب ہی ہمارا ملک کرونا کے اثرات سے بچ پائے گا بصورت دیگر نہ تجارت رہے گی اور نہ صنعتیں ۔ لہٰذا حکومت آگے آئے اور اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر ملکی معیشت کو تباہ ہونے سے بچائے۔
انہوں نے صنعتوں کو درپیش مسائل کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ کورونا وائرس اور لاک ڈائون کے باعث وقت پر آرڈر مکمل نہ ہونے کی وجہ سے صنعتوں کو کیش فلو کا مسئلہ درپیش ہے۔ صنعتیں کے الیکٹرک کی جانب سے بجلی کے بلوں پر طلب کیے جانے والے اضافی آئی ایس پی اے چارجز ادا کرنے کی متحمل نہیں۔ آئی ایس پی اے کے معاملے پر کئی صنعت کاروں کو عدالتوں میں جانا پڑا اور کئی مجبوراً یہ چارجز بھی ادا کرچکے ہیں۔ وفاقی حکومت کے الیکٹرک کو اضافی چارجز طلب کرنے سے روکنے کے لیے فوری اقدامات کرے۔ شیخ عمر ریحان کا کہنا تھا کہ برآمداتی صنعتوں کے لیے ساڑھے 7 سینٹ کے نرخ کی منظوری کے باوجود کے الیکٹرک ریلیف دینے کے لیے تیار نہیں ہے، اور نرخوں میں رعایت اور انڈسٹریل سپورٹ پیکیج کے لیے بھی صنعت کاروں کو عدالتوں کے دروازے پر دستک دینا پڑی ہے۔
انہوں نے کہا کہ کراچی جیسے شہر میں بجلی کی پیداوار اور فراہمی پر کسی ایک کمپنی کی اجارہ داری نہیں ہونی چاہیے حکومت کو اس کے لیے مسابقت کاروں کو بھی مواقع فراہم کرنے چاہئیں۔ کراچی سب سے زیادہ ریونیو دیتا ہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ اس شہر کو وہ اہمیت نہیں دی جاتی جس کا یہ مستحق ہے۔ کراچی کی سب سے بڑی نمائندہ جماعت ہونے کے باوجود تحریک انصاف نے صنعتوں کو درپیش مسائل اور بالخصوص بجلی کے بلوں میں انڈسٹریل سپورٹ پیکیج ایڈجسٹمنٹ کے معاملے میں اپنا کردار ادا نہیں کیااور صنعت کاروں کو یہ مسئلہ عدالت میں لے جانا پڑا۔
شیخ عمر ریحان نے کہاکہ صنعتیں انڈسٹریل سپورٹ پیکیج کی ایڈجسٹمنٹ کے نام پر کے الیکٹرک کے بھیجے گئے بجلی کے اضافی بل ادا کرنے کی متحمل نہیں۔وزیر اعظم پاکستان صورت حال کو فوری نوٹس لیں۔ ایک جانب ملک کورونا وائرس وبا کے باعث شدید ترین بحران سے دوچار ہے وفاقی و صوبائی حکومتیں اپنی اپنی سطح پر صنعتوں کو ریلیف دینے کی کوشش کررہی ہیں لیکن ایسے حالات میں بھی اگر بجلی کے اضافے بل آتے رہے تو صنعتوں کی بقاء مزید مشکل ہوجائے گا۔ فروری میں جب ایڈجسٹمنٹ کے نام پر اضافی بل بھیجے گئے تھے اس وقت بھی کاٹی اور دیگر صنعت کار نمائندوں نے آواز اٹھائی تھی۔کاٹی کی جانب سے وزیر اعظم کو خط بھی لکھا گیا تھا لیکن مارچ کے بلوں میں ایک بار پھر یہ اضافی بوجھ شامل کردیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم، وزارت توانائی اور تمام متعلقہ ادارے فوری اس صورت حال کا نوٹس لیں صنعتیں موجودہ حالات میں پہلے ہی شدید مالی بحران کا سامنا کررہی ہیں۔انہوں نے کہا کہ صنعت کار موجودہ ملکی حالات میں معیشت کو سہارا دینے اور حکومت کے ساتھ تعاون کی بھرپور کوشش کررہے ہیں ایسے مسائل سے ان کوششوں کو نقصان پہنچ رہا ہے، وزیر اعظم عمران خان سے اپیل ہے کہ وہ موجودہ بحران میں ترجیحی بنیادوں پر اس صورت حال کا نوٹس لیں۔
انہوں نے مزید کہاکہ گزشتہ دو تین سالوں سے انڈسٹری بحران کا شکار ہیں۔ حکومتی پالیسیاں انڈسٹری کی مخالف رہی ہیں۔اب کورونا وائرس نے انڈسٹری کو متاثرکرنا شروع کردیا ہے۔کوئی بھی انڈسٹری اتنی طاقتور نہیں ہوتی جو تین چار ماہ تک اپنے خرچے پر سب کو تنخوا ہ دے۔ہم بے روزگاری کو روک نہیں سکتے۔اسٹیٹ بینک نے بے روزگاری کو روکنے کیلئے ایک پالیسی متعارف کرائی جس میں چار پانچ فیصد مارک اپ رکھا گیا ہمارے نزدیک وہ بھی نہیں ہونا چاہیے تھا۔حکومت کو چاہیے فوری طورپر یہ مارک اپ ختم کرے۔دنیا کے کئی ممالک نے بجلی اور گیس کے بل ختم یا کم کیے جبکہ ہمارے ملک میں بجلی اور گیس کے بلوں میں رعایت بھی نہیں دی جارہی۔صرف چند ماہ کی مہلت وہ بھی کم یونٹ استعمال کرنے والوں کو ہے جو کافی نہیں جبکہ انڈسٹری کوکوئی فائدہ نہیں دیا گیا۔
انہوں نے صنعتوں کودرپیش اہم مسئلے کی طرف توجہ مبذول کرواتے ہوئے کہاکہ کے الیکٹرک نے بلوں میں آئی ایس پی اے لگایا ہوا ہے جس سے انڈسٹری کو نقصان ہورہا ہے۔کئی فیکٹریوں کو ایک ایک کروڑ کا آئی ایس پی اے کی مد میں بل آیا ہوا ہے جو وقتی طور پر کوروناکی وجہ سے ایک ماہ کیلئے ملتوی کیا گیا جو بعد میں لیا جائے گا۔ ہم وفاقی حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ فوری طورپر آئی ایس پی اے کو واپس لیا جائے۔حکومتی اقدامات سے صنعتیں تباہ ہورہی ہیں۔ہماری پالیسیاں اس وقت کار آمد ہوں گی جب ہم انسانی جانوں کے ساتھ ملکی معیشت کو بھی بچانے کے اقدامات کریں اور اگر صورت حال ا سی طرح خراب ہوتی رہی تو ڈر ہے کہ لوگ سڑکوںپر آنا نہ شروع ہو جائیں۔انہوں نے سوال اٹھایا کہ ورکرز ویلفیئر ز فنڈ میں اربوں روپے ہیںوہ مزدوروں کی فلاح کیلئے کیوں خرچ نہیں کئے جارہے؟ سندھ حکومت کو اس فنڈز کو ورکرز کو معاشی بدحالی اور فاقہ کشی سے بچانے کے لیے استعمال کرنا چاہیے
کاٹی کے صدر نے زیر اعظم پر زور دیا ہے کہ ملک کے آئندہ معاشی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے صنعتوں کی پیداواری لاگت کم کرنا ناگزیر ہے۔انہوں نے مطالبہ کیا کہ ملکی و عالمی سطح پر پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں غیر معمولی کمی کے بعد بجلی کی قیمتوں میں بھی کمی لائی جائے۔ ملک کی بجلی کا ایک بڑا حصہ تیل سے حاصل کیا جاتا ہے اور اب اس کی قیمتوں میں غیر معمولی کمی آگئی ہے اس لیے گھریلو صارفین اور صنعتوں کو ریلیف دینے کے لیے بجلی کی قیمتوں میں بھی 25 سے 30 فی صد کمی لائی جائے۔ نرخوں میں کمی کے سبب گریلو صارفین پر بھی اس کے مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔
شیخ عمر ریحان نے کہا کہ اس بحران میں حکومت کو توانائی کے شعبے میں صنعتوں کے اضافی اخراجات کم کرنے کا موقع ملا ہے۔ کورونا وائرس سے پیدا ہونے والا معاشی بحران ابھی شروع ہوا ہے۔ آئندہ چند ماہ میں اس کی شدت مزید بڑھ سکتی ہے اس لیے صنعتی پیداوار کو رواں دواں اور برآمدات کو سہارا دینے کے لیے پیشگی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
صدر کاٹی کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم عمران خان نے اس بحران میں پہلے دن سے معاشی صورت حال پر توجہ مرکوز رکھی ہے اور حقیقت پسندانہ اپروچ اپنائی ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ بالخصوص صنتعوں کو بجلی کی قیمتوں میں مزید ریلیف فراہم کرنے سے ملک کو آئندہ کے معاشی چیلنجز کا مقابلہ کرنے لیے تیار ہونے میں مدد ملے گی۔
کاٹی کے صدرنے حکومت کو تجویز دی کہ تمام سیکٹرز کو یکساں بنیاد پر کاروباری مواقع فراہم کیے جائیں انفرادی طور پر کسی کو رعایت نہ دی جائے تاکہ صنعتیں برابری کی بنیاد پر اپنی پیداواری سرگرمیاں جاری سکیں اور ان کی لاگت میں کسی حد تک کمی واقع ہوسکے کیونکہ زائد پیداواری لاگت کی وجہ سے ملکی صنعتیں عالمی مارکیٹ میں مسابقت کی سکت کھوتی جارہی ہیں لہٰذا پہلے ہمیں ملکی صنعتوں کو مضبوط بنانا ہوگا اور عالمی مارکیٹ میں مسابقت کے قابل بنانا ہوگا تب ہی ملکی برآمدات میں خاطر خواہ اضافہ ممکن ہوسکتا ہے۔
پالیسی ریٹ 7فیصد پر لانے بجلی، گیس اور پانی کے نرخوں میں 50فیصد تک کمی کی جائے۔پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کوبھی 50فیصد تک کم کیا جائے۔سیلز ٹیکس، انکم ٹیکس، ودہولڈنگ ٹیکس اور فیڈرل ایکسائز ٹیکس کو موجودہ شرح سے آدھا کیا جائے۔ٹیکسوں کی شرح میں کمی سے مقامی اور عالمی مارکیٹوں میں مسابقت میں مدد ملے گی اور ملکی مصنوعات کی برآمدات کو فروغ حاصل ہوگا۔ٹیکس نیٹ کو بڑھاتے ہوئے ٹیکس کے موجودہ نظام میں اصلاحات لائی جائیں۔معیشت کو دستاویزی شکل دینے کے لیے آسان اور قابل عمل پالیسی وضع کی جائیں۔ غیر رجسٹرڈ افراد کو مال کی فروخت پر 3فیصد اضافی ٹیکس کو واپس لیا جائے۔ سیلز ٹیکس کی شرح کو 17فیصد سے کم کرکے سنگل ڈیجٹ پر لایا جائے۔ ٹیکس دہندگان کا آڈٹ3سالوں میں ایک بار سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے اور کمشنرز کے بے جااختیارات واپس لیے جائیں۔سیکشن153(اے) کے تحت فائلرکمپنیوں اور رجسٹرڈ افرادکے ذریعے مال کی فراہمی پرودہولڈنگ ٹیکس4سے4.5فیصد کا ٹ لیا جاتا ہے جو کہ بہت زیادہ ہے اسے ایک فیصد کیا جانا چاہیے۔ڈائریکٹوریٹ آف انٹیلی جنس اور انویسٹی گیشن کو دیے گئے اختیارات ختم کیے جائیں۔
محمد سلیمان چاؤلہ
صدر،سائٹ ایسوسی ایشن آف انڈسٹریز
ایسوسی ایشن آف ا نڈسٹریزکے صدرمحمد سلیمان چائولہ نے جنگ فورم سے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ مختلف بحرانوں کے بعد کورونا وبا نے پاکستان کی ٹیکسٹائل ایکسپورٹ انڈسٹری پر تباہ کن اثرات مرتب کئے ہیں۔عالمی سطح پر لاک ڈائون اور پاکستان میں کورونا کے کیس رپورٹ ہونے پر اچانک اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لئے بغیر سندھ حکومت نے 23مارچ سے کراچی میں مکمل لاک ڈائون کا آغاز کر دیا اور سوائے ضروری خدمات کی انڈسٹریز جن میں فوڈ آئیٹمز اور ادویات کی صنعت شامل ہے ان کے علاوہ تمام انڈسٹریز کو فوری طو ر پر بند کر دیا جس کی وجہ سے خاص طور پر ٹیکسٹائل ایکسپورٹ انڈسٹری تباہی کے دھانے پر پہنچ گئی۔
صنعتیں بند ہونے کی وجہ سے ایکسپورٹس مصنوعات کی تیاری بند ہو گئی۔ امریکہ،یورپ اور دیگر اہم ممالک کیلئے ایک بڑی تعداد میں ایکسپورٹ آرڈرز کینسل ہو گئے ہیں۔ کورونا نے انسانی جان کو خطرات لاحق کرنے کے بعد پاکستانی ایکسپورٹس پر بھی جان لیوا حملہ کر دیا ہے۔کئی ایکسپورٹ شپمنٹ جو اپنی منازل پر پہنچ گئیں تھیں انھیں خریداروں نے وصول کرنے سے بھی انکار کر دیااور ایکسپورٹرز ایک انتہائی غیر یقینی صورتحال اور عدم تحفظ کا شکار ہو گئے۔پاکستان بھر سے کئی ٹیکسٹائل ایکسپورٹرز نے رابطہ کر کے بتایا ہے کہ ایکسپورٹ آرڈر کینسل ہونے اورمکمل شدہ ایکسپورٹ شپمنٹ میں تاخیر کی وجہ سے ایکسپورٹرز کو ایل سی کے تحت پے منٹس بھی تاخیر کا شکار ہوئیں جس کی وجہ سے برآمد کنندگان کے مالی دباؤ میں کئی گنا اضافہ ہوچکا ہے۔ ان کے پاس موجودہ صورتحال میں نقدی ختم ہو چکی ہے اور ورکرز کی اجرت و تنخواہ ادا کرنے، یوٹیلیٹز کے بلز ادا کرنے اور انڈسٹریز کو چلانے کیلئے فنڈز ختم ہو گئے ہیں۔ایکسپورٹرز پہلے ہی مختلف چیلنجز اور مالی دباؤ کا شکار ہیں اور اب لیکوڈیٹی اور کیش فلو کے سنگین بحران کی وجہ سے شدید پریشان ہیں۔اربوں روپے کی ایکسپورٹرز کی رقوم حکومت کے پاس سیلز ٹیکس ریفنڈز، انکم ٹیکس ریفنڈز، کسٹمز ریبیٹ، ڈی ایل ٹی ایل اور ڈی ڈی ٹی کی شکل میں پھنسی ہوئی تھی جن کی ادائیگیاں حکومت نے موخر کیں ہوئی تھیں۔ایسی تشویش ناک صورتحال میں ایسوسی ایشن نے فوری طور پر ویلیو ایڈڈ ٹیکسٹائل ایکسپورٹ سیکٹر کی بقا کی خاطروزیر اعظم پاکستان عمران خان سے فوری طور پر نوٹس اور ریلیف کی اپیل کی کہ حکومت فوری طور پر تمام ضروری اقدامات اٹھائے اوران مشکل حالات میں برآمدی صنعتوں کے تحفظ کے لئے فوری ریلیف کا اعلان کرے۔ اس وقت ایک جنگی صورتحال کا سامنا ہے جس میں اہم ذمہ داری حکومت پر عائد ہوتی ہے۔موجودہ صورتحال میں ایکسپورٹ انڈسٹریز دیوالیہ ہو سکتی ہیں اور کئی انڈسٹریز مستقل طور پر بند ہو جائیں گی اور لامحالہ لاکھوں کی تعداد میں ورکرز بے روزگار ہو جائیں گے او ر بد امنی بڑھے گی۔
سلیمان چا ولہ نے بتایا کہ عالمی سطح پر کئی ممالک میں حکومتوں نے ریلیف پیکج کا اعلان کیا ہے جس میں کیش سبسڈیز دی گئیں، قرضوں کی شرح سود صفر کردی گئی ہے اور ٹیکسوں میں چھوٹ دی گئی۔سنگین عالمی اور قومی منظرنامے کے مطابق مطالبہ کیا کہ حکومت پاکستان بھی ایکسپورٹرز کو فوری ریلیف فراہم کرے اورجلد ازجلدایکسپورٹرز کے سیلز ٹیکس ریفنڈز کلیمزکی فوری ادا کرے،کسٹمر ریبٹ، ڈی ڈی ٹی اور ڈی ایل ٹی ایل کی ادائیگیاں کرے،ایکسپورٹ انڈسٹریز کو دی گئی ریفنانسنگ اسکیمز پر مارک اپ کی چھوٹ دے اور ادائیگیوں میں آسانی کرے،کم از کم آئندہ تین ماہ کیلئے یوٹیلیٹیز کے بلوں کو موخر کیا جائے، سابقہ بقایاجات نہ لگائے جائیں اورسرچارج کو معاف کیا جائے، ای او بی آئی اورسوشل سیکیورٹی کی ادائیگیوں، دیگر ٹیکسوں اور لیویز میں چھوٹ دے تاوقت حالات نارمل نہیں ہو جاتے۔
وزیراعظم پاکستان عمران خان نے 24مارچ کوتقریباً 1200ارب کے ریلیف پیکج کا اعلان کیا جس میں سے لیبر کیلئے 200ارب روپے مختص کئے گئے۔کم آمدنی والی فیملیزکیلئے 150بلین مختص کئے گئے ، بجلی اور گیس کے بلوں کی ادائیگی میں تاخیر ی سہولت دی گئی۔جبکہ ایکسپورٹ اور انڈسٹریز جو کورونا سے سب سے ذیادہ متاثر ہو ئی اس کو ریلیف فراہم کرنے کی خاطرفوری طور پر ٹیکس ریفنڈز کی ادائیگی کا اعلان کیا گیا اور 100ارب کے ریفنڈزکی فوری ادائیگی کی گئی۔ علاوہ ازیں فاسٹر سسٹم کے تحت بروقت ریفنڈز کی ادائیگیاں شروع ہو گئیں، زیر التواء کسٹمز ریبیٹ اور ڈیوٹی ڈرابیک آن ٹیکسس کی مد میں بھی حکومت نے ادائیگیاں کر دیں جو خوش آئند ہے جس کے لئے ہم وزیر اعظم پاکستان عمران خان اور ان کی اکنامک ٹیم کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ کرونا وبا کے پیش نظر مکمل لاک ڈائون کے باعث ایکسپورٹرز کی مشکلات خاص طور پر لیکویڈٹی مسائل میں اضافہ ہوا ہے لہٰذا وزیر اعظم پاکستان سے مطالبہ ہے کہ ہے کہ ٹیکسٹائل ایکسپورٹرز کے پرانے deferredسیلز ٹیکس اور انکم ٹیکس کے ریفنڈز کلیمز کی ادائیگیاں بھی فوری طور پر کی جائیں۔ یوٹیلیٹز کی مد میں حکومت کی طرف سے انڈسٹریز کیلئے کو خاطر خواہ ریلیف نہیں مل سکا۔اس سلسلے میں سائٹ ایسوسی ایشن نے وزیراعظم کو درخواست کی کے اوگرا نے گیس کی قیمت 60.7ڈالرمقرر کی تھی جو فی الوقت 25ڈالرپر آگئی ہے لہذا گیس نرخوں میں 40فیصد کمی کی جاسکتی ہے جبکہ آرایل این جی کی قیمت بھی2 ڈالر سے بھی نیچے آگئی ہے جس کے فوائد تمام ملکوں نے اپنی صنعتوںتک پہنچائے لہذا گیس کے زائدنرخوں اور پیداواری لاگت میں مسلسل اضافہ کے باعث ملکی صنعتیں کس طرح عالمی مارکیٹ میں مقابلہ کر پائیں گی ۔ اس مشکل وقت میں جبکہ سب کو آسانیاں پیدا کرنی چاہئیں سوئی سدرن گیس اور کراچی الیکٹرک سپلائی کمپنیاں انڈسٹریز پر مختلف اقسام کے واجبات اور ریگولیشن بلوں میں لگا کر بھیج رہی ہیں جیسا کہ زیرو ریٹڈ سیکٹرکونئے ریٹ اور اضافی سیکیورٹی کا کہا جارہاہے اور کے الیکٹرک بلوں میں فیول ایڈجسٹمنٹ اور اسپاء چارجز لگا کر بھیجا جارہاہے جو کہ اس وقت غیرمناسب ہے اور حکومت کو فوری طور پر ان کمپنیز کو ہدایت جاری کرنی چاہے ۔سندھ گورنمنٹ کا نیا آرڈینسنس بھی انڈسٹریز کے لئے زہر قاتل ہوگاکیونکہ اس میں اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت بلکل بھی نہیں ہوئی۔
سلیمان چائولہ نے بتایا کہ اس کے علاوہ حکومت نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے تحت بھی ریلیف کے لئے اقدامات کئے جس میں شرح سود میں کمی، ایکسپورٹ صنعتوں کیلئے ایکسپورٹ ریفنانسنگ اسکیم کے تحت فنانسنگ میں سہولت ، ورکرز اور اسٹاف کی تنخواہوں کی ادائیگی کیلئے 3فیصد شرح سود پر قرضہ کی فراہمی تاکہ ورکرز کی ملازمتیں ختم نہ ہوں۔یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ کئی ایکسپورٹ کی صنعتیں خاص طور پر اسمال اینڈ میڈیم ایکسپورٹ انڈسٹریز کی بڑی تعداد بینکوں کے سہولت استعمال نہیں کرنے اسلئے ان سہولیات کا انھیں کوئی فائدہ نہ مل سکا۔ ایس ایم ایز کیلئے ان اسکیمز کو آسان بنانے اور شرح سود کم کرنے کی ضرورت ہے۔لہٰذا ایس ایم ایز کیلئے علیحدہ فنانسنگ اسکیمز کا اجراء کیا جائے، شرح سود کو مزید کم کرکے 4ٰٰٓٗٗٓیا 5فیصد کیا جائے، ورکرز اور اسٹاف کی تنخواہوں کی ادائیگی کیلئے فنانسنگ کی خاطرشرح سودصفر کی جائے، ایکسپورٹ پروسیڈز رئیلائزیشن کی لمٹ 365دن تک بڑھا دی جائے۔
سلیمان چائولہ نے بتایا کہ حکومت سندھ کے کراچی میں لاک ڈائون کے آغاز کے ساتھ ہی ہم نے سندھ حکومت سے رابط کیا اور ایکسپورٹ انڈسٹریز کو ایس او پی کے تحت صنعتیں کھولنے کا مطالبہ کیا تاکہ ایکسپورٹ انڈسٹریز اپنے ایکسپورٹ آرڈرز کو مکمل کر سکیں بصورت دیگر آرڈرز کینسل ہو سکتے ہیں جس کی وجہ سے بھاری نقصان کا سامنا ہو گا۔کئی اجلاس کے بعد تقریباً ایک ماہ سے زائد عرصہ گزرنے کے بعد حکومت سندھ ایکسپورٹ انڈسٹریز کو ایس او پی کے تحت صنعت کو چلانے کی اجازت دینے پر رضامند ہو گئی۔اس حوالے سے ہم نے وفاقی حکومت سے بھی رابطہ کیا اور مشیر تجارت اور وفاقی سیکریٹری تجارت کی طرف سے سندھ حکومت کو ایکسپورٹ انڈسٹری کو چلانے کیلئے سفارشات بھجوائی گئیں۔واضح رہے کہ حکومت پنجاب نے سب سے پہلے ایکسپورٹ انڈسٹری کو چلانے کی اجازت دی جس کی وجہ سے پنجاب کی ٹیکسٹائل ایکسپورٹ انڈسٹری کو نسبتاً کم نقصان کا سامنا کرنا پڑا جبکہ سندھ کی ایکسپورٹ انڈسٹری کوانڈسٹری کھولنے کی اجازت نہ ملنے کی وجہ سے بروقت ایکسپورٹ آرڈرز مکمل نہ ہونے اور کئی ایکسپورٹ آرڈرز کے منسوخ ہونے کی وجہ سے ذیادہ نقصان اٹھانا پڑا۔سلیمان چائولہ نے بتایا کہ ملک بھر میں تقریباً ایک ماہ سے زائد عرصہ گزرنے کے بعد ایکسپورٹ انڈسٹریز نے ٹریڈ ڈولپمنٹ اتھارٹی آف پاکستان کے آرڈرز کی تصدیق اور صوبائی حکومتوں کی طرف سے خصوصی اجازت ملنے کے بعد کام شروع کر دیا ہے تاہم ممبران نے ایسوسی ایشن رابطہ کرکے درخواست کی ہے کہ ان کی الائیڈ انڈسٹریز کو بھی کھولنے کی اجازت دی جائے کیونکہ الائیڈ انڈسٹریز کی بند ش کے باعث ان کی سپلائی چین مکمل نہیں ہے اور مصنوعات کی تیاری کیلئے درکار میٹرئیل جو الائیڈ انڈسٹریز سپلائی کرتی تھیں دستیاب نہیں ہیں جس کے باعث ایکسپورٹ آرڈرز کی تکمیل ممکن نہیں۔ٹیکسٹائل ایکسپورٹ انڈسٹری کے ساتھ تقریباً چالیس سے زائد الائیڈ انڈسٹریز وابستہ ہیں۔
ہمارا حکومت سے مطالبہ کیا کہ ٹیکسٹائل ایکسپورٹ انڈسٹری سے منسلک تمام الائیڈ انڈسٹری کو بھی کام کرنے کی اجازت دی جائے۔الائیڈ انڈسٹری لاک ڈائون کے دوران کام کرنے کیلئے حکومت کی طرف سے عائد قواعد و ضوابط پر عمل کرنے اور حلف نامے جمع کروانے کیلئے تیار ہے اور انڈسٹریز میں کام کے دوران تمام حفاظتی تدابیر پر عمل درآمد یقینی بنایا جائے گا۔اس وقت تک ٹریڈ ڈولپمنٹ اتھارٹی آف پاکستان نے 834ایکسپورٹ انڈسٹریز کے آرڈرز کی تصدیق کر دی ہے جبکہ حکومت سندھ نے صرف591انڈسٹریز کو صنعتی سرگرمیاں چلانے کی اجازت دی ہے جبکہ الائیڈ انڈسٹری کو کھولنے کا ٖفیصلہ تاحال تاخیر کا شکار ہے۔
سائٹ ایسوسی ایشن آف انڈسٹری کے صدر سلیمان چاؤلہ نے کرونا سے پیدا ہونے والے سنگین معاشی بحران اور مشکل کی اس گھڑی میںایماندار ٹیکس دہندگان کو ریلیف دینے پر زور دیا ہے اور آنے والے نئے بجٹ 2020-21 کے لیے اہم تجاویز وفاقی حکومت کو ارسال کی ہیں۔ٹرن اوور ٹیکس رواں سال اور اگلے 2سالوں کے لیے ختم کیا جائے کیونکہ یہ ٹیکس مبینہ طور پر ٹیکس دہندگان کو اپنے حسابات میں نقصانات ظاہر کرنے کے لیے نافذ کیا گیا ہے۔موجودہ صورتحال کی وجہ سے اکثریت صنعتوں کو ںنقصانات کا سامنا ہے جو پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں درج کمپنیوں کے نتائج سے توثیق کی جاسکتی ہے۔ فعال ٹیکس فہرست میں شامل ایماندار ٹیکس دہندگان کے لیے تمام ودہولڈنگ ٹیکس ختم کیا جائے۔انکم ٹیکس وصول کا ایک انتہائی غیر موزوں طریقہ ودہولڈنگ کی کٹوتی کا ہے باالخصوص جب رجسٹرڈ ٹیکس دہندگان پر مسلط کیا جائے جو پہلے ہی سیکشن147کے تحت ایڈوانس انکم ٹیکس ادا کررہے ہیں۔یہ اسکیم صرف نان فائلرز یا غیر فعال ٹیکس دہندگان کے لیے ہونی چاہیے۔فعال ٹیکس دہندگان ودہولڈنگ ایجنٹس رہیں گے۔
2014سے اب تک کے 300ارب روپے سے زائد انکم ٹیکس ریفنڈ دیے جائیں۔ودہولڈنگ ریجم میں یہ ایک منفی گر ہے جہاںزیادہ ٹیکس روک لیا جاتا ہے جو واجب الادا ہے۔ودہولڈنگ ریجم مکمل طور پرنفی کرتا ہے جو ٹیکس دہندگان کی بہت بڑی رقم کو روک کر ٹیکس کی شرح کو35فیصد سے کم کرکے 29فیصدکرنے کے اثرات کو ختم کردیا ہے جس کے بارے میں سمجھا جاتا تھا کہ معیشت کو ترقی دینے کے لیے دوبارہ سرمایہ کاری کی جانی چاہیے۔
3فیصد اور11فیصد سلیبوں پر اے سی ڈی اور آر ڈی ہٹائی جائے۔خام مال اورانٹرمیڈیٹ میٹریل کے لیے ان سلیبوں کو نیچے لایا جائے تاکہ ویلیو ایڈیشن کی حوصلہ افزائی کی جاسکے۔
16 فیصد اور 20فیصد ٹیرف اسٹرکچر کو یکساں ہی رکھا جائے۔حکومت کو ذیلی اجزاء، اجزاء اور تیار اشیاء کی درآمد کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے
ایس آر او / شیڈول وی کا خاتمہ کیا جائے۔کس بھی ریجم کے تحت ایک پی ٹی سی مختلف ڈیوٹی ڈیوٹی کے لیے کبھی بھی نہیں ہونی چاہیے کیونکہ اس سے بگاڑ پیدا ہوتا ہے جس کا نفاذ ناممکن ہے۔مزید برآں رعایت سے مقامی سطح پر کسی بھی آئٹم کی تیاری کے امکانات کم ہوجاتے ہیں۔
سلیمان چائولہ نے کہا ایکسپورٹ انڈسٹری کو سہارا دینا حکومت کی اہم ذمہ داری ہے بصورت دیگر ایکسپورٹ میں شدید تنزلی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس طرح کے حکومتی امدادی اقدامات انتہائی ضروری ہیں ورنہ تشویش ناک حالات اور مختلف چیلنجز کا سامنا کرتی برآمدی صنعتوں کو افراتفری کی صورتحال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ۔