• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کورونا وائرس کے علاج کیلئے سبزیوں، پھلوں کے نامیاتی مرکب کی بطور دوا منظوری

محبوب حیدر سحاب

چین کے صوبے ووہان سے رپورٹ ہونے والے کورونا وائرس کی تباہ کاریاں تاحال دُنیا بَھر میں جاری ہیں۔ یہ وائرس دیگر وبائی امراض کی نسبت اس اعتبار سے زیادہ خطرناک ہے کہ ہنوز اس کا کوئی تصدیق شدہ طبّی علاج دریافت نہیں ہوسکا ،نہ ہی کوئی ویکسین متعارف کروائی جاسکی ہے۔ چوں کہ یہ ایک نیا وائرس ہے، تو اسے سمجھنے کے لیے مختلف مُمالک میں تحقیقات کا سلسلہ جاری ہے۔ اس وقت دُنیا بَھر میں150سے زیادہ ادویہ پر تحقیق ہو رہی ہے، جن میں سے زیادہ تر وہ ہیں، جو پہلے ہی مختلف بیماریوں کے علاج کے لیے استعمال ہوتی ہیں اور اب کورونا وائرس کے خلاف ان کا ٹرائل کیا جارہا ہے۔ 

ان ادویہ میں ملیریا سے بچاؤ کی دوا کا استعمال بھی سامنے آیا، لیکن امریکی نگراں ادارے، فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن(Food And Drug Administration) نے مذکورہ دوا کوویڈ-19کے علاج کے لیے تاحال منظور نہیں کی۔ تاہم، ایف ڈی اے فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن نے ایمرجینسی کی صُورت میں ایسے مریضوں میں اس کے استعمال کی اجازت دی ہے، جو بالغ ہوں، جن کا وزن 50 کلو سے زائد ہو، جو اسپتال میں داخل ہوں اور کلینیکل ٹرائلز تک رسائی حاصل نہ ہو یا وہ ایسے کسی ٹرائل کا حصّہ بننے کے قابل نہ ہوں۔ واضح رہے کہ ملیریا کی دوا عالمی ادارۂ صحت اور برطانیہ دونوں ہی کی تحقیق کا حصّہ ہے۔ اسی طرح عالمی ادارۂ صحت کے ڈاکٹر بروس ایلوارڈ (Bruce Aylward)کا کہنا ہےکہ ایک اینٹی وائرل دوا، جودر اصل ایبولا کے علاج کے لیے متعارف کروائی گئی، اب چند دوسری بیماریوں سمیت کورونا وائرس کے لیے بھی مؤثر ثابت ہورہی ہے۔ 

یہ دوا جانوروں کے ذریعے پھیلنے والے دوسرے مہلک وائرسز کے علاج میں بھی مؤثر ثابت ہوچُکی ہے۔ مثلاً مرس (مڈل ایسٹ ریسپائریٹری سینڈروم) اور سارس (سیویئر ایکیوٹ ریسپائریٹری سینڈروم) کے خلاف۔ یونی ورسٹی آف شکاگو کی سربراہی میں کی گئی ایک تحقیق کے نتائج سے اس دوا کا استعمال مؤثر ثابت ہوا ہے۔علاوہ ازیں، ایچ آئی وی کی مختلف ادویہ کے حوالے سے بھی تحقیق کی گئی کہ آیا ان کا استعمال کورونا وائرس کے خلاف مؤثر ثابت ہوسکتا ہےیا نہیں۔ 

لیکن فی الحال کوئی ٹھوس شواہد سامنے نہیں آئے۔علاوہ ازیں، ایک طریقۂ علاج، جو طبّی اصطلاح میںConvalescent Serum Therapy کہلاتا ہے(جسے پلازما تھراپی بھی کہا جاتا ہےاورجو2014ء میں ایبولا،سارس اور مرس کی وبا پھوٹنے پر استعمال کیا گیا) آزمایا گیا، جس کے مثبت نتائج بھی سامنے آرہے ہیںاور پاکستان میں بھی چند اسپتالوں میں باقاعدہ طور پر اس علاج کی اجازت دےدی گئی ہے۔

پلازما سے علاج کے لیے کورونا وائرس سے صحت یاب ہونے والے فرد سے خون حاصل کیا جاتا ہے۔ پھر اس حاصل کردہ خون سے علیٰحدہ کیے گئے پلازما کو مریض میں منتقل کیا جاتا ہے کہ پلازما میں اینٹی باڈیز اور دیگر پروٹین شامل ہوتے ہیں۔بہرحال،عالمی ادارۂ صحت نے ان تحقیقات کے باوجود اعلامیہ جاری کیا ہےکہ دُنیا بَھر میں کہیں بھی کورونا وائرس کا مناسب یا درست علاج موجود نہیں، تاہم ایسا نہیں ہے کہ اس وائرس کو دیگر ادویہ سے روکا نہ جاسکے۔

کورونا وائرس کے علاج کیلئے سبزیوں، پھلوں کے نامیاتی مرکب کی بطور دوا منظوری
ڈاکٹر نعیم الّدین

پاکستان میں بھی اس نئے وائرس پر تحقیق کا سلسلہ جاری ہے۔حال ہی میں بین الاقوامی شہرت یافتہ پاکستانی سائنس دان، ڈاکٹر نعیم الدین کنول نے شب و روز تحقیق کے بعدکورونا وائرس کے علاج کے لیے دوا دریافت کی ہے،جو اپریل کے ابتدائی دِنوںمیں یو ایس پی اینڈ ٹی او (United States Patent and Trademark Office)میں میڈیکل ٹیسٹنگ اور فارمولے کی منظوری کے لیے جمع کروائی گئی اور اب باقاعدہ طور پر منظور کرلی گئی ہے۔ ڈاکٹر نعیم الدین کنول کے مطابق کورونا وائرس منہ، ناک اور آنکھ کے ذریعے جسم میں داخل ہوکر انسانی جسم میں ایک جیلی کی صُورت رہتا ہے۔

یہ دوا ایک کمپاؤنڈ ہے، جسے سبزیوں اور پھلوں کے نامیاتی اجزاء سے تیار کیا گیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہر طرح کے مضر اثرات سے پاک ہے۔ اس مرکب کو کیپسول، پاؤڈر، گولی، انجیکشن کی شکل میں اور بعض کیسز میں نبیولائزر میں بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ڈاکٹر نعیم الدّین کا دعویٰ ہے کہ اس مرکب کے استعمال سےمریض ایک سے دو ہفتے میں صحت یاب ہوسکتا ہے ۔ اس ضمن میںڈاکٹر نعیم الدّین کے معاون ڈاکٹر شمائل ضیاءکا کہنا ہے کہ کسی بھی طریقۂ علاج کو بین الاقوامی طور پر منظور کروانا ایک مشکل امر ہے،کیوں کہ طریقۂ علاج کے تمام تر پہلوؤں کی مکمل طور پر جانچ پڑتال کے بعد ہی عالمی ادارے سےاس کی منظوری ملتی ہے۔

واضح رہے کہ اس سے قبل بھی امریکا میں ڈاکٹر نعیم الدین کی دو ادویہ پیٹنٹ ہوچُکی ہیں،جن میں ایک براڈ اسپیکٹرم اینٹی بائیوٹکس(Broad Spectrum Antibiotics)،ہے،جو ٹائی فائیڈ اور دیگر مہلک امراض مثلاً ٹانسلز، گلے، پھیپھڑوں، گُردوں، آنکھوں، آنتوں اور جِلد کے انفیکشن کے لیے مؤثر ہے۔ اس دوا کو یو ایس پی ٹی او کے اٹارنی، مائیکل ای زال نے ادویہ کی دُنیا میں اہم پیش رفت قرار دیا۔

دوسری دوا Hyperhidrosis نامی ایک لاعلاج بیماری کے لیے متعارف کروائی گئی۔ ہائپر ہائیڈروسس ایک جِلدی بیماری ہے، جس میں سَر، چہرے، بغل، پیٹ اور ٹانگوں سے زائد پسینے کا اخراج ہوتا ہے۔ یہ مرض دُنیا کی 3 فی صد آبادی میں پایا جاتا ہے۔یہ دوا سبزی کے ذریعے بنائی گئی ، جس کا بنیادی جزو پارسلے سے حاصل کیا گیااور اس کے کوئی مضر اثرات بھی نہیں۔واضح رہے کہ امریکامیں اس دوا کو منفرد ایجاد قرار دیا گیا۔

تازہ ترین