• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نادیہ ناز غوری، لانڈھی، کراچی

کتنے ماہ گزر گئے، جان لیوا وبا کورونا کا طوفان کم ہونے میں نہیں آرہا۔ سماجی فاصلے یاسوشل ڈسٹینسنگ کے شکار ہم انسانوں میں بے یقینی اور خوف کی وہ فضا ہے کہ ؎ ’’اِک بلا کوکتی ہے گلیوں میں…سب سِمٹ کر گھروں میں بیٹھ رہیں‘‘۔ رمضان بھی اِسی خوف کے سائے میں گزر گیا اور اب عید پر یہی فضا طاری ہے۔ ماضی کا شاعرانہ تقابل آج کے عہد کا سچ بن کر سامنے آیا ہے کہ ؎ ’’مِل کے ہوتی تھی کبھی عید بھی،دیوالی بھی…اب یہ حالت ہے کہ ڈر ڈر کے گَلے ملتے ہیں‘‘۔

دُنیا میں تخریب کے بے شمار مراحل قوموں پر گزرے، مگر ضرورت ہوتی ہےتخریب سے تعمیر کے پہلو کو برآمد کرکے اپنے حصّے کی شمع روشن کرنے کی۔ اگر ہم اس آفت کے مثبت پہلوؤں اور اثرات کا جائزہ لیں، تو آشکار ہوتا ہے کہ اسی ادنیٰ سے وائرس نے ہمیں احساس دلایا کہ ہم نام نہاد ترقّی، مادّہ پرستی کے چکّر میں بداعمالیوں اور سیہ کاریوں میں اتنا حد سے بڑھ گئے تھے کہ ہمارا محافظ، اللہ ربّ العزّت ہی ہم سے روٹھ گیا۔ بقول شاعر ؎ ’’ بہت پرواز کر بیٹھے،خدا ناراض کر بیٹھے…اب اُس نے جو منہ پھیرا ہے، فقط وحشت کا ڈیرا ہے‘‘۔ اسی کورونا وائرس نے ہمیں ہمارے خالق و مالک اور انسانیت کی طرف متوجّہ کیا ہے۔ اسی نے متکبّرین حکم رانوں کے غرور کا سَر نیچا کردیا۔ کیا یہ کارنامہ کم ہے کہ اس نے پوری دُنیا میں تمام عیش و طرب کے مراکز بند کروادیئے۔ 

اِسی نے انسان کو سکھایا کہ چھینکنے کا صحیح طریقہ کیا ہے، صفائی، پاکیزگی کا حقیقی طریقہ کیا ہے،جو ہمیں ہمارے نبی اکرمﷺ نے کئی سو سال پہلے سکھایا تھا اور ہمیں سادگی کا جو درس دیا تھا، جسے ہم فراموش کر بیٹھے تھے، اِسی وبا نے ہمیں یاد لا دیا کہ تقریبات اور مذہبی تہوار سادگی سے بھی منائے جا سکتے ہیں۔ اور وہ جو وائی فائی معطّل ہونے کی صُورت ہی میں بچّے، والدین سے ملاقات کیا کرتے تھے اور گھرانہ یک جا ہوا کرتا تھا، اب اسی کورونا وائرس نے خاندانوں کو ایک طویل مدّت کے بعد دوبارہ اکٹھاکردیا ۔ 

آج عملی طور پر واضح ہوگیا کہ بظاہر ایک معمولی وائرس، مگر اللہ کا ادنیٰ سپاہی انسانیت کے لیے شر کے روپ میں خیر کا باعث بن گیا اور اگر غور کیا جائے، تو ’’معاشرتی دُوری‘‘ کی تدبیر پر عمل پیرا رہتے ہوئے بھی ایّامِ قرنطینہ کی صُورت میں ایک اچھاموقع ملا ہے کہ ہم فون، ای میل یا واٹس اپ ویڈیو کال کے ذریعے ٹوٹے تعلقات استوار کریں، پیارے رشتوں کو از سرِ نو بحال کریں۔اورایک دوسرے سے رابطہ کریں کہ دُوری بھلا دِلوں کوکب دُور کر سکتی ہے، بقول اعتبار ساجد ؎ ’’ان دُوریوں نے اور بڑھا دی ہیں قُربتیں…سب فاصلے وبا کی طوالت سے مٹ گئے‘‘۔ اسلام کے ُسنہری اصولوں پر عمل پیرا ہوکر اپنی زندگیاں سنواریں، سب روٹھوں کو منالیں، سب سے راضی ہوجائیں، تاکہ ربّ بھی راضی ہوجائے۔

ہمارے مشرقی معاشرے کی خُوب صُورتی یہ بھی ہے کہ ہم سب ایک دوسرے سے جُڑے ہوئے ہیں۔ مثبت یا منفی معنوں میں، سب ہی ایک دوسرے کی خبر رکھتے ہیں،تو جو خاندان وسائل رکھتے ہیں، عید کے موقعے پر، مصیبت کی اس گھڑی میں اپنے غریب رشتے داروں کی مدد کرکے عملی محبّت کا اظہار کریں۔ اگر ہم سب مل جُل کر اپنی اپنی ذمّے داریاں احسن طریقے سے نبھائیں اور دینے اور لینے والے دونوں ہی عجزو انکسار اور شُکر گزاری(دینے والے اس لیے کہ پاک پروردگار نے انھیں اس کی توفیق عطا فرمائی) کا مظاہرہ کریں،تو نہ صرف لاک ڈاؤن کام یاب ہوگا، بلکہ کوئی شخص بھوک سے زندگی بھی نہ ہارے گا اور خاص طور پر ’’کورونا سے لڑنا ہے‘‘ کی َرٹ لگانا چھوڑ کر، سیدھی طرح اللہ ربّ العزّت کی بارگاہِ اقدس میں گڑ گڑا کر سچّے دِل سے اعتراف تو کرکے دیکھیں کہ’’ اے ارحم الرّاحمین! ہم کم زور و بے بس بندے ہار گئے، ہم گناہ گاروں،خطا کاروں کو بخش دے۔‘‘توبھلا رحمتِ خداوندی کیسے نہ جوش میں نہ آئے گی اور ہم روٹھے ربّ کو مناکر، ان نامساعد حالات میں بھی عید کی حقیقی خوشی پالیں گے۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔

تازہ ترین